حضرت مولانا قاضی فتح محمد نظامانی
حضرت مولانا قاضی فتح محمد نظامانی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا قاضی فتح محمد نظامانی بن حاجی عبداللہ خان نظامانی قیصر انی بلوچ ۱۲۷۰ھ کو ٹنڈو قیصر خان نظامانی ( تحصیل حیدرآباد) میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
قاضی فتح محمد نے ابتدائی تعلیم حضرت خلیفہ میاں خان محمد ( میاں صاحب ،حضرت پیر سید صبغتہ اللہ شاہ راشدی اول المعروف پیر صاحب پگارہ تحبر دہنی ؒ کے خلیفہ تھے ۔ اصل گوٹھ چھراوٗ ( نزد اڈیر و لعل تحصیل ہالا ) کے باسی تھے۔ مکران کے بلوچ بڑی تعداد میں خلیفہ صاحب کے مرید تھے ۔ اسی لئے آپ کی مزار شریف مریدین کے ہاں مکران میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کی اولاد چھراوٗ میں ہے ۔ آپ نے قاضی فتح محمد کو علم و فضل کی دعادی تھی جو کہ حرف بحرف پوری ہوئی ) کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد میاں پیر محمد تھیبو کے پاس عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آخر میں مولانا قاضی عبدالغنی کھڈھر ( تحصیل سکرنڈ ) کے پاس فقہ ، اصول فقہ ، حدیث ، اصول حدیث ، ہدایہ شریف ، توضیح تلویح اور صحاح ستہ وغیرہ کتابوں پر عبور حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
درس تدریس :
قاضی صاحب کے برادری کے افراد ، عارف کامل ، شمس العارفین ، حضرت پیر صاحب بیعت دہنی ؒ کے مرید تھے ۔ اس لئے پیر صاحب ٹنڈو قصیر دعوت پر تشریف لاتے تھے، ایک بار دعوت پر تشریف لے کر آئے تو قاضی فتح محمد کا تعارف ہوا جو کہ تازہ مدرسہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے ، حضرت پیر صاحب کو قاضی صاحب کی ذہانت اور اخلاق و آداب نے متاثر کیا اس لئے قاضی صاحب کو ٹنڈو قیصر سے درگاہ شریف پیر صاحب جھنڈہ صاحبزادہ گان کی تعلیم کے لئے خود ساتھ لے کر آئے اور درگاہ شریف پر مدرس مقرر فرمایا۔ اس وقت قاضی صاحب کی عمر ۲۸ سال برس تھی ۔ قاضی فتح محمد نے نوجوانی سے لے کر آخر عمر تک پیر خانہ پر درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، ذکر اذکار اور ادووظائف مراقبہ و مشاہدہ کے مشاغل جاری رکھے ۔ ( سندھی میں فقہی تحقیق جوار تقاء ص ۱۴۰)
بیعت :
آپ درس و تدریس کے دوران درگاہ شریف پر مستقل رہنے لگے اور حضرت پیر صاحب کی نشست بر خواست دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ، اس لئے سلسلہ قادریہ راشدیہ میں حضرت ، شمس العارفین ، غوث الزمان خواجہ سید رشید الدین شاہ راشدی المعروف پیر صاحب بیعت دہنی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہو کر سلوک کی منازل طے کی۔ شیخ کامل کی خدمت میں رہ کر صراط الطالبین اور اسماء الحسنیٰ ( تصوف کی کتابیں ) حرفا حرفا پڑھ کر روحانیت میں کمال اور مرشد کامل کے محبوب مرید بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
تلامذہ :
قاضی فتح محمد قادری کے تلامذہ کی فہرست درج ذیل ہے :
٭ حضرت پیر سید محمد امام الدین شاہ راشدی ؒ آستانہ ٹھلاہ شریف لاڑکانہ
٭ مظہر الدین راشدی بن حضرت سید ہدایت اللہ شاہ
٭ مولوی رشد اللہ شاہ راشدی خلافت والے
٭ سید محمد بقا عرف مٹھل شاہ راشدی ٹھلاء شریف
٭ سید حسین شاہ راشدی
٭ مخدوم میاں غلام محمد صدیقی ہالا
٭ مخدوم میاں عبدالحسین ہالا
