عرف شکر خائے تھا نیسری اپنے باطنی نور اور اندرونی فراست سے دنیا و آخرت کو دیکھتے تھے۔ زہد تمام اور ورع رکھتے تھے محبت و عشق میں ایک آیت تھے اور یاران اعلی میں اوصاف حمیدہ کے ساتھ موصوف تھے اور علاوہ ان باتوں کے اعتقاد پیر میں اپنا نظریہ نہ رکھتے تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ سلطان المشائخ کے روضہ اقدس کے آگے تشریف رکھتے تھے اور کاتب حروف بھی حاضر خدمت تھا کہ آپ نے تاویلات محبت اور رموز عشق میں بحث چھیڑدی اور اسے نہایت عمدہ طور پر تکمیل کو پہنچایا۔ کاتب حروف نے اپنے حوصلہ ضعیف کے مطابق ان امثال احکامات اور عشق آمیز ابیات درد انگیز اشعار سے جو آپ دلی جذبات اور ذوق و شوق سے فرما رہے تھے اور آپ کی اثر صحبت سے محفل میں ایک شور و اضطراب برپا تھا بہت سے نظائر مستنبط کئے اس حالت میں یہ بزرگ اپنے عشق صادق کی وجہ سے خود ذوق حاصل کر رہے تھے۔ جب یہ مجلس برخاست ہوئی تو آپ نے انتہا درجہ کی شفقت و مہربانی سے فرمایا کہ گو تم اس راہ کی قابلیت رکھتے ہو لیکن اسے عمل میں نہیں لاتے اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اپنی باطنی لیاقت کو علمی طور پر ظاہر کرو۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ کاتب حروف کے دل میں آپ کی یہ نصیحت تمام و کمال اثر کر گئی اور حق تعالیٰ سے واثق امید ہے کہ اس صاحب ذوق کے نفس کی برکت سے عمل مقبول کی توفیق دے گا۔