مظہر تجلیات خفی و جلی مولانا محب علی سندھی
مظہر تجلیات خفی و جلی مولانا محب علی سندھی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ محب علی سندھی کے حالات زندگی کے متعلق روایات میں اختلاف ہے۔ ملا عبدالحمید لاہوری کا بیان ہے کہ ’’سب سے پہلے مولانا محب علی کے جد بزرگوار علی بیگ ، بابر بادشاہ کے ساتھ آئے اور افغانوں کی جنگ میں شہید ہوئے۔ ‘‘
اگر یہ بیان درست ہے تو سمجھنا چاہئے کہ علی بیگ نے ۱۵۲۴ء اور ۱۵۲۶ء کے درمیان پنجاب کی کسی جنگ یا پانی پت کے میدان میں لڑتے ہوئے جان دی ہو گی ، لیکن ماثر رحیمی میں مولانا کے جد بزرگوار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ عبدالباقی نہاوندی کے ماثر رحیمی اور خوشگو کے سفینہ میں مولانا کے والد کا نام مولانا حیدر علی مرقوم ہے۔ قرائن بھی موید ہیں اس لئے کہ مولانا محب علی ، مصنف ماثر رحیمی کے دوست اور رفیق خاص تھے، اس لئے ان کی روایات زیادہ قابل اعتبار ہیں ۔ مولانا کے والد اگر مرزا باقی ترخانی کے عہد میں آئے تو یہ واقعہ سن ۹۷۵ھ؍ ۶۸۔۱۵۶۷ء کے بعد کا سمجھنا چاہئے۔
مولانا محب علی کس قبیلہ سے تھے، ماثر رحیمی اس بارے میں بالکل خاموش ہے۔ ملا عبدالحمید لاہوری لکھتے ہیں :
اوخودرابہ گروہ ’’کوہ بر‘‘ کہ قبیلہ است از قبائل چغتا، منسوب می شازد ۔
(بادشاہ نامہ جلد اول ص ۲۳۵)
ملا محمد صالح کنبوہ لکھتے ہیں :
از اویماق چغتا است از نسل قوم مصروف ’’کوہ بر‘‘ ۔ ( عمل صالح ج ۳ ص ۳۶۷)
چونکہ اور کوئی بیان ان کے متعلق نقل نہیں ہے اس لئے ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ چغتائی ترکوں کے قبیلہ ’’کوہ بر‘‘ سے تھے اور ان کے والد سمر قند ( روس ) سے سندھ کے شہر سیوہن شریف پہنچے۔
ماثر رحیمی میں واضح طور پر مرقوم ہے کہ مولانا محب علی سیوہن میں تولد ہوئے۔ (ماثر رحیمی ج ۳ ص ۴۸۹)
لیکن کب پیدا ہوئے؟سن ولادت کسی نے نہیں لکھا ہے لیکن بعض قرائن کی روشنی میں مولانا کی ولادت ۹۷۵ھ سے ایک آدھا برس بعد ہوئی ہو گی۔
تعلیم و تربیت:
آپ کی تعلیم کے متعلق ضروری تفصیلات کسی کتاب میں مذکور نہیں ہیں لیکن دو حقیقتیں بالکل واضح اور روشن ہیں :
اول یہ کہ مولانا نے زیادہ تر تعلیم ٹھٹھہ ( سندھ ) میں پائی جو اس وقت دارالسلطنت ہونے کے باعث علوم و فنون کا گہوارہ تھا، نہ فقط سندھ میں اسے مرکزی حیثیت حاصل تھی بلکہ مختلف فنون میں اس کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی۔
دوم دوسری حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے رسمی علوم کو بالا ستیعاب حاصل کیا پھر اپنے ذوق سلیم اور جو دت طبع کے باعث ابتدائے عمر ہی میں مرجع کمال بن گئے تھے۔
دربار سے وابستگی :
مرزا عبدالرحیم خان خاناں نہ محض : کبری دور کے یگانہ امیر تھے بلکہ علم و کمال کے مربی اور سر پرست کی حیثیت سے اسے تاریخ میں وہ بلند مقام حاصل ہے جس پر بادشاہوں کیلئے بھی رشک زیبا ہے۔ اکبر بادشاہ نے سن ۱۵۹۱ء (۹۹۹ھ) کو انہیں ملتان کا حاکم بنا کر حکم دیا تھا کہ سندھ کو جلد مسخر کیا جائے ۔
