مرشد شہیر حضرتمولانا سیدمحمد اسمٰعیل ابن سید علی شاہ بخاری کاظمی قدس سرہما ۱۳۰۷ھ؍۱۸۸۹ء میں موضع کر مانوالہ مضافات فیروز پور میںپیدا ہوئے،آپ کاسلسلۂ نسب مرکز سیادت حضرت سید مخدوم جہانیاں جہاں شت بکاری قدس سرہ (اچ شریف) تک پہنچتا ہے۔قرآن پاک سید مخدوم قطب الدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے پڑھا،فارسی کی کتابیں مولانا رحمت علی جویہ(کرنوالہ) سے پڑھیں،پھرموضع پنچکے پنڈ شاہ جلالپوری قدس سرہ کے مدرسہ میںعلم ظاہری کا اکتساب کیا اور حضرت پیر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیض صحبت سے مستفیض ہوئے۔کچھ دن مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور قیام کیا لیکن جلدی لاہور تشریف لے گئے اور مولانا مفتی عبد القادر جہانگیر وی رحمہ اللہ تعالیٰ صدرمدرس جامعہ نعمانیہ لاہور اور دیگر اساتذہ سے مروجہ علوم کی تحصیل و تکمیلکر کے علم حدیث حاصل کرنے کے لئے مدرسۃ الاسلام،دہلی میںمولانا عبد العی کے پاس پہنچے اور ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ء میںسند فراغت حاصل کی[1]
تحصیل علوم کے زمانہ ہی میں حضرت مولانا شرف الدین فیروز پوری قدس سرہ(خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ) کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہو چکے تھے[2]،تحصیل علوم کے بعد کر مانوالہ(مضافات فیروز پور) میں رشد وہدایت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا شروع کیا،بے شمار لوگ شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ مولانا شرف الدین کے وصال کے بعد ان کے ایماء کے مطابق شیریزدانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری قدس سرہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور الطاف و عنایات سے بہرہ ور ہونے کے ستھ ساتھ خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے[3]
تقسیم ملک کے بعد پاکستان تشریف لے آئے،تین سال پاکپتن شریف قیام کیا پھر موضع پکا (مضافات اوکاڑہ) میں تشریف لے آئے،سابق جاے سکونت کے نام پر اس جگہ کا نام بھی کر مانوالہ رکھ دیا،یہاں ن یا اسٹیشن بھی قائم ہو گیا[4] آپ کا حلقۂ ارادت بہت وسیع ہے اور خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ مریدین متبع شریعت اور ذکر و فکر کی دولت سے مالا مال ہیں،حضرت شاہ صاحب کو اپنے مرشد طریقت حضرت میاں صاحب سے بے پناہ عقیدت تھی، آپ کے وسیع لنگر سے جو کچھ بچ جاتااسے شیخ کے لنگر میں پیش کر دیتے۔ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ سالہاسال حاضر خدمت رہنے کے باوجود کبھی آنکھ ملا کر بات نہ کی۔
بے شمار افراد آپ کے فیض وعا صحبت سے مستفیض ہوئے،ہر طبقے اور ہر فرقے کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کی پر کشش شخصیت کا انمٹ نقش دل پر لے کر جاتے،شریعت مطہرہ پر خود بھی عمل کرتے اورآنے جانے والے معتقدین کو بھی اتباع شریعت کی تاکید کرتے۔
۲۰ جنوری ، ۲۷ رمضان المبارک(۱۳۸۵ھ؍۱۹۶۶ئ) بروز جمعرات آپ کو وصال ہوا اور کر مانوالہ میںفن ہوئے[5]
[1] غلام مہر علی ،مولانا : الیواقیت المہریہ،ص۱۳۴
[2] سید امین الدین حکیم :صوفیاء نقشبند،مقبول کیڈیمی لاہور ،ص ۳۹۲
[3] تذکرہ دیبائے جدید خاص نمبر، ماہنامہ لاہور ، جونری ، فروری ۱۹۷۳ئ، ص ۵۰
[4] سید امین الدین،حکیم : صوفیاء نقشبند،ص۳۹۱۔۴۰۶
[5] غلام مہر علی،مولانا: الیواقیت المہر یہ ،ص ۱۳۵
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)