مولانا شیخ احمد شوریانی: خطۂ پنجاب کے علمائے عظماء اور اتقیائے کبراء میں سے جامع علوم ظاہری و باطنی تھے اور قصبۂ قصور میں سکونت رکھتے تھے۔آپ ہی نے قوم خویشگیاں وافغاناں شوریان میں علم ظاہری و باطنی کو جمع کیا۔آپ برے متعبد وزاہد تھے۔ظاہری علم کا یہ مبلغ تھا کہ علمائے لاہور و ملتان وغیرہ سے جو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا وہ آپ فوراً حل کر دیتے تھے۔شیخ عبد اللطیف برہانپوری کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام عمر میں علمائے ظاہرو باطن میں سے دو شخص قصور سے ان کے پاس برہانپور میں جاتا اس کو یہ کہہ کر(کہ تیرے پاس شیخ احمد شوریانی دریائے شریعت و طریقت جاری ہیں تو یہاں کیوں تشنہ کام آیا ہے)واپس کردیتے۔آپ شیخ احمد مجدد الف ثانی وشیخ عبد الھق محدچ دہلوی اور شیخ عیسٰی سندھی برہانپوری کے معاصرین میں سے تھے اور یہ تینوں اپ کی بری عزت کرتے تھے۔آپ کو تصانیف سے بڑا احتاز تھا اور فرماتے تھے کہ ہم کو متقدمین کی تصانیف و توالیف کافی ہیں ہم کیوں اپنی اوقات کو ضائع کریں اس لیے آپ نے تمام عمر میں صرف ایک کتاب سوالات احمدی رو ملا حدہ و زنادقہ میں تصنیف کی اور ۱۰۳۰ھ میں وفات پائی۔’’رشحاتِ الطاف‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)