خان خاناں منزل بہ منزل ٹھٹھہ پہنچے، ۶، محرم الحرام ۱۰۰۰ھ (مطابق ۱۴، اکتوبر ۱۵۹۱ئ) جو جمعرات کے دن شہر فتح ہوا، ترخانی حکومت کی بساط لپیٹی گئی اور سندھ پھر اپنی مستقل حیثیت کھو کر تخت گاہ دہلی سے وابستہ ہوا۔
خان خاناں نے فتح سندھ کے بعد کچھ مدت تک ٹھٹھہ میں قیام کیا۔ اس کے وابستگان بھی ساتھ تھے، ان میں سے شکیبی اصفہانی جیسا باکمال شاعر بھی تھا، قیام ٹھٹھہ کے زمانہ میں مولانا محب علی سندھی کا سراغ لگایا اور ان کے فضل و کمال کا ذکر خان خاناں سے کیا۔ خان خاناں ہر وقت اہل کمال کا جو یار ہتا تھا اور پاک نفوس درویشوں سے اسے بڑی محبت تھی ، مولانا کا ذکر سنتے ہی انہیں فورا بلوایا۔ خان خاناں نے آپ کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کیا، مولانا کو ملازمت پسند نہ تھی لیکن خان خاناں کے حسن سلوک اور اخلاق حسنہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی طبیعت کے خلاف وابستگی اختیار کر لی ۔
یہ محرم ۱۰۰۰ھ؍ ۱۵۹۱ء کا واقعہ ہونا چاہے ، اس وقت سے لے کر خان خاناں کے ندیما ن خاص میں شامل ہوئے اور جب تک ا س کا سلسلہ امارت انقلابات کی گردش میں نہ آیا اس وقت تک نہ خود الگ ہوئے اور نہ قدر شناس خان نے ان کے اعزاز و اکرام میں کمی آنے دی۔
سفر حرمین شریفین :
خان خاناں نے مولانا کو اپنے خرچہ پر حج پر بھیجا ۔ مولانا کو علم و فضل اور ادب و شعر میں جورتبہ حاصل تھا اس سے کہیں بلند تر مرتبہ انہیں زہد و تقویٰ میں حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاصرین انہیں شاعر و ادیب و عالم کے بجائے زاہد و عارف اور شیخ طریقت سمجھتے تھے، وہ محض ایک رسم ادا کرنے کے لئے حجاز مقدس نہیں گئے تھے بلکہ ان کا سارا وجود خدا پرستی کے ترانوں سے معمور تھا۔ ماثر رحیمی میں درج ہے کہ سفر حج کے دوران ان پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔
حرم پاک میں پہنچتے ہین لوگوں سے گریز وانقطاع کا ذوق اس قدر غالب آیا کہ گویا دنیا کی ہر شے سے رشتہ توڑ کر الگ ہوگئے ، اکثر کسی گوشے میں بیٹھے ہوئے ذکر و فکر میں لگے رہتے، باہر نکلتے تو اکیلے نکلتے ، رفقاء سے ہر دس دن میں صرف ایک بار ملتے تھے۔ یعنی نہایت عاجزی سے عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ حج سے واپس آئے تو پھر خان خاناں کے پاس پہنچ گئے لیکن اب ان کے طریق زندگی میں اور بھی تغیر آچکا تھا۔ ماثر رحیمی کا بیان ہے کہ :
’’دن کو برابر روزے رکھتے اور رات نوافل میں گزارتے تھے‘‘۔
بیعت و خلافت :
ملا عبدالحمید لاہوری رقمطراز ہیں : زیارت حرمین شریفین کے قصد میں مولانا سورت پہنچے تو کاشف اسرار حقیقت شیخ محمد فضل اللہ ؒ کی ـ’’صحبت فیض منقبت ‘‘ سے مشرف ہوئے، وہیں بیعت کی ، انہیں سے خرقہ خلافت ملا ، پھر حج کے لئے حجاز گئے ۔ ( بادشاہ نامہ ج اص ۳۳۶)
روحانی مقام و مرتبہ :
عبدالباقی نہاوندی لکھتے ہیں :
’’درویش نہاد و فانی مشرف واقع شدہ در طرز تصوف و تذکیر و تحقیق جنید و بایز ید وقت و زمانہ خوداست ‘‘۔ ( ماثر رحیمی )
جس بزرگ کا مقا م و مرتبہ خان خاناں کے ندیموں کے نزدیک شیخ جنید بغدادی و خواجہ بایزید بسطامی وقت کا تھا، اس کی بزرگی کا اندازہ خوانند گان کرام خود لگا سکتے ہیں ۔
علم و فضل :
تمام سوانح نگاروں نے مولانا کے علم و فضل کا ذکر بڑے احترام اور عزت سے کیا ہے۔ عبدالباقی نہاوندی ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’درفن طالب علمی بے نظیر و بے مثال و فریدہ عصر و یگانہ وہراست‘‘۔
خان خاناں کے فرزند شاہ نواز خاں کے سوانح میں اس کے مصاحبوں کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ازاں مولانا محب علی سندھی است کہ از ا فاضل داعیان روزگار ہست و طبع نظم عالی دارد، انیس و جلیس ایشاں است ‘‘
خان خاناں کے پاس جو علماء و فضلاء تھے ، ان کے ذکر میں لکھتے ہیں :
’’مثل مولانا محب علی سندھی کہ امروز از مشاہیر روز گار است ‘‘۔
وصال :
عالم ربانی علامہ مولانا محب علی سندھی کے سن ولادت کی طرح سن ولادت کی طرح سن وفات میں بھی اختلاف ہے۔
جناب سید حسام الدین راشدی مرحوم لکھتے ہیں : مولانا نے ۱۰۴۷ھ تا ۱۰۶۵ھ کے درمیان کسی سال میں وفات پائی ہو گی ، اگر ملازمت کے وقت ان کی عمر ۲۵ برس کی فرض کی جائے تو ۱۰۴۷ھ کو وہ ۷۲ برس کے ہو چکے تھے، میرا خیال ہے کہ اس سے چند برس بعد وہ اصل بحق اور بحق اور غالبا خاک برہان پور ( انڈیا) کی آغوش میں محو آرام ہوئے جہاں کی آب وہوا انہیں زندگی میں بھی بطور خاص مرغوب تھی۔ ( ماخوذ : مقالات راشدی : سید حسام الدین راشدی )
مولانا محمد محسن فقیہ الشافعی
مولانا ابو المحاسن محمد محسن فقیہ الشافعی بن شیخ الوقت مولانا محمد یوسف صاحب فقیہ شافعی چشتی قادری اشرفی ۱۹۰۷ء کو سودا گر محلہ ، بھیمڑی تھانہ بمبئی ( انڈیا ) میں تولد ہوئے۔ آپ مسلکا سنی ، مذھبا شافعی مشربا چشتی اشرفی تھے۔ یعنی آپ کے والد ماجد اور آپ کے بھائی اس طرح تقریبا خاندان ’’شافعی فقہ ‘‘ پر عامل تھا۔ مولانا محمد حامد فقیہ شافعی بمبئی والے آپ کے بھائی تھے۔
تعلیم و تربیت:
تعلیم کا آغاز گھر سے کیا اس کے بعد بمبئی میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے صاحبزادے اعجاز صاحب نے بتایا کہ وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی ؒ ( متوفی ۱۹۲۱ء ) کے مدرسہ جامعہ رضویہ منظر الاسلام بریلی شریف سے ۱۹۳۶ء کو فارغ التحصیل ہوئے تھے ۔
اس طرح انہوں نے امام احمد رضا بریلوی اور آپ کے صاحبزادوں علامہ حامد رضا خان بریلوی ، مفتی محمد مصطفی رجا خان بریلوی اور دیگر اساتذہ سے استفادہ کیا ہو گا۔
بیعت:
اپنی کتاب ’’سامان آخرت ‘‘ میں اپنے نام کے ساتھ ’’چشتی قادری اشرفی ‘‘ تحریر کیا ہے اور آپ کے والد محترم کے نام کے ساتھ بھی یہی درج ہے۔ جس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ میں خاندان قادریہ جیلانیہ کچھوچھہ شریف ( انڈیا) کے کسی بزرگ سے یا خلیفہ اعلیٰ حضرت مفسر قرآن علامہ سید محمد اشرفی جیلانی محدث کچھوچھہ شریف سے دست بیعت ہونے کا شرف رکھتے تھے۔
تصنیف و تالیف:
آپ نے ایک مقام پر تحریر کیا ہے کہ :’’ جب یہ فقیر نصاب نظامی سے فارغ ہو کر اپنے اساتذہ کرام کے حکم سے مشغول تصنیف ہوا تو حضرت ( والد صاحب ) نے اس اعلیٰ خدمت کا حکم صادر فرمایا کہ سب سے پہلے فقہ شافعی ( میں ) تصنیف کروں ‘‘۔ ( سامان آخرت ص ۴)
