مولانا شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ
مولانا شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
کان ذوق مایۂ شوق زاہد با کمال عابد با جمال مولانا شہاب الملۃ والدین حضرت سلطان المشائخ کے امام ہیں۔ یہ بزرگوار بڑے پایہ کے شخص تھے اس سے زیادہ اور کون سی کرامت و عظمت ہوسکتی ہے کہ سلطان المشائخ کی امامت کے شرف سے مشرف ہوئے اور دن رات میں پانچ وقت ایسے جلیل القدر بادشاہ کی سعادت بخش نظر کے منظور و ملحوظ ہوتے تھے جس کی نظر جان بخش کے محتاج تمام بادشاہانِ جہان تھے۔ جب مولانا شہاب الدین علیہ الرحمۃ سلطان المشائخ کی دولتِ ارادت سے مشرف ہوئے تو حضور کا فرمان جاری ہوا کہ خواجہ نوح کو تعلیم و تربیت دینا شروع کریں (خواجہ نوح کا ذکر سلطان المشائخ کے اقربا میں مذکور ہے) ایک چھوٹا سا حجرہ جماعت خانہ میں تھا آپ کے حوالہ کیا گیا اور آپ جناب سلطان المشائخ کے یاروں اور خدمت گاروں میں پرورش پانے لگے۔ برسوں سے آپ کے دل میں یہ آرزو تھی کہ اگر کسی طرح ایک دفعہ سلطان المشائخ کی امامت میسر ہوجائے تو اس دولت و کرامت کی وجہ سے سبقت کی گیند اپنے ہم عصروں اور مصاحبوں سے اُچک لی جائے۔ غرضکہ آپ ہر شخص کو اس دولت پر کامیاب ہونے کی غرض سے اُبھارتے و اُکساتے رہتے لیکن آپ کی یہ آرزو برنہ آتی تھی کیونکہ سلطان المشائخ کی امامت کا معزز و ممتاز منصب مولانا بدر الدین اسحاق کے فرزندِ رشید اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے نواسہ جناب شیخ زادہ خواجہ محمد کے تفویض میں تھا جو تقوی و طہارت اور صدق و یقین کے ساتھ موصوف تھے اور جن کے فضائل و مناقب شیخ شیوخ العالم کے نواسوں کے ذکر میں تحریر ہوچکے ہیں خلاصہ یہ کہ دینی شغل خواجہ محمد کے ساتھ مخصوص تھا اور ان کے ہوتے کسی کو طاقت نہ تھی کہ امام بننے کی جرأت کرسکتا بلکہ جب خواجہ محمد کہیں تشریف لے جاتے تو دوسرا شخص آپ کی اجازت سے نیابتاً امامت کرتا جیسے آپ کے بھائی خواجہ موسیٰ وغیرہ۔ آخر الامر مولانا شہاب الدین رحمۃ علیہ نے اس بارہ میں کاتب حروف کے والد بزرگوار رحمۃ لالہ علیہ سے مشورہ کیا والدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تمہیں اس دولت پر کامیاب ہونے کے لیے ہمیشہ منتظر رہنا چاہیے اگر اب کبھی خواجہ محمد اور خواجہ موسیٰ کہیں تشریف لے جائیں گے تو میں اقبال خادم سے کہہ دوں گا اور وہ تمہیں امامت کے لیے مصلّٰے پر کھڑا کردیں گے۔ اس وجہ سے مولانا شہاب الدین علی الدوام ملازمت سلطان المشائخ میں رہتے تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خواجہ محمد اور خواجہ موسی غائب ہوگئے اور اسی وقت خواجہ اقبال نے مولانا کا ہاتھ پکڑ کر مصلّے پر کھڑا کر دیا۔ مولانا شہاب الدین لحن داؤدی رکھتے تھے اور اس قدر خوش آواز تھے کہ آپ کی خوش الحانی سے پرندے ہوا میں اور دواب زمین پر مست و مدہوش ہوجاتے تھے۔ مولانا نے اس امامت میں نہایت رِقّت پیدا کرنے والی قراءت بڑی خوش لحنی کے ساتھ پڑھی یہاں تک کہ سلطان المشائخ کو سخت رقت پیدا ہوئی۔ کاتب حروف کے والد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب سلطان المشائخ نماز سے فارغ ہوئے اور جا نماز موندھے مبارک پر ڈال کر اپنی مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوئے تو مولانا نہایت عجلت کے ساتھ پیچھے پیچھے تشریف لائے اور حضرت سلطان المشائخ کے مبارک قدموں میں اپنے تئیں ڈال دیا۔ شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔
گر دست دھد ھزار جانم
بر پائی مبارکت فشانم
یعنی اگر مجھے ہزار جانیں بھی میسر ہوں تو تیرے پاؤں مبارک میں نثار کروں۔ سلطان المشائخ نے اپنا قد مبارک جو سرورواں کی مانند تھا خم کیا تاکہ مولانا کا سر جو آپ کے پاؤں مبارک پر رکھا ہوا تھا اُٹھائیں اسی اثناء میں سلطان المشائخ کے مونڈھے مبارک سے جا نماز مولانا شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پشت پر گر پڑی آپ نے وہ جا نماز مولانا شہاب الدین کو عطا فرمائی۔ الغرض اسی زمانہ میں خواجہ محمد امام شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے مرقد شریف کی زیارت کے لیے اجودھن (جو اب شہر پاک پتن کے نام سے شہرت رکھتا ہے) کو تشریف لے گئے اور مولانا شہاب الدین بحکم نیابت سلطان المشائخ کی دولت امامت کے ساتھ مشرف ہوئے اور جب تک سلطان المشائخ مسندِ حیات پر جلوہ آرا رہے مولانا شہاب الدین سلطان المشائخ کی خدمت میں آخر عمر تک شرف امامت کے ساتھ مشرف رہے۔ لیکن جب سلطان المشائخ صدر جنت کی طرف تشریف لے گئے تو مولانا دیوگیر کی جانب تشریف لے گئے اور خلق خدا سے بیعت لینی شروع کی اور سلطان المشائخ کے اعتقاد و محبت کے قائم رکھنے میں انتہا سے زیادہ کوشش کی۔ خود مولانا شہاب الدین علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت خلافت نامے مرتب ہو رہے اور قید کتابت میں لائے جا رہے تھے تو سلطان المشائخ نے مجھ سے فرمایا کہ مولانا شہاب الدین تم کاغذ کیوں نہیں لیتے اور اپنا خلافت نامہ کس لیے مرتب نہیں کراتے۔ اگر یہ وقت فوت ہوگیا تو آئندہ پشیمان ہو گے۔ میں نے عرض کیا کہ بندہ کو مخدوم جہان کی ہی شفقت و مہربانی کافی ہے۔ نیز مولانا شہاب الدین یہ بھی فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ جماعت خانہ کے صحن میں کھڑا تھا اور سلطان المشائخ جماعت خانہ کے کوٹھے پر مقام معبود میں تشریف رکھتے تھے سلطان المشائخ کے آگے کاتب حروف کے عم بزرگوار سید السادات سید حسین بیٹھے تھے اور سلطان المشائخ سے عرض کر رہے تھے کہ اگر مخدوم اپنے یاروں میں کسی شخص کو منتخب کریں تو کمترین مخدوم کی غیبت میں اس کی طرف متوجہ ہوں اس وقت سلطان المشائخ نے جماعت خانہ کے صحن کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ وہ یار یہ جوان ہے سید السادات سید حسین نے جماعت خانہ کے صحن کی طرف نظر کر کے دیکھا کہ وہاں میں کھڑا ہوا ہوں۔ بعدہ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ میں ہمیشہ اس عزیز سے کہتا ہوں کہ جو پانی میرے وضو کرنے کے لیے گرم کرتا ہے اس سے تو بھی وضو کرے مگر جوان رعایت ادب یہاں تک کرتا ہے کہ اس پانی سے وضو نہیں کرتا بلکہ لبِ دریا پر جا کر وضو کرتا ہے۔ الغرض مولانا شہاب الدین فرماتے تھے کہ جب سید السادات سید حسین سلطان المشائخ کی خدمت سے واپس ہوئے اور مجھے جماعت خانہ کے صحن میں کھڑا دیکھا تو بے حد مہربانی فرمائی اور سلطان المشائخ کی عنایت و شفقت کی خوشخبری دی اور جو باتیں میری نسبت حضور نے سید سے بیان کی تھیں سب میرے سامنے دہرائیں۔ چونکہ میں اپنے تئیں اس مرتبہ میں نہیں دیکھتا تھا اس لیے سید السادات سے کہا کہ آپ نے پھر مجھ مسکین سے خوش طبعی اور مزاح کرنی شروع کی سید السادات نے فرمایا کہ میں تم سے مزاح نہیں کرتا بلکہ واقعی بات یہ ہے کہ سلطان المشائخ کو تمہارے نسبت انتہا درجہ کی شفقت و عنایت مدنظر ہے۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ واقعی امر ہے کہ تاوقتیکہ مولانا شہاب الدین کو سلطان المشائخ کی جناب سے اجازت نہیں ہوئی آپ نے اس دینی کام میں ہاتھ نہیں ڈالا کیونکہ جب آپ بہمہ وجوہ اوصاف حمیدہ اور فضائل خاص کے ساتھ موصوف تھے اس بات کا کبھی گمان نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا بزرگ دینی کام میں سلطان المشائخ پر افترا کرے بلکہ یقین کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کو ضرور اجازت ہوگئی ہوگی۔ اب ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ مولانا شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ کو سماع میں تمام و کمال غلو تھا اور آپ اس کے غوامض میں وقوف کلی رکھتے تھے۔ اکثر اوقات رقص و بکا ذوق و شوق کے ساتھ کیا کرتے تھے اور آپ کو سماع سے کمال راحت حاصل ہوتی تھی۔ جب آپ دیو گیر سے دہلی میں تشریف لائے تو اس کے بہت دنوں بعد انتقال فرمایا اور شہر دہلی میں اپنے مکان کے متصل مدفون ہوئے۔
باب پنجم
یاران اعلیٰ کے مناقب و فضائل اور کرامات کا بیان
(جو سلطان المشائخ نظام الحق والشرع و الملۃ والدین کے ساتھ شرف ارادت اور قربت سے مخصوص و مشرف تھے۔ اور آپ کی شفقت و مہربانی کی وجہ سے فلک اعلیٰ سے تحت الثریٰ کی تمام چیزیں ان کے تصرف میں تھیں۔)
وبنو حنیفۃ کلھم اخیار
یعنی ابو حنیفہ کوفی رحمۃ اللہ علیہ کے تمام فرزند نیک و بہتر ہیں امیر خسرو نے کیا خوب فرمایا ہے۔
از مرید انش رھروان یقین |
|
ھر یکے والی ولایت دین |
(سلطان المشائخ کے مریدوں میں جو حقیقت میں یقین کے رہرواں تھے ہر ایک ولایت دین کا والی تھا سب کے سب شیطان کے ذلیل کرنے والے تھے اور فرشتے ان کی خدمت کا دم بھرتے تھے ان کا قدم ملکہ راسخہ کی وجہ سے ہوا پر تھا ان کے سروں پر شرع کے شین کا تاج تھا۔ ان کے دل عرش اور سجدہ معراج۔ ملکِ وحدت ان کا زیر نگین تھا۔ بندہ خسرو ان کا ایک ادنی چاکر ہے خدا وندا میرا نام ان کے دفتر میں ہو اور میرا حشران کے ساتھ ہو۔)
(سِیَر الاولیاء)