حضرت مولانا مظفر حسین رضوی بہری
حضرت مولانا مظفر حسین رضوی بہری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا مظفر حسین رضوی بہری
ولادت
امام المنطق والفلسفہ حضرت مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی بن مولانا زین الدین ضلع پورنیہ (بہار) میں ۱۳۵۸ھ کو پیدا ہوئے۔
ضلع پورنیہ کے ایک معز خاندان جو جملہ سلاسل چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، اور سہروردیہ کے سر چشمۃ فیض و برکت حضرت خواجہ بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبتی انتساب کے پیش نظر خواجہ خاندان کہلاتا ہے۔ اسی خاندان کے ایک باوقار گھرانے میں خواجہ مظفر حسین رضوی پروان چڑھے۔
مولاناخواجہ حسین کے والد ماجد مولانا زین الدین جو اپنے ضلع کے متقدر علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ آپ کا تاریخی نام مظفر حسینی رکھا۔ لیکن عرف میں آپ کا نام خواجہ مظفر حسین ہی زبان زدرہا۔ ڈھائی سال کی عمر میں آپ اپنی ماں کی مامتا سے محروم ہوگئے اور خواجہ صاحب کی پرورش خود آپ کے والد ماجد نے فرمائی۔ اس طرح والد ماجد نے بیک وقت والدین کا پیار عطا کیا۔
تعلیم وتربیت اور اساتذۃ
علامہ مولانا خواجہ مظفر حسین کی عمر جب طار سال، چار ماہ، چار دن کی ہوگئی تو والد ماجد نے رسم تسمیہ خوانی ادا کرائی اور پھر ابتداء سے شرح جامی تک خود ہی تعلیم فرمائی، آپ کا گھرانا چونکہ دیوبندیوں کی خاطر داری کے دام میں پھنسا ہوا تھا اور خواجہ صاحب کے والد زبردست عالم تھے۔ لیکن ان کی نظر میں دیوبندی اور بریلوی کا باہمی اختلاف پورے طور پر کھل کر سامنے نہیں آیا تھا۔
بایں ہمہ عملاً دیوبندیوں کے ساتھ تھے، تاآنکہ اپنے بڑے لرکے اور بھتیجے کو دیوبند اور سہارنپور میں تعلیم دلوائی۔ اور اپنے دیگر تلامذہ کو بھی دیوبند اور سہارنپور ہی بھیجتے رہے۔ اس لیے خواجہ مظفر حسین کو بھی برائے تعلیم دیوبند بھیجنا طے ہوا۔ لیکن موصوف کی کم سنی اور دیگر عوارض وعوائق کی وجہ سے یہ ارادہ فی الحال ملتوی کردیا گیا۔ اور قدرت خدا وندی سے خواجہ صاحب کا داخلہ مدرسہ بحر العلوم لطیفی کٹیہار (بہار) میں ہوگیا۔ جس میں ملک العلماء مولانا ظفر الدین احمد رضوی فاضل بہاری علامہ محمد سلیمان بھالگپوری، اور مولانا محمد یوسف پٹنوی علم دفن کے گہر لٹارہے تھے۔
اساتذہ کرام کی ظرف نگاہی نے کچھ ہی دنوں میں مولانا مظفر حسین میں بھر پور توانائی عطا کردی، یہاں تک کہ ۱۵، ۱۶ سال کی عمر میں آپ نے ضلع پورنیہ ہی میں ہزاروں دیوبندیوں عوام کے جھرمٹ میں ضلع کے دیوبندی اکابر سے مناظرہ کرکے سکتے میں ڈال دیا۔ اور پھر کچھ دنوں بعد علاقہ کے پیر طریقت مولوی عبدالمبین ملا ٹولہ جونپور کو ان کے مریدین کے ہجوم میں بحث کر کے نہ صرف خاموش بلکہ ہکا بکا کردیا۔
ان حالات کے پیش نظر مولانا زین الدین رضوی علیہ الرحمہ نے اپنے ہونہار لڑکے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا۔ اور پھر عادلانہ انداز میں بحث و مباحثہ کے ساتھ فریقین کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا کہ ان کے والد ماجد نے دیوبندی نظریات سے بیزاری و برات کا اظہار کردیا اور مسلک اہل سنت میں نہ صرف شامل ہوگئے بلکہ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوگئے۔ اس واقعہ سے پورے علاقہ میں طوفان برپا ہوگیا۔ اور ہر جگہ یہی چرچہ شروع ہوگیا کہ بڑے مولانا صاحب نے اپنے فرزند کی محبت میں مذہب تبدیل کردیا۔ لیکن دونوں باپ بیٹے کی حسن تدبیر اور مواعظ حسنہ سے نہ صرف یہ کہ طوفان تھم گیا بلکہ
ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا کی تفسیر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔ لوگ دیوبندیت سے بیزار ہوکر اہل سنت کے پرچم تلے آنے لگے۔ اس کامیابی اور فتح مبین کے وقت خواجہ مظفر حسین کی عمر صرف ۱۸سال کی تھی، اور معقولات کی منتہیٰ کتابیں ہدایہ آخرین اور احادیث کی سنن کتابیں زیر درس تھیں کہ اچانک ملک العلماء مولانا ظفر الدین احمد رضوی بہاری کی طبیعت ناساز ہوگئی اور تعلیمی سلسلہ رُک گیا۔
علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی بحر العلوم کٹیہار سے منتقل ہوکر سنیت کی راجدھانی بریلی شریف پہنچ گئے۔ یہاں ایک سال جم کر معقولات کی تعلیم حاصل کی اور عمر کے ۱۹ویں سال میں دستار فضیلت سے سر فراز ہوکر وہیں دارالعلوم مظہر اسلام بریلی معقولات کے درس ہوگئے۔
چند اہم مناظرے
علامہ خواجہ مظفر حسین کو فراغت کے دور اول میںمناظرہ ومباحثہ محبوب مشغلہ تھا۔ تا آنکہ بطور تمرین محدث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی کے فرمان کے مطابق خودان سے علم غیب کے مسئلہ پر اور بحکم علامہ خلیل احمد کاظمی محدث امروہوی خودان سے مسئلہ امکان کذب پر بھی طبع آزمائی کا موقع ملا۔ بحکم تاجدار اہلسنت حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کئی جگہ مناظرہ کے لیے بھ ی جانا ہوا۔ جن میں سے چند مقامات یہ ہیں۔ دھام پور، بجنور، ککرالہ، بدایوں، ہلدوانی، نینی تال، اور خاص شہر بریلی شریف میں ضمیر احمد صاحب کی کوٹھی پر شیعہ مجتہد سے زکاتی محلہ میں مودودی جماعت سے مناظرہ کیا۔ بفضلہٖ تعالیٰ خواجہ مظفر حسین نے چھوٹی سی نشست میں بھر پور کامیابی حاصل کی۔ اس اثنا میں حضرت مکدوم صابر کلیری علیہ الرحمہ کی زیارت کے موقع پر سہارنپور اور دیوبند بھی پہنچے۔ سہارنپور کےعلماء نے اپنے یہاں کے دس بیس ہونہار طلبہ کو اچھی طرح مشق دیکر سوڈیرھ سو طلبہ کی معیت میں برائے مناظرہ خواجہ مظفر حسین کے پاس بھیجا۔ بحمداللہ تعالیٰ صرف دو ۲ گھنٹے میں آپ نے سب کو خاموش کردیا۔ اور سب اپنا منھ لے کر رہ گئے۔
علم وفضل اور تصانیف
علامہ مظف حسین رضوی درس گاہ نظامیہ موجودہ تمام مروجہ فنون مثلاً صرف و نحو معانی وبیان، فقہ واصول، تفسیر ، حدیث وغیرہ کے علاوہ ہیت وہندسہ، توقیت و مساحت، جبرومقابلہ مناظرہ ومرایا، ارثما طیفی، لوگار ثم، علم مثلث، علم جفر، اور عمل بالخطائین وغیرہ سے بھی کافی دلچسپی مولانا خواجہ مظفر حسین کی مندرجہ ذیل کتابیں ان کی قلمی خدمات کا بین ثبوت ہیں۔
۱۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز اصلی یا نقلی
۲۔ لاؤڈ اسپیکر اور نماز
۳۔ ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر اصلی یا فرضی
۴۔ اعلیٰ حضرت اور علم جفر و مقابلہ
۵۔ اعلیٰحضرت اور جبرو مقابلہ
۶۔ اعلیٰحضرت اور علم تکسیر
۷۔ لوگار ثم کی حقیقت
۸۔ الہلال (مقالات)
۹۔ شب قدر کے فضائل
۱۰۔ دیوبندی تابوت میں آخری کیل
۱۱۔ ٹی وی کی تحقیق (ٹی۔ وی کے عدم جواز پر محققانہ اور فاضلانہ تحقیق)
بیعت وخلافت
علامہ خواجہ مظفر حسین زمانہ قیام بریلی میں مفتی اعظم قدس سرہٗ کے دست حق پرست ہوگئے تھے اور ۱۹۷۰ء میں مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا بریلوی نے اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا۔
آپ سے اکتساب فیض کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے تاہم چند تلامذہ یہ ہیں:۔
۱۔ مولانا مفتی محمد مطیع الرحمٰن مظفر رضوی پور نوی
۲۔ مولانا سید ہاشمی میاں کچھوچھوی
۳۔ مولانا سید انور چشتی مدرس جامعہ قادریہ بدایوں
۴۔ مولانا محمد انوار احمد قادری بن مفتی جلال الدین احمد امجدی
۵۔ مولانا محمد یاد علی رضوی پورنوی [1]