مولانا قاسم رحمتہ اللہ علیہ
مولانا قاسم رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مولانا قاسم جو سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کے بھانجوں میں سے ایک نہایت نامور بلند اقبال شخص ہیں۔ خواجہ عمر کے صاحبزادے اور خواجہ ابو بکر کے بھتیجے ہیں جو لطائف التفسیر کے مشہور مصنف ہیں۔ آپ تفسیر کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ رحمت پرور دگار کا امید وار بندہ قاسم جناب سید السالکین برہان العاشقین نظام الحق والدین کے حقیقی بھانجے کا فرزند عرض کرتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے اس فقیر پر اپنی عنایت سابقہ کی اور اس بیچارہ کو عدم کے پردہ سے عالم وجود میں لایا تو طرح طرح کی نعمتوں کے ساتھ مخصوص کیا جس میں سے بعض نعمتیں جو فلاح دارین کی موجب اور دین و دنیا کی سعادت کے باعث ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اس خاکسار کو سلطان المشائخ قطب الاقطاب عالم کی نظرِ مبارک میں ملحوظ رکھا اور آپ نے اپنے طرح طرح کے باطنی انفاس سے جو حقیقت میں غیب کی کان اور لاریبی علوم کے قرار کی جگہ ہے۔ زبان مبارک سے جو ناطقِ بحق ہے ارزانی فرمائے سب سے اعلیٰ درجہ کی نعمت یہ تھی کہ یہ شکستہ اور بے دست و پا چار برس چار مہینے چار دن کا تھا کہ اس مسکین کے والد بزرگوار (خدا انہیں اپنی رحمت و رضا مندی میں ڈھانک لے) عاشقوں کے سردار اور مشتاقوں کے مقتداؤ پیشوا جناب سلطان المشائخ کی خدمت میں لے گئے تاکہ آپ کے حکم سے مکتب میں بٹھائیں۔ حضرت سلطان المشائخ نے ازرویٔ تلطف و بندہ نوازی پہلی تختی اس قلم سے جو قلم وحی کی حکایت کرتا تھا اور اس ہاتھ سے جو بواسطۂ آبا و اجداد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ تک پہنچنے والا تھا لکھی جس وقت آپ تختی لکھ رہے تھے تو لوگوں نے مجھے آپ کے سامنے کھڑا کر دیا تھا لیکن میں نا سمجھی سے بیٹھ گیا۔ اقبال نے جو سلطان المشائخ کےقدیم خادم تھے مجھے دوبارہ کھڑا کیا مگر یہ ضعیف پھر بیٹھ گیا۔ تیسرے مرتبہ اقبال نے کھڑا کرنا چاہا کہ عالمیوں کے مخدوم اور جہانیوں کے ملجا و ماوا نے فرمایا کہ اقبال! اس بچے کو چھوڑ دو یہ بیٹھ کر پڑھے گا۔ الغرض جب آپ تختی لکھ چکے تو بیٹھے بیٹھے کمال شفقت کی وجہ سے اپنی زبانِ مبارک سے ایک دو دفعہ ان لکھے ہوئے حرفوں کی تلقین کی ازاں بعد زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ خدا تعالیٰ اس بچے کو بڑی عمر عنایت کرے گا اور کمالِ علم سے مشرف فرمائے گا۔ چنانچہ جب یہ ضعیف بارہ سال کا ہوا تو خدا تعالیٰ نے حفظ کلام مجید کی دولت سے معزز و ممتاز کیا اور اس کے بعد اماموں کے بادشاہ علماء اجلہ اور فضلاء عصر کے سرتاج جناب جلال الملۃ والدین کی خدمت میں پہنچایا خدا تعالیٰ ان کی بزرگی کے جھنڈے اونچے اور دراز کرے اور ان کے نیزہ کا سایہ ہمارے نصیب کرے۔ اس دین پرور بزرگور نے عاجز کو اپنی نظرِ مبارک سے مشرف فرمایا اور بے انتہا شفقت و مہربانی مبذول کی چنانچہ پچاس سال کے قریب اس علماء کے سردار اصفیا کے زیور کی شاگردی میں رہا اور ابتدائی علوم سے لے کر انتہائے علوم تک اپنی قراءت سے سبقاً سبقاً نکالے اور تمام کتابیں پوری کرلیں آخر کار شرف اجازت سے مشرف ہوا اور ہدایہ بزودی کی کشاف مشارق مصابیح۔ کی سندھ حاصل کی جب یہ خاکسار تعلیم سے فارغ اور تمام علوم کے متنوں و شروح سے واقف ہوگھیا تو عربی و فارسی کی تفسیروں پر ایک غور میں ڈوبی ہوئی نظر ڈالی اور ہر تفسیر کو لطیف عبارت اور غریب معانی و الفاظ سے لبریز پایا۔ فوراً دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں ایک ایسا مجموعہ تیار کروں جو معانی غریب اور عامۂ تفاسیر کے لطائف کو شامل ہوتا کہ عام و خاص لوگ اچھی طرح اس سے متمتع ہوں اور اس کے مطالعہ سے قرآن مجید کے اسرار اور فرقان مجید کی باریکیوں پر مطلع ہوں۔ چنانچہ میں نے اس ڈھنگ کی ایک تفسیر لکھی اور اس کا نام لطائف تفسیر رکھا۔