اس سے واضح ہوا کہ طبیعت زیادہ تر تصنیف و تالیف کی طرف مائل تھی اور غالبا ۱۹۳۶ء سے انہوں نے قلمی جہاد کا آغاز کیا تھا۔ نہ معلوم کتنے مضامین ، کتابچے ، پمفلٹ اور رسائل تحریر فرمائے جس کا اس وقت کوئی محفوظ ریکارڈ نہیں اور نہ ہی آج تک موصوف کے حالات زندگی پر قلم اٹھایا گیا، اس کا اولین ذمہ دار اپنے ہی ہیں ، جن کی غفلت کی وجہ سے آپ کے تفصیلی حالات اس وقت دستیاب نہیں ۔
آپ کے صاحبزادے نے آپ کی دو تصانیف دکھائیں جن کا تعارف درج ذیل ہے۔
۱۔ سامان آخرت ( ۱۳۵۳ھ ) طبع او ل دررفاہ عام پر یس آگرہ ۔
کتاب کے پیش لفظ میں وہ تحریر فرماتے ہیں : ’’اس کتاب کے سلسلے میں پہلے مجھے عقائد کا حصہ لکھنا تھا کہ اس کی ضرورت اعمال سے بھی زیادہ ہے لیکن اس بارے میں اپنے فقہاء کرام کی ترتیب کو پسند کیا۔ جب باب الردۃ کے مسائل کا بیان آئے گا تو تمام ضروری عقائد اہل سنت و جماعت کے درج کر دیئے جائیں گے ۔ ‘‘
پیش لفظ کے آخر میں لکھتے ہیں :
’’اس ابتدا ء کا انجام بخیر کرے اور اپنے اس عاجز بندے کے قلم سے تما م حصص کی تصنیف کامل و مکمل فرمائے ‘‘۔ ( ص ۵)
ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ ( ۱) وہ فقہ شافعی کے متعلق آسان اردو میں ایک مکمل کتاب تیار کرنا چاہتے تھے۔ پہلا حصہ انہوں نے تاریخی نام ’’سامان آخرت ‘‘ ۱۳۵۳ھ؍ ۱۹۳۴ء سے آگرہ سے شائع کروایا۔ اس میں غسل تمیم حیض و نفاس کے تفصیلی مسائل درج کئے ہیں جو کہ ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ (۲) وہ عقائد اہل سنت و جماعت کو تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے۔ (۳) پہلے حصہ کے بعد مزید حصے تیار کرنا چاہتے تھے تاکہ ہندوستان میں قیام پذیر شافعی فقہ کے پیر و کار آسان سے عمل کر سکیں ۔ لیکن اعجاز صاحب کا خیال ہے کہ وہ مزید کام نہیں کر سکے اور اس کے بقیہ حصے میدان میں نہ آسکے ۔ اس کی کیا وجہ ہوئی؟ کچھ پتہ نہیں کہ پذیرائی نہ ہونے کے سبب یا پھر عدم مصروفیات آڑے آئی۔ بہر حال وجہ کچھ بھی ہوآپ مزید حصے تحریر نہیں کر سکے حالانکہ اس کے بعد بھی چالیس سال سے زائد عرصہ آپ حیات تھے اور اس درمیاں دیگر تحریر ی کام ضرور کیا۔
۲۔ حقیقۃ النسیکۃ ( مسئلہ عقیقہ ) پمفلٹ : طبع اول در رفاہ عام برقی پریس آگرہ ۔
۳۔ مسجد نبوی اور مآ ثر مبارکہ کے بقاء و تحفظ کا مطالبہ مطبوعہ کراچی ۱۹۵۲ء
شادی و اولاد:
آپ نے ایک شادی کی اس سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیا ں تولد ہوئیں :
۱۔ محمد کاظم
۲۔ محمد ناظم مرحوم
۳۔ محمد طارق
۴۔ محمد شاہد
۵۔ اعجاز احمد فقیہ ( مشہور کھلاڑی )
۱۔ رفعت محسن شیخ
۲۔ طلعت منصور خان۔
حج و عمرہ :
آپ نے ۱۹۷۹ء کو حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت عظمیٰ حاصل کی۔
خدمات:
۱۹۴۸ء کو پاکستان ( کراچی ) تشریف لائے ۔ اس سے قبل ( کتابچہ حقیقۃ النسیکۃ کے مطابق ) مدرسہ محمد یہ جامع مسجد بمبئی میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ مجاہد ملت علامہ عبدالحامد بدایونی قادری کے ساتھیوں میں سے تھے انہیں کے ساتھ تحریک پاکستان میں کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں انہی کے ساتھ استحکام پاکستان ، نفاذ اسلام اور دینی تبلیغی کام کئے اور انہی کی رفاقت میں بیرون ممالک تبلیغی دورے پر گئے ۔ وہ جمعیت علماء پاکستان کے صدر تھے تو مولانا محسن نے ناظم مرکزی جمعیت علماء پاکستان ( j.u.p )کی حیثیت سے کام کیا اور انہی دنوں علامہ بدایونی کی تصنیف ’’اسلام کا معاشی نظام اور سوشلز کی مالی تقسیم ‘‘کو جمعیت علماء پاکستان کے دفتر واقع پیر کالونی ٹین ہٹی کراچی سے ۱۹۶۹ء کو شائع کیا۔
دارالعلوم امجد یہ کراچی سے بھی برابر تعلق قائم رہا۔ جامع مسجد شافعی کو کن سوسائٹی کراچی کے بانی رکن ، پہلے امام و خطیب اور نکاح رجسٹرار کی حیثیت سے دینی خدمات سر انجام دیں ۔ وہ ہر ماہ چاند کی گیارہ تاریخ کو پابندی کے ساتھ پیران پیر دستگیر غوث اعظم غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی (بغداد شریف ) کی گیارہویں شریف ( فاتحہ ) کا اہتمام بڑی عقیدت سے کرتے تھے ۔
ہوں گی آسان ساری تیری مشکلیں
صدق دل سے غوث کی کر دے نیاز
شافعی مسجد میں سالانہ جشن عید میلاد النبی ﷺ ، ۲۷ ، رجب المرجب کو معراج النبی ﷺ اور ۲۷، رمضان المبارک کو ختم قرآن حکیم و شب قدر اور اختتام محفل و نماز جمعہ کو کھڑے ہو کر صلوٰ ۃ و سلام کا نہایت عقیدت و محبت سے اہتمام فرماتے تھے۔
وہ اہل سنت و جماعت کے مستند عالم دین اور صاحب بصیرت مفتی تھے، انہیں فقہ شافعی پر خوب دسترس تھی جس کے ثبوت میں ان کی کتاب ’’سامان آخرت ‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔
وصال :
مولانا محسن فقیہ شافعی نے ربیع الاخر ۱۴۰۰ھ بمطابق۸ ، فروری ۱۹۸۰ ء ۷۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مولانا مفتی ظفر علی نعمانی بانی دارالعلوم امجد یہ کراچی نے نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئے اور میوہ شاہ قبرستان کراچی میں کو کن برادری کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔
[مولانا مرحوم کے صاحبزادے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق نامور کھلاڑی اعجاز احمد صاحب سے ان کے گھر پر ایک ملاقات میں ان کے والد مرحوم سے متعلق انٹرویو لیا، جس کو مضمون کی شکل دی ، اس وقت میرے ساتھ کاشف بھائی ( نارتھ کراچی ) بھی تھے]
وضاحت :
۱۔ اہل سنت و جماعت کے چاروں مذاہب ( حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی ) حق ہیں ۔ چاروں اپنے اپنے امام کے مقلد ( پیروکار ) ہیں ۔ عقائد میں چاروں ایک ، مسائل فقہ میں فرق ہے۔ اصول میں ایک لیکن فروع میں فرق ہے۔ غسل ، وضو، تمیم ، نماز روزہ ، حج ، زکوٰ ۃ ، قربانی اور جانوروں کی حلت و حرمت کے متعلق چاروں مذاہب مختلف فیہ ہیں ۔ ہر ایک کے مسائل جدا گانہ ہیں ۔ چاروں کا بنیاد قرآن سنت اجماع امت اور قیاس پر مبنی ہے۔ شافعی حضرات فقہ میں حضرت سید نا امام محمد بن ادریس شافعی کے مقلد ہیں ، ان کے بتائے گئے فقہی مسائل پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ جب کہ پاکستان ہندوستان میں اکثر یت بلکہ اسی سیکڑوں مسلمان فقہ حنفیہ پر عمل کرتے ہیں ۔ برصغیر کے تمام اکابر مشائخ عظام ، علماء کرام صوفیائے ملت اسلامیہ ، فقہ حنفیہ پر عمل کرتے ہیں ۔ برصغیر کے تمام اکابر مشائخ عظام ، علماء کرام ، صوفیائے ملت اسلامیہ ، فقہ حنفیہ پر عمل کرتے تھے۔ تفصیل کیلئے ملا حظہ فرمائے۔ ( انوار امام اعظم ابو حنیفہ مطبوعہ مکتبہ امام غزالی پرانی سبزی منڈی کراچی )
