شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا پیر محمد چشتی
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا پیر محمد چشتی (تذکرہ / سوانح)
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا پیر محمد چشتی، پشاور علیہ الرحمۃ
عمدۃ المدرسین حضرت علامہ مولانا پیر محمد چشتی بن محمد رحیم بن نام رحیم بن عبدالکریم بن غوث، بن میر ملک بن ڈھویا بن قلب حسین ۲۸ رجب المرجب ۱۳۵۵ھ/ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۶ء میں بمقام شاہ گروم علاقہ تریج تحصیل ملکھو ضلع چترال (صوبہ سرحد) پیدا ہوئے۔
خاندان:
آپ کے جدِّ اعلیٰ قلب حسین بدخشاں سے ہجرت کرکے چترال آئے، چترال کے اصل باشندے انہی کی اولاد ہیں۔ انگریزی دورِ حکومت سے لے کر اب تک دفاتر میں اولادِ قلب حسین کومژی قوم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
آپ کے خاندان کا اصل پیشہ زمینداری ہے اور سات پشتوں سے ہرن کا شکارخصوصی مشغلہ رہا ہے جو نہایت شہرت کا حامل رہا ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد نشانہ بازی میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔
آپ کے خاندان کے لوگ مذہباً اہلِ سنّت و جماعت ہیں اور حنفیت کے بہت زیادہ پابند ہیں۔
ابتدائی تربیت:
حضرت علامہ پیر محمد چشتی نے پانچ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی مولانا شیر محمد اور چچا زاد بھائی میر محمد کے ہمراہ اپنے ایک چچا گل محمد سے قرآن پاک کا کچھ حصہ پڑھا، جبکہ قرآن پاک کا ایک معتدبہ حصہ اپنے ایک جدِّ امجد مولانا حوالہ خان سے پڑھا۔ مولانا حوالہ خان رحمہ اللہ نہایت متقی اور پرہیزگار عالم تھے۔ علاقہ کی پسماندگی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا، اس لیے آپ قرآن پاک پڑھنے کے بعد اپنے آبائی پیشہ اور مشغلہ، زمینداری اور شکار کے ساتھ منسلک ہوگئے۔
علومِ اسلامیہ کی تحصیل:
۱۹۵۳ء میں آپ اپنے برادرِ اکبر مولانا شیر محمد اور چچا زاد بھائی میر محمد کے ہمراہ پشاور آئے اور انگور کلی چار سدہ میں مولانا عبدالعزیز نحوی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ دو سال تک یہاں فارسی، صرف، نحو اور فقہ کی ابتدائی کتب پڑھتے رہے، چونکہ یہ مدرسہ حاجی صاحب ترکی مرحوم کے زیرِ اہتمام چلتا تھا، اس لیے جب وہ بیمار ہوگئے، تو مدرسین اور طلباء کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ ختم ہوگیا۔
چنانچہ آپ نقل مکانی کرکے پشاور شہر آگئے اور دارالعلوم سرحد میں داخلہ لے لیا۔ ابتدائی کتب، استاذِ محترم مولانا عبدالعزیز کی شفقت اور محنت سے اچھی طرح پڑھی تھیں، اس لیے یہاں طلباء میں آپ کی امتیازی حیثیت تھی۔ ہر امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے علاوہ آپ سالانہ جلسہ میں عربی زبان میں تقریر بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کے امتحانات اور عربی تقاریر کا ریکارڈ اب بھی دارالعلوم سرحد میں موجود ہے۔ یہاں آپ دو سال (۵۶۔ ۱۹۵۵ء) زیرِ تعلیم رہے۔
اسی دوران تکمیلِ علوم کی خاطر آپ نے دارالعلوم دیوبند (ہندوستان) جانے کا ارادہ کیا، لیکن کوشش بسیار کے باوجود جا نہ سکے۔ در حقیقتیہ تائیدِ ایزدی تھی جس سے آپ کی زندگی میں انقلاب پیدا ہوا اور آپ راہِ حق کے بہت بڑے مبلغ بنے۔ صوبہ سرحد میں مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی کی بہت شہرت تھی، چنانچہ آپ اس شہرت سے متاثر ہوکر وہاں پہنچے، لیکن دس بارہ دن گزارنے کے بعد جب اطمینانِ قلب نہ حاصل ہوا، تو حضرت استاذ العلماء مولانا اللہ بخش رحمہ اللہ (واں بھچراں) کی خدمت میں دارالعلوم احسن المدارس (راولپنڈی) حاضر ہوئے اور ایک سال میں آپ نے نہ صرف درسی کتب کی اطمینان بخش تعلیم حاصل کی، بلکہ اختلافی مسائل کے بارے میں بھی کافی معلومات حاصل کیں۔
۱۹۵۸ء میں آپ کو استاذِ محترم نے سیال شریف میں استاذ العلماء حضرت مولانا عطا محمد بندیالوی کے پاس بھیجا، لیکن ناسازیٔ حالات کی وجہ سے آپ چند دن بعد لاہور آگئے۔
جامعہ نظامیہ رضویہ (لاہور) میں حضرت استاذ العلماء علامہ مولانا غلام رسول دامت برکاتہم العالیہ کی سرپرستی میں ایک سال گزارا، بلکہ شوقِ علم میں ۱۲ بجے جون، جولائی کی شدید گرمی میں جامعہ نظامیہ سے نیلا گنبد جاکر دیوبندی مکتبۂ فکر کے مولوی رسول خان کے پاس قاضی مبارک کے سبق میں بھی شریک ہوتے۔
۱۹۵۹ء میں آپ دوبارہ سیال شریف چلے گئے اور پھر ۱۹۶۰ء میں حضرت علامہ بندیالوی کے بندیال تشریف لے جانے پر ان کے ساتھ بندیال جاکر فنون کی تکمیل کی۔
۱۹۶۱ء میں مدرسہ عربیہ انوارالعلوم میں حضرت غزالیٔ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی دامت برکاتہم العالیہ سے دورۂ حدیث پڑھا اور تنظیم المدارس الاسلامیہ کے تحت کل پاکستان امتحان میں اول آئے۔
تدریس:
حضرت علامہ پیر محمد چشتی اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھے، اس لیے فراغت کے بعد بہت سے مدارس خصوصاً دارالعلوم غوثیہ بھیرہ، دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور، دارالعلوم غوثیہ کہروڑ پکا اور ادارہ عربیہ سراج العلوم خان پور کی طرف سے پیشکش کی گئی، لیکن آپ نے حضرت غزالیِ زماں کے حکم پر خان پور سے تدریسی زندگی کا آغاز کردیا۔
یہاں آپ نے حضرت سراج الفقہا رحمۃ اللہ علیہ سے تبرکا چند اسباق پڑھے۔
۱۹۶۴ء میں جب جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں حضرت غزالیِ زماں دامت برکاتہم العالیہ کو شعبۂ حدیث کا لیکچرر مقرر کیا گیا، تو آپ بھی جامعہ کا دو سالہ کورس کرنے کے لیے خانپور سے مستعفی ہوکر بہاول پور پہنچے۔
داخلہ کے امیدواروں کا امتحان لیا گیا تو امتحان کی سختی کی بناء پر تین سو پچاس طلباء میں سے صرف چالیس کامیاب ہوگئے۔
الحمدللہ! اس امتحان میں حضرت علامہ نے دو سو نمبروں میں سے ایک سو نوے نمبر لے کر غیر معمولی ریکارد قائم کیا۔ آپ کی اس نمایاں کامیاب سے جہاں منتظمینِ جامعہ متاثر ہوئے، وہاں مخالفین اہلِ سنّت کے لیے آپ کی یہ کامیابی پریشانی اور اضطراب کا موجب ہوئی۔
انہی دنوں آپ نے جامعہ کی ایک بہت بڑی شخصیت مولوی شمس الحق افغانی کو علمی مسائل میں لاجواب کیا۔ اتفاقاً افغانی صاحب کا تعلق بھی مخالفین اہل سنت سے تھا، چنانچہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا اور افغانی صاحب کی مخالفت کی وجہ سے آپ کے جماعت میں بیٹھنے پر پابندی لگادی گئی، اس لیے رئیس الجامعہ نے آپ کو کہا کہ آپ جہاں چاہیں رہیں، ہم آپ کو امتحان میں بھی شامل کریں گے اور ہوسٹل کا وظیفہ بھی آپ کو ملتا رہے گا، چنانچہ آپ نے اپنے استاذِ محترم کے حکم پر مدرسہ عربیہ انوار العلوم میں تدریسی فرائض سر انجام دینے شروع کیے۔
درایں اثناء حرارتِ جگر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے، تو بغرضِ علاج لاہور آئے۔ یہاں حضرت مخدوم اہلِ سنت شیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خاں رحمۃ اللہ علیہ کی وساطت سے حضرت پیر کرم شاہ دامت برکاتہم العالیہ کے چھوٹے بھائی جو ماہر ڈاکٹر ہیں، سے تشخیص کرائی، تو انہوں نے چھ سات ماہ تک مکمل علاج کا مشورہ دیا۔
اس دوران جامعہ نظامیہ رضویہ میں رہائش اختیار کی اور تدریسی امور سر انجام دینے شروع کیے۔
دو تین ماہ بعد گھر سے شادی کے لیے بلایا گیا اور یوں آپ نے تعطیلات گھر پر گزاریں۔
دس شوال المکرم کو حضرت غزالی زماں دامت برکاتہم العالیہ کے مکتوبِ گرامی پر بہاول پور پہنچے[۱]۔ اور دوبارہ مدرسہ عربیہ انوار العلوم میں تدریس شروع کی، ایک سال بعد پھر گھر چلے گئے، گھر میں سکونت کے دوران حضرت غزالی زماں نے آپ کو بلاکر جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر بھیج دیا، جہاں آپ نے دو سال تک علومِ اسلامیہ کا فیضان جاری رکھا۔
[۱۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ واپس یونیورسٹی پہنچ گئے تھے، جبکہ ناکام ہونے والے طلبہ نہیں پہنچے تھے۔ حضرت مولانا پیر محمد چشتی گھریلو معاملات کی وجہ سے جلدی نہ پہنچ سکے جس سے مخالفین نے آپ کے ناکام ہونے کا پروپیگنڈا شروع کردیا، اس سے حضرت غزالی زماں کو تشویش لاحق ہوئی اور آپ کو جلدی بلایا، آپ کے وہاں پہنچنے پر مخالفین کا منہ بند ہوگیا۔ (محمد صدیق ہزاروی)]
