مولانا شمس الدین محمد بن یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ
مولانا شمس الدین محمد بن یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
دریاے علم و زہادت کے چمکدار موتی اہل محبت و کرامت کے مقتدا ہیں۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
دریایٔ علم و گنج زھادت باتفاق
اعنی کہ شمس ملت و دین در علوم طاق
مولانا شمس الدین یحییٰ کا سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ
العزیز کی خدمت میں حاضر ہونا اور مرید ہونا
منقول ہے کہ مولانا شمس الدین اور مولانا صدر الدین ناولی دونوں خالہ زاد بھائی تھے اور تعلیم پانے کے زمانہ میں تعطیل کے دنوں میں کپڑے دھونے کے واسطے غیاث پور کے حوالی میں دریائے جون کے کنارے آیا کرتے تھے اس زمانہ میں سلطان المشائخ کی عظمت و کرامت کا آوازہ ان کے مبارک کان میں پہنچ گیا تھا کہ علما اور شہر کے امرا سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر زمین بوسی کیا کرتے اور اس دریا کی خاک بوسی کو سعادت و نیک بختی جانتے ہیں چونکہ یہ دونوں بزرگ ابتدائی زمانہ میں اہل تصوف کے چنداں معتقد نہ تھے اس لیے سلطان المشائخ کی ملاقات کا زیادہ خیال نہ تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ غیاث پور کے حوالی میں دونوں صاحب تشریف رکھتے تھے کہ مولانا شمس الدین نے مولانا صدر الدین سے فرمایا کہ شاہ نظام الدین سلطان المشائخ اس جگہ بساست رکھتے ہیں اور شہر کی تمام خلق ان کی بدل معتقد ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ ان کے علم کا کیا حال ہے آؤ آج ان کی خدمت میں چلیں اور علم و فضل کا اندازہ کریں مگر ہم افراط کے ساتھ تعظیم نہ کریں گے اور خلق کی طرح ان کے سامنے سر نہ رکھیں گے بلکہ صرف سلام کر کے بیٹھ جائیں گے اس نیت سے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جوں ہی سلطان المشائخ کی نظر مبارک ان دونوں بزرگوں پر پڑی عظمت و ہیبت جو حق تعالیٰ نے اپنے دوستوں کی پیشانی میں رکھی ہے مولانا شمس الدین اور مولانا صدر الدین رحمۃ اللہ علیہما میں اثر کیا جس سے یہ دونوں بزرگوار فوراً زمیں پر گر پڑے۔
سزد خوبان عالم راز میں پیش تو بو سیدن
(تمام عالم کے خوب صورتوں کو تیرے قدم چومنے سزاوار ہیں۔)
آن دل کہ ز دست دیگران بربو دم |
|
ھر گز بکسے ندا دم و ننمو دم |
|
(وہ دل جسے میں نے دوسروں سے حفاظت میں ایسا رکھا تھا کہ نہ کسی کو دیا اور نہ دکھایا لیکن اے جان تو نے ایک نظر میں اس کو اس طرح سے لے لیا۔ گویا دل کبھی پہلو میں نہ تھا۔)
اس وقت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں بزرگوار بیٹھ گئے۔ جب تھوڑی دیر گزری سلطان المشائخ نے فرمایا تم دونوں شہر میں سکونت رکھتے ہو؟ جواب دیا جی ہاں! فرمایا کچھ پڑھتے ہو؟ عرض کیا جی ہاں ہم دونوں خادم مولانا ظہیر الدین بھکری کی خدمت میں بزودی پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے بزودی کا وہ مقام جہاں تک یہ دونوں پڑھ چکے تھے اور اس سبق میں ایک ایسا مشکل اور دقیق مسئلہ باقی رہ گیا تھا جو خود مولانا ظہیر الدین سے حل نہیں ہوا تھا سلطان المشائخ نے اس اشکال کا ان سے انکشاف کیا۔ جوں ہی اشکال تقریر ان بزرگواروں کے کانوں میں پہنچی عالم تحیر میں محو ہوگئے اور زمینِ خدمت کو بوسہ دے کر عرض کیا کہ مخدوم! یہی ایک مقام ایسا مشکل رہ گیا ہے جو ہنوز حل نہیں ہوا ہے اور جس کی بابت مولانا ظہیر الدین نے فرمایا ہے کہ اس کی میں تحقیق کروں گا۔ سلطان المشائخ نے اول تبسم کیا اور اس مشکل مقام کو اس درجہ حل کیا کہ ان دونوں بزرگوں کو اچھی طرح تسلی ہوگئی اور کسی طرح کی کوئی خلش باقی نہیں رہی۔ اٹھتے وقت سلطان المشائخ نے اپناتہ بند مولانا شمس الدین یحییٰ کو عنایت کیا اور دستار مولانا صدر الدین کو مرحمت فرمائی۔ جب یہ بزرگ سلطان المشائخ کی خدمت سے جدا ہوئے اور مجلس سے اٹھ کر باہر آئے تو باہم کہنے لگے پہلے تو ہم نے شیخ کی عظمت و کرامت ہی کانوں سے سنی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کی کرامت کے ساتھ علمی تجر کا بھی مشاہدہ کیا۔ چنانچہ سلطان المشائخ نے یہ تہ بند تو مجھے عنایت فرمایا اور دستار مولانا صدر الدین کو۔ ازاں بعد ان دونوں بزرگوں نے سلطان المشائخ کی مجلس کی حکایت اس طریقہ سے بیان کی کہ مولانا طہیر الدین پر سلطان المشائخ کی ملاقات کی آرزو غالب آئی اور نجام کار دولتِ ملاقات کو پہنچے۔ الغرض دوسری مجلس میں مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ سلطان المشائخ کی سعادتِ ارادت سے مشرف ہوئے۔ اور چونکہ آپ نے صدق دل سے سلطان المشائخ سے بیعت کی تھی اس لیے تدریجاً سلطان المشائخ کے منصب خلافت سے ممتاز ہوئے۔ ایک بزرگ خوب کہتے ہیں۔
جائے رسیدۂ بمعانی و مرتبہ |
|
کانجا بحیلۂ و فکرت ایشان نمبرسد |
مولانا شمس الدین یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت و روش
سالکانِ راہ طریقت کو واضح ہو کہ مولانا شمس الدین انتہا درجہ کے بزرگ اور پاک تھے اور تزویج کے تعلق سے مبرا۔ اس بزرگ کا ظاہر و باطن اہل تصوف کے اوصاف کے ساتھ موصوف تھا اور ان تکلفات کی رعایتوں سے بالکل خالی تھا جو خلق میں مروج ہیں اگر دنیا داروں میں سے کوئی شخص اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس کا آنا آپ کے دل مبارک پر سخت دشوار و گراں گزرتا اور اس کی معذرت میں نہایت حیران ہوتے آپ کا ایک خدمت گار تھا فتوح نام جو مولانا کی ذات فرشتہ صفات کی خدمت و نگرانی میں مصروف رہتا تھا آپ اسے بلا کر کہتے کہ اس عزیز کی معذرت کر۔ فتوح آنے والے شخص کو اپنے مکان پر لے جاتا اور عمدہ و لذیذ کھانے مرتب کرتا نا درو بیش بہا تحفے پیش کر کے نہایت عزت کے ساتھ رخصت کرتا۔ مولانا کا عام قاعدہ تھا کہ جب تحفوں اور ہدیوں میں سے کچھ چیز آپ کی خدمت میں پہنچتی تو آپ اس کی طرف ذرا بھی التفات نہ کرے فتوح آکر اٹھا لیتا اور آمد و رفت کرنے والوں پر صرف کرتا۔ مولانا کی عجب ذات با کمال تھی کہ مردانِ خدا کی علامات آپ کی مبارک پیشانی میں ظاہر تھیں جوں ہی آپ کے چہرۂ مبارک پر کسی کی نظر پڑتی اس کے دل میں فوراً رعب و ہیبت بیٹھ جاتی اور اسے معلوم ہوجاتا کہ یہ مرد خدا سلف کی صورت و سیرت ہے۔ اس زمانہ کے تمام علما و مشائخ مولانا کے مطیع و منقاد اور معتقد تھے۔ شیخ نصیر الدین محمود جیسے بزرگوار شخص نے ابتدائی زمانہ میں آپ سے کچھ پڑھا تھا اور آپ کی خدمت میں زانوئے ادب طے کیے تھے جس کا اثر یہ تھا کہ شیخ نصیر الدین آخر عمر تک جب مولانا شمس الدین کی خدمت میں جاتے تو آپ کے سابقہ حقوق کی رعایت سلف کے طریق پر کرتے۔ مولانا شمس الدین اعلی یاروں کے درمیان نہایت مکرم و معظم اور صاحب صدر تھے اور بہت سے فضائل خاص اور علوء مرتبہ رکھتے تھے۔ جب آپ سلطان المشائخ کی دولتِ خلافت سے مشرف ہوئے تو لوگوں کے بیعت لینے سے حتی الامکان احتراز کرتے تھے۔ اور اگر کوئی شخص ارادت کی نیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو تابہ امکان احتراز کرتے لیکن جب وہ بہت ہی منت سماجت کرتا اور آپ اسے اس کام میں صادق اور استباز دیکھتے تو اس وقت اس سے بیعت لیتے۔ منقول ہے کہ مولانا شمس الدین فرمایا کرتے تھے کہ اگر خلافت نامہ کے کاغذ پر سلطان المشائخ کا نشانِ مبارک ان کے دستخط خاص کے ساتھ نہ ہوتا تو میں ہر گز اس کاغذ کو اپنے پاس حفاظت سے نہ رکھتا۔
مولانا شمس الدین یحییٰ رحمۃ علیہ کے علم و تبحر کا بیان