میری ناقص معلومات کے مطابق پاکستان میں فقط دو عالم شافعی فقہ رکھتے تھے ایک کراچی میں مولانا محسن شافعی اور دوسرے فیصل آباد کے استاد العلماء مولانا محمد معین الدین قادری شافعی اور اس وقت دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ سوچئے کی بات یہ ہے کہ اب جو شخص فقہ شافعی پر عمل کرے گا تو رہنمائی کن سے لے گا جب کہ ان کے علماء ملک میں دستیاب نہیں اور فقہ شافعی کی کتابیں بھی ملک میں عدم دستیاب ہیں ۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ مولانا محسن اور ان کے والد گرامی دونوں عالم دین تھے لہذا نام کے ساتھ ’’فقیہ شافعی ‘‘ لکھتے تھے اور مناسب بھی تھا۔ مولانا محسن کے پانچوں بیٹوں نے علم دین حاصل نہیں کیا اسی طرح دیگر خاندانی افراد بھی تحصیل علم سے دور رہے لیکن اس کے باوجود مذکرو موٗنث دونوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’فقیہ شافعی ‘‘ کو جز بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں مخلصانہ گذارش کروں گا ذرا ٹھنڈے دل سے سنیئے : فقیہ اس عالم کو کہتے ہیں جو کہ فقہ میں انتہائی دسترس رکھتے ہوں ، اس کا مطلب ہر مسجد کا امام و خطیب بھی فقیہ نہیں ہوتا۔ فقیہ مفتی سے بھی سپرڈ گری ہوتا ہے۔ جب کہ مفتی بھی عام طور پر ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا شہر میں ایک اور بڑی مشکل سے د وملتے ہیں لیکن کس قدر ظلم ہوگا کہ ایک جاہل ، بے نمازی ، داڑھی منڈ ا ، اپنے نام کے ساتھ فقیہ شافعی کو جز بنالے۔ لہذا ہر ایرے گیرے نتھو خیر ے کو جائز نہیں کہ اپنے نام کے ساتھ فقیہ لکھے ۔ اگر مولانا سے نسبت رکھنے کا جذبہ ہے تو بہت اچھی بات ہے اس سلسلہ میں مودبانہ مشورہ ہے کہ ’’محسنی ‘‘ نام کے آخر میں لگا لیا کریں جیسے اعجاز احمد محسنی وغیرہ ۔
۳۔ تیسری گذارش ہے کہ فقہ شافعی پر عوام کو چلانے کے لئے علماء و مدارس ہوں ، پڑھنے کیلئے کتابیں ہوں لیکن پاکستان میں یہ چیزیں دستیاب نہیں ۔ فقہ شافعی کی امہات الکتب کے نام تک کسی کو معلوم نہیں ۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ دہنی دسعت کو قبول کرتے ہوئے وہ فقہ حنفی اس طرح قبول کریں جس طرح سرکار غوث اعظم پیران پیر دستگیر عبدالقادر جیلانی فقہ حنبلی رکھتے تھے لیکن آپکے تمام صاحبزادوں نے فقہ حنفی کی کثرت دیکھ کر شمولیت اختیار کر لی ۔ اس میں ان کیلئے آسانیاں رہیں گی اور ان کی آسانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقیر نے مخلصا نہ مشورہ دیاہے ورنہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔
۴۔ بقول اعجاز احمد کہ مولانا کے انتقال کے فورا بعدا ن کی لائبریری دارالعلوم امجد یہ کے سپرد کر دی گئی ۔ نہ معلوم امجد یہ میں مولانا محسن کی طرح کتنے اور علماء ہوں گے جن کے ورثا ء نے ان کی کتابیں امجد یہ میں جمع کرائی ہوں گی لیکن دارالعلوم کی انتظامیہ اس قدر بے حس ہے کہ دارالعلوم کی لائبریری میں کسی عالم کی یاد میں گوشہ ( گوشہ محسن ، گوشہ منتخب ، گوشہ امیر احمد ، گوشہ ناصر، گوشہ ازہری ) قائم نہیں کیا۔
مولاناحاجی محمد قریشی
استاد العلماء مولانا حاجی محمد بن خان محمد قریشی تحصیل سیوہن شریف ، اسٹیشن بوبک ، کے نزد گوٹھ اکتڑ میں غالبا ۱۳۲۱ھ کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے قرآن مجید ناظرہ اپنے گوٹھ میں پڑھا ۔ مولانا محمد صادق ( گوٹھ پارو جو کوھ ) اور مولانا عبدالروٗف بختیار پوری کے پاس فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد مدرسہ عین العلوم امیناٹی شریف ( ضلع دادو) میں علامہ سید امیر محمد شاہ کے پاس درسی نصاب مکمل کریک فارغ التحصیل ہوئے۔علم میراث کے لئے تھر تشریف لے گئے جہاں استاد العلماء حضرت علامہ محمد عثمان قرانی مجددی ؒ سے ’’ دورہ سراجی ‘‘ کیا۔ دورہ حدیث کیلئے اجمیر شریف ( راجستھان ، انڈیا) تشریف لے گئے جہاں علم حدیث میں کمال حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے۔
درس و تدریس :
بعد فراغت مادر علمی عین العلوم میں کچھ عرصہ پڑھایا۔ دورہ حدیث کے بعد مستقل طور پر سندھ کے مختلف مقامات پر تدریسی فرائض انجام دیئے۔ ٹنڈو آدم ( ضلع سانگھڑ ) کے نزد کسی گوٹھ میں ایک سال ، حیدرآباد سندھ میں جامعۃ العربیہ میں علامہ مخدوم امیر احمد عباسی کی زیر نگرانی کچھ عرصہ ، اس کے بعد درگاہ نورانی شریف ( ٹنڈو محمد خان ضلع حیدرآباد) میں ، گوٹھ غلام حیدر ڈاھری ( تحصیل مورو) میں سات سال ، اسی گوٹھ کے قریب گوٹھ مقیم ڈاھری کے مدرسہ ’’افضلالمدارس ‘‘ میں اٹھارہ سال درس دیا۔ اس کے بعد گوٹھ راج محمد ساھیہ میں دو برس بسر کئے ۔ اس طرح ساری زندگی علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔
بیعت:
مولانا عبدالوحید قریشی ( دادو شہر ، مولانا مرحوم کے رشتہ دار ہیں ) کی روایت کے مطابق آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں شیر اہل سنت حضرت میاں شیر محمد شرقپوری مجددی قدس سرہ ( خانقاہ شر قپور شریف ضلع شیخو پورہ ) سے دست بیعت تھے۔
تلامذہ :
آپ کے نامور کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ حضرت مولانا پیر سید بچل شاہ جیلانی درگاہ نورائی شریف
٭ مفسر قرآن مولانا محمد ادریس ڈاھری شاہپور جھانیہ
٭ مولانا محمد منٹھار ٹنڈو آدم
٭ مولانا خان محمد ڈاھری
٭ مولانا محمد وارث ملاح
٭ مولانا رضا محمد غفاری
تصنیف و تالیف:
درس و تدریس کی مصروفیت کی وجہ سے شاید تحریری کام کیلئے وقت کم ملا، اس سلسلہ میں فقط ایک نام ملتا ہے۔
٭ فتاویٰ محمدی ( قلمی ) آپ کی یاد گار ہے۔
شادی و اولاد:
لاولد تھے۔
وصال :
مولانا حاجی محمد قریشی نے ۱۲، ربیع الاخر ۱۳۹۶ھ بمطابق اپریل ۱۹۷۶ء کو ۷۵ سال کی عمر میں انتقال کیا اور دادو شہر کے قبرستان لاھندی میں مدفون ہیں ۔
[مولانا الحاج محمد ادریس صاحب ڈاھری نے اپنے استاد محترم کے متعلق حالات زندگی مہیا کئے ۔ فقیر مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)