شاعر اہل سنت مولانا محمد یعقوب حسین ضیاء القادری بد ایونی رحمہ اللہ تعالیٰ ۲۶؍رجب،۲جون(۱۳۰۰ھ؍۱۸۸۳ئ) کو بعد از نماز عشاء بد ایوں میں پیدا ہوئے تاریخ نام محمد فضل رحمن تجویز کیا گیا۔آپ کے مورث اعلیٰ مولانا خواجہ عبد اللہ چشتی بدایوں کے مایۂ نازم عالم اور مشہور محدث و مفسر تھے۔چار سال کی عمر میں والدین کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا اس لئے تربیت کا انتظام غالب و مومن کے شاگرد مولانا علی احمد خاں،اسیر بد ایونی نے کیا جب مولانا کی عمر سات سال ہوئی تو انہیں فاضل اساتذہ نے پڑھانا شروع کیا پہلے قرآن مجید پڑھایا،پھر فقہ،تفسیر اور حدیث کی کتابیں پڑھائیں۔تقریباً چودہ سال کی عمر میں آپ نے عالمانہ استعداد حاصل کرلی۔آپ نے دس سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور آخر عمر تک یہ شغل جاری رکھا۔ ۱۹۱۷ء سے ایک عرصہ تک آپ کے زیر اہتمام بد ایوں میں رجبی شریف کے عظیم الشان جلسے منعقد ہوتے رہے،تقریباً۳۵ سال تک سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے،اس کے باوجود علم و ادب کی وہ گراں قدر خدمات انجام دیں جنہیں تاریخ فراموش کر سکتی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نظم و نثر پر یکساں قدرت عطا فرمائی تھی۔
مولانا ضیاء القادری نہایت خلیق اور سراپا درد بزرگ تھے،ایثار و خلوص کی جیتی جاگتی تصویر تھے،انکسر پسند اور شگفتہ مزاج تھے،ظاہری شان و شوکت سے آپ کو کوئی لگائو نہ تھا،تقویٰ و پرہیز گاری میںسلف صالحین کا بہترین نمونہ تھے،پاک و ہند کے مشہور شعراء مثلاً شکیل بد ایونی،مضطر صابری،ماہر القادری،طالب انصاری، محشر بدایونی،سحر اکبر آبادی،تابش قصوری اور رضا قریشی آپ کے ممتاز شاگرد ہیں[1]
مولانا نظم و نثر میں تصانیف کا گرانقد ذخیرہ یادگارچھوڑا ہے۔آپ کے کلام میں بزرگان دین کی عقیدت اور دین و مذہب کا لگائو نمایاں عنصر ہیں،خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:۔
’’مولانا ضیاء القادری کے کلام میں ایسی مذہبی زندگی ہے جو ایک دفعہ کے لئے ان مردہ دلوں کو بھی گرمادے گی جو مذہبی تاثرات کے معاملہ میں بالکل ٹھنڈے ہو چکے ہیں[2] ۔‘‘
آپ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ اکمل التاریخ (۲جلد) سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول قادری کا مفصل خاندانی تذکرہ۔
۲۔ تاریخ اولیائے بدایوں ۔ ۷۔ ہفت احمد
۳۔ستارئہ چشت۔ ۸۔قصائد صبح نوارنی
۴۔ دیار نبی ۹۔ مجموعۂ اسلام
۵۔ مرقع شہادت ۱۰۔ جو ارغوث الوریٰ
۶۔ تجلیات نعت وغیرہ وغیرہ
آپ کا کلام طویل عرصہ تک آستانہ،دہلی میں شاعر آستانہ کے نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔
۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۸ء میں آپ کو حج و زیارت کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ کو یہ امتیازی شرف حاصل ہوا کہ آپ پاکستان کے سب سے پہلے حاجی تھے،اسی سفر میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر انوار پر حاضری دی۔
۱۲جمادی الاخریٰ،۱۵؍اگست(۱۳۹۰ھ۱۹۷۰۳ئ)بروز ہفتہ کراچی میں آپ کا وصال ہوا،مزار فیڈرل ایریا،کراچی میں ہے۔
[1] زاہد القادری،مولانا تجلیات نعت (ابتدائیہ)ص۶۔۸۔
[2] مکتوب مولانا محمد منشا تابش قصوری،خطیب فردوس ٹینسریز مرید کے(شیخپورہ)
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)