٭ میاں عبداللہ مشائخ پوتہ
٭ میاں محمد حسین جمالی گوٹھ بکھر جمالی تحصیل ہالا
٭ میاں عبداللہ بن میاں پیر محمد نظامانی ٹنڈو قیصر ضلع حیدرآباد
تصنیف و تالیف :
حضرت علامہ قاضی فتح محمد نظامانی چودہویں صدی کے نصف اول کے ممتاز عالم دین تھے جنہوں نے سندھی زبان میں کام کیا ۔ عوام الناس کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے کئی کتابیں تصنیف فرمائی۔ آپ نے دین، تصوف کے ساتھ سندھی ادب کی بھی خوب خدمت کی۔
٭ مفتاح رشداللہ ( سندھی ) : چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ شریعت طریقت حقیقت اور معرفت کا ایک عظیم خزانہ ہے۔
٭ جامع البرکات ترجمعہ مجمع الفیوضات ( سندھی ، قلمی ) : امام العارفین حضرت پیر صاحب روضے دہنی قدس سرہ کے ملفوظات شریف کا سندھی میں ترجمعہ کیا۔
٭ صراط الطالبین ( سندھی ) : امام السالکین حضرت سید محمد یسین شاہ راشدی قدس سرہ کی سلوک کے افکار و اسباق کے سلسلہ میں ایک عظیم تصنیف کا سندھی ترجمہ کیاا ور ’’مفتاح رشد اللہ ‘‘ میں شامل کیا۔
٭ شرح اسماء الحسنیٰ ( سندھی ) : امام العارفین حضرت پیر صاحب روضے دہنی قدس سرہ کی نادر و نایاب قلمی تصنیف شرح اسماء الحسنیٰ ہے۔ جس میں تصوف کے باریک نکتے بیان کئے گئے ہیں ۔ اسماء باری تعالیٰ سے تعلق تخلق اور تعبد تفصیل سے بیان کئے ہیں ۔ جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء باری تعالیٰ کی خاصیت کیا ہے اور انسان ان سے کس طرح استفادہ کر کے کھویا ہوا مقام پا سکے گا ۔ اس نایاب رسالہ کا سندھی ترجمہ کیا اور مفتاح میں شامل کیا۔
٭ تحفۃ الطالبین فی ذکر ملفوظات حضرت خیر الموبیین ( سندھی ) : اپنے پیرو مرشد کے ملفوظات شریف کو جمع کیا۔
٭ انعام الباری ترجمہ صحیح البخاری : بخاری شریف کے تیس پاروں میں سے سولہ پاروں کا سندھی ترجمہ کیا۔
٭ مالابد منہ : ( علامہ قاضی ثناء اللہ اپنی پتی ، صاحب تفسیر مظہری ) کا سندھی ترجمہ کیا لیکن ابھی تک قلمی ہے اور ٹنڈو قیصر میں حاجی شیر محمد خان نظامانی کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہے۔
٭ آپ نے اس وقت رائج درسی کتب میزان صرف تا قافیہ شافیہ تک کا سندھی ترجمہ کیا۔
تحریک ہجرت :
سید رشد اللہ خلافت والے نے ۱۳۱۹ھ ؍ ۱۹۰۱ء کو بمقام درگاہ شریف پیر صاحب جھنڈے دہنی پر ’’مدرسہ دارالرشاد ‘‘قائم کیا۔ جس کا ناظم تعلیمات نامور کانگریسی مولوی عبید اللہ سندھی دیونبدی کو مقرر کر کے وہابیت کی خوب اشاعت کی۔ ان دنوں قاضی صاحب تدریس کا کام نہیں کرتے تھے بالکل الگ تھلگ بلکہ ایک حجرے میں گوشہ نشین ہو کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے۔
۱۹۱۹ء میں جب ( دیوبندی ) مولویوں نے افغانستان کی جانب ہجرت کی تحریک چلائی اور ہجرت کرنے کو فرض بتایا گیا۔ ان دنوں قاضی صاحب نے اپنے شاگرد سید رشد اللہ شاہ کے استفسار پر دیوبندی مولویوں کے فتویٰ کے جواب میں تحریک ہجرت کے رد میں ایک رسالہ تحریر فرمایا۔
وصال :
حضرت قاضی فتح محمد نظامانی نے ۱۳۳۹ھ ؍۱۹۲۰ء کو ۶۹سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی مزار پر انوار ٹنڈو قیصر ( ضلع حیدرآباد سندھ ) میں مرجع خلائق ہے۔
( ماخوذ: سندھ جا اسلامی درسگاہ ۔ سندھی میں فقہی تحقیق جوار تقاء ص ۱۴۱)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )