حکیم قاضی عبدالرزاق صدیقی گوٹھ ترائی (تحصیل گڑھی یاسین ضلع شکار پور ) میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار کے پاس حاصل کی ۔ اس کے بعد جندہ دیرو (تحصیل مدئجی ) مولانا محمد حسین بھٹو سے درس لیا ۔ آخر میں ہمایونی شریف میں سید الفقہاء ، سند الکاملین ، عاشق خیرالوریٰ مفتی اعظم سندھ و بلوچستان علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی نور اللہ مرقدہ کے پاس نصاب مکمل کیا۔ اور وہیں فارغ التحصیل ہو کر فضیلت کی دستار باندھی ۔
طب کی تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور پھر حکمت میں شہرت و ناموری پائی ۔
بیعت :
حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ الاقدس کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے تین بار حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت ابدی حاصل کی۔ اور اکثر قیام مدینہ منورہ میں کیا اور وہاں کے بعض بزرگ آپ پر نہایت مہربان ہو گئے تھے ۔ ( ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہو سکے )
عادات و خصائل :
آپ عالم باعمل تھے اور سینہ جب رسول سے لبریز تھا ۔ علامہ ہمایونی ؒ کی صحبت نے اکسیر پارس کا کام دکھایا ۔ حدیث میں قابل فخر استاد اور فقہ میں ’’استاد زمن ‘‘تھے ۔ علم جفر میں مانے ہوئے تھے ۔ اکثر درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ کم گو ، رحم دل ، ہمدرد ، مہمان نواز ، اخلاق کے پیکر ، طلباء پر مہربان تھے۔ اپنے گوٹھ میں درس تدریس کے ساتھ طب کے ذریعے بھی انسانیت کی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ الغرض بہت سار ی خوبیوں کے مالک تھے ۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی تفصیل معلوم نہیں ۔ فقط ایک نامور شاگرد کا نام معلوم ہوا ہے۔ شیخ العلماء علامہ خادم حسین جتوئی۔
اولاد :
آپ نے ایک شادی کی جس کے بطن سے ایک بیٹا تولد ہوا جو کہ بچپن میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد ایک بیٹی اور ایک بیٹا قاضی محمد رفیق (مدفون نوڈیرو ) تولد ہوئے ۔
وصال :
حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق نے ۸ ، رمضان المبارک ۱۳۳۱ ھ؍ ۱۹۱۳ء بروز اتوا ر کو انتقال کیا۔ آپ کا مزار گوٹھ ترائی میں واقع ہے۔
مولوی صاحب فضیلت، عالم علم الھدا
کاشف رمز شریعت، جامع ورع و تقا
در علوم فقہ و منطق در تفاسیر و حدیث
صدر علمائ، زیب فقہائ، معدن جود و سخا
حاجی عبدالرزاق اندر جہان مشہور بود
در فضائل ظاہر و باطن چو شمس اندر سما
درھمہ اوصاف دینی برتر و بے مثل بود
کز ہمہ اہل زمان مستعنیش کردہ خدا
درفنون علم، تحریر مسائل، بے نظیر
گرز ’’نعمان‘‘ ثانیش خوانم کجا باشد خطا
در جہان از انتقالش صد ہجوم آمد پدید
اہل دین از فرفتش درگریہ و اندوھما
روز یک شنبہ زرمضان ہفتمین تاریخ بود
کان بلیغ ازدھر فانی شد رواں سوئے بقا
بے سر حسرت برآمد مادہ تاریخ او
دنیاز نقل این ’’چنین میمون بقا‘‘
۱۳۳۱ھ
[قاضی محمد رفیق نوڈیرو کے مضمون سے ماخوذہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)