حضرت مولانا قمر الدین عطائی
حضرت مولانا قمر الدین عطائی (تذکرہ / سوانح)
مبلغ اسلام ، استاد العلماء حضرت مولانا قمر الدین مہیسر اہل سنت و جماعت کا قابل فخر سرمایہ تھے ، ان کا دماغ روشن اور دل منور تھا وہ ہر وقت مسلک حق اہل سنت و جماعت کی ترویج و اشاعت کے لئے سوچتے رہتے تھے، وہ باشعور اور صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔
سلسلہ نسب ہوں ہے: قمر الدین بن محمد اسماعیل بن عبدالرحمن بن محمد صدیق مہیسر ، ضلع لاڑکانہ کی تحصیل میر و خان کے گوٹھ ’’دگانو مہیسر ‘‘میں فقیر محمد اسماعیل مہیسر کے گھر تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
مولانا کا گھر انہ صالح گھرانہ تھا ، اسی صالح ماحول میں مولانا کی تربیت ہوئی ۔ مولانا نے ابتداسے آخر تک پوری تعلیم حضرت مولانا عطا محمد صاحب کلہوڑو کے پاس اپنے گوٹھ میں حاصل کی ۔
درس و تدریس :
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا اپنے گوٹھ او ر دیگر قریبی گوٹھوں میں پڑھاتے رہے اور اسی طرح سندھ میں تقاریر کے ذریعے نیکی دعوت کو عام کیا۔ عمر کے آخری حصہ میں تحصیل شہداد کوٹ شفٹ ہو کر گئے جہاں عارف کامل استاد العلماء حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی ؒ کی درگاہ شریف صدیقیہ کے مدرسہ میں تدریس کا عمل شروع کیا اور آخر عمر تک جاری رکھا۔
آپ اپنے استاد محترم مولانا عطا محمد کلہوڑو کے خاص شاگرد رشید تھے اس لئے استاد محترم سے دعائیں لیتے رہے اور اپنے استاد محترم سے والہانہ عقیدت تھی یہی سبب ہے کہ استاد کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ ’’عطائی ‘‘بھی لگاتے تھے ۔
شاعری :
مولانا قمر الدین عطائی ، عالم ، مدرس ، خطیب ، صحافی کے ساتھ ساتھ بہترین قلمکار اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ آپ کا شاعر ی میں تخلص ’’قمر ‘‘ہے ۔ آپ کی عربی فارسی سندھی اور اردو میں شاعری مختلف اور اق پر منتشر ہے۔ ایک نعت چار زبانوں میں کہی ہے۔
صحافت :
مولانا نے تین جرائد مختلف اوقات میں جاری فرما کر اہلسنت و جماعت کی تحریر ی خدمات انجام دیں ۔
۱۔ المھیسر ر
۲۔ قمر الاسلام
۳۔ ھدایۃالقمر
٭ مولانا قمر الدین مہیسر نے مفتی محمد صاحبداد خان کی کتاب ’’الحق الصریح ‘‘ پر زور دار تقریظ بھی رقم کی تھی جو کہ دیوبندیوں ، اہل حدیث ، وہابیوں کی تردید میں لکھی ہوئی ہے ۔
٭ مولانا قمر الدین کا اپنے معاصر علماء اہلسنت سے گہرے مراسم تھے، ان کا ایک خط میری نظر سے گذار جو کہ انہوں نے حضرت مولانا مفتی محمد صاحبداد خان سلطان کوٹی مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’الھمایون ‘‘کے نام ۱۳۴۵ھ؍ ۱۹۲۶ ء میں رقم فرمایا۔ جنہیں فقیر نے اپنی کتاب ’’روشن صبح ‘‘میں محفوظ کیا ہے۔ خط میں آپ نے مفتی صاحب کو شیعہ کے پانچ مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے اور گذشتہ محرم الحرام کا شمارہ جو کہ شیعیت کی تردید میں تھا اس کی تعریف کی ہے ۔ مفتی صاحب نے آپ کے سوالات کے جواب میں کتاب ’’سیف الرحمان علیٰ اعداء القرآن ‘‘سندھی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر الہمایون کے خصوصی شمارہ کے طور پر ۱۳۴۵ھ میں شائع کیا جو کہ ۱۲۵صفحات پر مشتمل ہے۔ ( روشن صبح ص ۱۱۹)
٭ کتاب ’’الصوارم الہندیہ ‘‘میں دیگر علماء کرام کے ساتھ مولانا قمر الدین مہیسر کی دستخط بھی ہے ۔
(سندھ کے دومسلک ص۳۰)
٭ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی کی عظیم تالیف ’’الاصول الاربعہ فی تردید الوھابیہ ‘‘ پر آپ کی بزبان فارسی تقریظ درج ہے۔
بیعت :
عارف کامل حضرت خلیفہ محمد حسین مہیسر ؒ ، امام العارفین غوث العالمین حضرت پیر سائیں روضے دہنی قدس سرہ الاقدس کے خلیفہ ارشد اور ’’صحبت نامہ ‘‘کے موٗلف تھے ۔ اسی طرح میر و خان تحصیل کے مہیسر شروع سے راشدی بزرگان دین کے معتقدومرید ہیں ۔ اور مولانا قمر الدین مہیسر فقیر راقم راشدی غفرلہ الہادی کے جدا مجد حاجی سید غلام قادر شاہ راشدی ( ۱۹۸۷ئ) کے مرشد کریم ، چچا جان ، اور سسر عظیم زین العلماء شیخ طریقت حضرت مولانا حکیم پیر سید محمد حامد شاہ راشدی ؒ کے مرید تھے۔
مجھے اپنے خاندانی کاغذات میں سے ایک نایاب بوسیدہ خط ملا ہے جو کہ حضرت حامد شاہ کے صاحبزادے مولانا سید عثمان علی شاہ نے مولانا قمر الدین کو رقم کیا تھا۔
خورشید مروت و مہر فتوت مولوی محمد قمر الدین احمد سلمہ الصمد مہیسر شہر سجن سانگی
بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ کہ معلوم ہوا حوال طرفین بخیریت باد ۔
مطلب کہ آپ سے بروز جمعہ تقدیر انہ مل سکا، امید قوی ہے جلد آکر ملاقات کروں گا ۔ تازہ قلم کہ مجھے آپ کی زیارت کا بہت شوق ہے آئندہ جیسا خدا تعالیٰ نے چاہا۔
بتاریخ ۲۹، مئی ۱۹۲۷ء اتوار کو درگاہ ٹھلاہ شریف ( نزد باقرانی اسٹیشن ) پر ایک جلسہ منعقد ہو رہا ہے مولوی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھی تشریف لائیں گے ۔ آپ کو دعوت دی جاتی ہے کہ اتوار کو گیارہ بجے والی ٹرین میں دونوں ساتھ تشریف لائیں گے تو نہایت مشکور ہوں گا ۔ مجھے آرزو ہے کہ دعوت قبول فرمائیں گے ۔
سید عثمان علی راشدی
ازمدرسہ دارالسلام سنہڑی
۲۵، مئی ۱۹۲۷ء
نوٹ : گوٹھ سنہری ، لاڑکانہ کے قریب ایک سر سبز گوٹھ ہے ان دنوں میں اس گوٹھ میں مدرسہ دارالسلام تھا جس میں مولانا حافظ محمد کامل صدر مدرس تھے اور مدرسہ کی سند ھ بھر میں شہرت تھی۔ آج صرف اس کے آثار ہیں ۔ عثمان شاہ کے دستخط کے ساتھ مدرسہ کا نام درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدرسہ میں معلم یا متعلم تھے۔
وصال:
مولانا قمر الدین شہداد کوٹ میں بیمار ہوگئے اور ۲۴، اگست ۱۹۴۷ء ؍۱۳۶۶ھ میں وصال کیا اور مزار شہداد کوٹ میں واقع ہے۔ ( شہداد کوٹ جاقلمکار اور شاعر ص ۶۲)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )