شیخ العلماء استاذ الفضلاء حضرت مولانا میاں نصیر احمد ابن میاں غلام محمد صوفی ۱۲۲۸ھ؍۱۸۱۳ء میں پیدا ہوئے،مروجہ علوم کی تحصیل صوبہ سرحد کے ممتاز افاضل سے کی اور مشہور عالم محقق مولانا مفتی محمد احسن المعروف بہ ھافظ دراز قدس سرہ (م۱۲۶۳ھ؍۱۸۴۷ئ) سے تکمیل کیاور سند فراغت حاصل کی،جب آپ مسند تدریس ہر فائز ہوئے تو آپ کی شہرت علمی سن کر بلخ،بخارا اور کابل کے طلباء کا آپ کے گر وجمگھٹا رہنے لگا،فارغ التحصیل علماء آپ سے کسب علم کیا کرتے تھے۔
پورے علاقے میں آپ کو فتویٰ چلتا تھا،چونکہ آپ پوری تحقیق سے فتویٰ لکھتے تھے یا مہر تصدیق ثبت فرماتے تھے اس لئے علماء آپ کی تصدیق دیکھ کر بلا تامل تائید کردیا کرتے تے۔ایک دفعہ سوات کے علماء نے فتویٰ دے دیا کہ محراب کے بغیر جماعت نہیں ہوتی،یہ فتویٰ آپ کی نظرسے گزرا تو آپ آقا پیر جان قادری،مولانا آقا سید سکندر شاہ قادری چشتی اور مولانا سراج الدین لاہوری(رحمہم اللہ تعالیٰ) کو ساتھ لیکر تحقیق حق کے لئے سوات تشریف لے گئے،تین دن کی گفتگو کے بعد علماء سوات نے پہلے فتویٰ پر نظر ثانیکی اور دوسرا فتویٰ جاری کیا،حضرت مولانا اخوند عبد الغفور صاحب سوات قدس سرہ نے ان حضرات کو بڑی قدرو منزلت کے ساتھ رخصت کیا۔
حضرت مولانا نصیر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ سلسلۂ عالیہ قادریہ نوشاہیہ سے خاندانی نسبت رکھتے تھے نیز حضرت شیخ الاسلام مولانا اخوند عبد الغفور صاحب سوات رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ قادریہ زاہدیہ میں بیعت تھے،آپ شعرو سخن کا ذوق بھی رکھتے تھے،آپ کا زیادہ ترکلام پندو نصائح اور بزرگان دین کی تعریف و منقبت پر مشتمل ہے،تصنیف و تالیف کے ساتھ بھی اچا خاصا لگائو رکھتے تھے،آپ کی تصانیف حسن عقیدہ اور کمال علمی پر شاہدعادل ہیں،چند تصانیف یہ ہیں:۔
۱۔ شرح اسماء حسنیٰ(فارسی) ۳۔ حاشیۂ شاطبی
۲۔ ترکی کافیہ ۴۔احقاق الحق،رد تقویۃ الایمان وغیرہ
علاوہ ازیں مولانا حافظ در ز پشاوری قدس سرہ کی مایہ ناز تصنیف منح الباری شرح صحیح البخاری(پارہ اول) اور اسرار الطریقۃ از حضرت شاہ محمد غوث پشاوری ثم لاہوری قدس سرہ کی تصحیح کر کے شائع کی۔کاش کوئی مرد خدا حضرت میاں صاحب کی تصانیف کو زیور طبع سے آراستہ کردے،سینکڑوں علماء نے آپ کے فیض سے خوشہ چینی کی اور دنیائے علم و فضل کے مہر ماہ بن کر چمکے۔آپ کے تین فرزند تھے،مولانا میاں محمد،مولانا گل فقیر احمد اور حافظ میں گل نظیر احمد۔
حضرت علامہ مولانا میاں نصیر احمد قدس سرہ کا ۱۸؍رجب المرجب (۱۳۰۸ھ؍۱۸۹۱ئ) کو جمعہ کے دن عصر کے وقت وصال ہوا۔آپ کی وفات پر تمام شہر بند کردیا گیا اور صوبہ سرحد کے ہزار افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی،کسی نے تاریک وفات کہی ؎
صاح لما مات مولانا نصیر احمد
الدی درسا و فتویٰ مثلہ لا یعلم
قال قوم صف لما تاریخ تلک الواقعہ
قلت مولت العالم واللہ موت العالم[1]
[1] محمد امیر شاہ،مولانا سید: تذکرہ علماء و مشائخ سرحد ج۱ ص۱۲۷۔۱۷۱
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)