سوختہ محبت ساختہ مودت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ امیر حسن شاعر کے بھانجے تھے جو جناب سلطان المشائخ کے اعلیٰ درجہ کے مریدوں میں شمار کئے جاتے اور آپ کی محبت کے ساتھ عام و خاص میں بے نظیر شہرت رکھتے تھے۔ کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے سنا ہے کہ جس وقت یہ عاشق صادق حضرت سلطان المشائخ کے جماعت خانہ میں نماز کے لیے حاضر ہوئے تو نماز کی تحریمہ باندھتے وقت جب تک سلطان المشائخ کے جمال مبارک کو نہ دیکھتے تحریمہ باندھتے یعنی جماعت کی صف سے اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور سلطان المشائخ کا روے جہان آرا دیکھ کر نیت باندھتے امیر خسرو نے کیا خوب کہا ہے۔
در اثنائے نماز اے جان نظر بر قامتت دارم
مگر ار قامت خوبت قبول افتد نماز من
(جانمن اثنائے نماز میں میں اپنی نظر تیرے قد پر جمائے رکھتا ہوں کہ شاید تیرے خوبصورت قد سے میری نماز قبولیت کا جامہ پہنے۔)
خلاصہ کلام یہ کہ جب عاشق صادق مرض محبت میں مبتلا ہوئے اور عشق کی بیماری نے سخت غلبہ کیا سعدی فرماتے ہیں۔
ماجرائے دل دیوانہ بگفتم بہ طیب گفت ابن نوع حکایت کہ تو گفتی سعدی
|
|
کہ ھمہ شب در چشم ست بفکرت بازم در عشق است ندانم کہ چہ درمان سازم
|
(میں نے اپنے ؟؟؟؟؟ سے کہا کہ تمام رات فکر و تردد میں میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں اس نے جواب کہ اے سعدی تو نے جواں ؟؟؟ کی حکایت بیان کی ہے یہ درد عشق ہے لیکن میں درد عشق کا علاج کرنا نہیں جانتا۔)
تو چاہا کہ اپنی جان عزیز کو سلطان المشائخ کی محبت میں قربان کر ڈالیں اسی اثناء میں لوگوں نے سلطان المشائخ کو خبر کی کہ اس سوختہ محبت نے عزم مصمم کر لیا ہے کہ اپنی عزیز و پیاری جان سلطان المشائخ کی محبت میں فدا کردے یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
وقت آنست کہ جان سر کویت بازم
خاک درگاہ تو بر تارک سر اندزم
(اب وقت وہ ہے کہ اپنی جان تیرے کوچہ میں فدا کروں اور تیری درگاہ کی خاک اپنے سر پر ڈالوں۔)
الغرض سلطان المشائخ نے جو عاشقوں کے ماوا و ملجا تھے ارادہ کیا کہ اس عاشق جانباز کے درد عشق کے علاج کے لیے تشریف لے جائیں تاکہ حضور کا جمال مبارک اس کے دل کو تسکین و تسلی بخشے چنانچہ آپ درِ دولت سے بر آمد ہوکر ادھر تشریف لے گئے اور رسم عیادت ادا کرنے کی غرض سے باہر نکلے ہنوز آپ رستہ ہی میں تھے کہ لوگوں نے بیان کیا کہ وہ عزیز جو مرض عشق میں مبتلا تھا دوست کے جمال مبارک کی تابنہ لایا اور اپنی پیاری جان معشوق حقیقی کے تفویض کی سلطان المشائخ نے سنتے ہی فرمایا کہ الحمد اللہ دوست دوست کے پاس پہنچا شیخ سعدی خوب فرماتے ہیں۔
جان در قدم تو ریخت سعدی خواھی کہ دگر حیات یابد
|
|
وین منزلت از خدائے میخو است یکبار بگو کہ کشتۂ ماست
|
سعدی نے اپنی جان تیرے قدم پر قربان کی اور وہ یہ مرتبہ خدا سے چاہتا ہتا تھا کہ اب اگر تو دوسری بار زندہ ہونا چاہتا ہے تو ایک دفعہ یوں کہہ دے کہ یہ ہمارا کشتہ ہے۔)