پشاور میں آمد اور دارالعلوم کا قیام:
صوبہ سرحد کے عوام مسلکِ اہلِ سنّت سے وابستہ اور بزرگانِ دین کے ماننے والے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے تبلیغ کے پردے میں تخریبی منصوبے کے تحت ان سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ تقیہ کے ذریعے ان مسائل کو بھی اپنایا جنہیں وہ خود تسلیم نہیں کرتے۔
حضرت مولانا پیر محمد چشتی کا ابتدا ہی سے یہ منصوبہ تھا کہ پشاور میں ایک سنی ادارہ قائم کیا جائے تاکہ مسلکِ اہلِ سنت کی اشاعت ہو اور عوام حق و باطل کی تمیز کرسکیں، چنانچہ سکھر میں دورانِ تدریس اس منصوبہ کو آخری شکل دی گئی اور مورخہ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۶۷ء کو آپ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پشاور پہنچے۔
۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۷ء بروز ہفتہ صبح ۹ بجے مسجد مہربانیاں سبزی منڈی پشاور میں جامعہ غوثیہ معینیہ کے نام سے ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی گئی۔
جامعہ کے قیام میں پشاور کے سنی حضرات خصوصا حاجی ہدایت اخوند رحمہ اللہ کی کوششوں کو بڑا دخل ہے۔
جامعہ غوثیہ معینیہ کو صوبہ سرحد کے مدارس میں یہ خصوصیت ہے کہ یہاں پاکستان کے مختلف علاقوں حتی کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان سے بھی طلباء تحصیلِ علم کے لیے پہنچے، حالانکہ صوبہ سرحد کے طلباء دوسرے مقامات پر علم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ دوسرے صوبوں کے طلباء یہاں کم آتے ہیں۔ یکم جولائی ۱۹۶۸ء کو دین بہار کالونی چار سدہ روڈ پر زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر دارالعلوم وہاں منتقل کردیا اور ابتدا میں دو کمرے کرایہ پر لیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء میں آپ کو موچی لڑا کی جامع مسجد میں خطابت کے لیے (مولانا بزرگ شاہ صاحب کے انتقال کے بعد) پیش کش کی گئی۔ اگرچہ آپ نے ابتدا میں اسے قبول نہ کیا، لیکن احباب کے پیہم اصرار اور مسلکِ اہل سنت کی خدمت کے پیش نظر آپ نے اپنا فیصلہ تبدیل کروایا اور اس طرح ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو جمعۃ المبارک کا خطبہ آپ نے اس مسجد میں دیا اور منتظمین نے آپ کی دستار بندی کی۔
کچھ عرصہ بعد ایک نیک سیرت بیوہ خاتون نے بیرونِ یکہ توت نہ صرف دو کنال زمین کا ٹکڑا دارالعلوم کے لیے دیا، بلکہ آپ کی اپیل پر ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے صرف کرکے مسجد اور دارالعلوم کی عمارت تعمیر کرائی، حضرت علامہ کی کوشش سے دارالعلوم کی سند محکمۂ تعلیم نے منظور کی اور اس وقت دارالعلوم سے فارغ شدہ اٹھارہ علماء مختلف سکولوں میں اسلامیات کے استاد ہیں۔ علاوہ ازیں دارالعلوم سے فارغ علماء فوج میں بھی امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی ہمت اور خلوص سے دارالعلوم نے علمی میدان میں کافی ترقی کی، لیکن دیگر مدارس کی طرح یہ افسوس ناک صورت یہاں بھی درپیش ہے کہ نہایت ذہین اور قابل مدرس دارالعلوم کے اخراجات کے فراہمی کے سلسلے میں اپنی صلاحیتیں کھوبیٹھتا ہے اور پھر عوام سے رقم حاصل کرنا بھی تو ہر آدمی کا کام نہیں۔ اگرچہ مخلص حضرات پر مشتمل کمیٹی دارالعلوم کے شعبہ مالیات کی ذمہ داری اٹھالے اور حضرت علامہ کی تمام تر صلاحیتیں تدریسی امور کی جانب مبذول ہوجائیں تو صوبہ سرحد میں انقلاب برپا ہوسکتاہے۔
بیعت:
آپ کو حضرت شیخ المشائخ پیر امام شاہ صاحب رحمہ اللہ مہرآباد شریف لودھراں سے بیعت کا شرف حاصل ہے[۱]۔
[۱۔ جملہ کوائف حضرت علامہ نے ٹیپ ریکارڈ کے کیسٹ میں حضرت مولانا سیف الرحمان چترالی کے ذریعے مہیا فرمائے جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔ (مرتب)]
(تعارف علماءِ اہلسنت)