منقول ہے کہ مولانا شمس الدین اور مولانا صدر الدین ناولی طالب العلمی کے ابتدائی زمانہ میں علوم کی تحقیق و تدفیق اور توجیہ و تنفیح کرنے اور مقدمات وارد کرنے اور مخالفوں کو الزام دینے میں شہر کے تمام علماء میں مشہور و معروف تھے جس مجلس میں یہ دونوں بزرگ تشریف لے جاتے کسی کو ان پر اعتراض کرنے کی مجال نہ ہوتی۔ چنانچہ خود مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے اور آئندہ و گزشتہ کے سبقوں کی تحقیقات میں حد سے زیادہ چھان بین کیا کرتے تھے اور جو کچھ ان سبقوں کے لوازمات ہوتے یعنی شبہات اور قیود شروع وغیرہ سے اس قدر متحضر ہوتے تھے کہ استادوں کی مجلس میں وہ شبہات جو مذکورہ سبقوں میں وارد ہوتے ہم انہیں عین تقریر میں دفع کر دیتے تھے حتے کہ کسی کو اعتراض کی جگہ نہ ملتی۔ الغرض مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے علم و تبحر کی شہرت اس درجہ تک پہنچ گئی تھی کہ شہر کے بڑے بڑے استاد آپ کی خدمت میں زانوئے ادب طے کرتے تھے اور آپ کی شاگردی کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ جو شخص اس بزرگ کی شاگردی اختیار کرتا فیض اثر نظر کی برکت سے دین و دنیا میں کامل حصہ اور علوم دینی سے وافر بہرہ حاصل کرتا تھا۔ اکثر شہر کے علماء و فضلا آپ کی شاگردی کی طرف منسوب تھے اور ظاہری علوم کی سند اور دینی علوم کی تحقیق آپ کی نسبت کرتے تھے اور اپنے فخر و مباہات کو اس بزرگ کی رفیع مجلس سے وابستہ جانتے تھے جو شخص آپ کی شاگردی کی طرف منسوب ہے علماء کے حلقہ میں نہایت عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ الغرض مولانا شمس الدین ایک علمی مسئلہ میں اس قدر تفکر و تدبر کیا کرتے تھے جو قابل اظہار نہیں آپ ایک ایسے یگانہ عصر اور محقق روز گار تھے کہ دینی علوم کی بہت سی تصنیفات عالم میں آپ کی محسوس یاد گاریں باقی ہیں اور ایسے کامل الذات و حید الدہر تھے جو شریعت و حقیقت کو جامع تھے۔ حکیم خواجہ سنائی کہتے ہیں۔
قبلۂ زیر کان ستانۂ اوست |
|
گنج معنی کتاب خانۂ اوست |
مولانا شمس الدین یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات اور سماع کا ذکر
اور آپ کے دارِ دنیا سے دار عقبی رحلت کر جانے کا بیان
مولانا سلیمان شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کے مرید سے سنا گیا ہے کہ جمعہ کا دن تھا۔ میں نماز جمعہ کے بعد مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مولانا اسی وقت جامع مسجد سے تشریف لائے تھے اور اوپر کے کپڑے اتار کر ایک نسخہ کے لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ مولانا سلیمان کہتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد مشائخ کی مشغولی کا وقت ہے یہ کیا بات ہے کہ ایسا بزرگ ایسے وقت میں کتابت میں مشغول ہے۔ جوں ہی یہ خطیرہ میرے دل میں گزرا مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے مشغولی کتابت سے سر اوپر اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر فرمایا سلیمان! میں اس سے بھی غافل و خالی نہیں ہوں۔ مولانا کی یہ گفتگو سن کر میں حیرت میں پڑگیا کہ یہ کس درجہ کا کشف ہے۔ غرضکہ مولانا نے اسی وقت میرے اس خطرہ کی لفظ بلفظ حکایت کی جو ابھی ابھی میرے دل میں گزرا تھا اس جیسی بہت سی کرامتیں اس بزرگ میں دیکھی گئی ہیں۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ اس بندہ نے مولانا شمس الدین قدس اللہ سرہ العزیز کو محفل سماع میں بہت دفعہ دیکھا ہے لیکن آخر عمر میں جو آپ نے سماع سنا اور اس کے بعد رحمتِ حق میں جا ملے اس کی کیفیت یہ ہے کہ سلطان المشائخ کے خطیرہ میں عرس تھا اور محفل عرس میں مولانا شمس الدین اور شیخ نصیر الدین محمود اور شیخ قطب الدین منور رحمۃ اللہ علیہم اور دیگر بہت عزیز موجود تھے۔ یہ محفل سماع بیچ کے بڑے گنبد میں تھی اور موجودہ تمام بزرگ اس مجلس میں سماع سن رہے تھے مسافروں اور حیدریوں اور قلندروں کی جماعت اس بڑے طاق کے نیچے سماع سن رہے تھے اور رقص کر رہے تھے جو روضہ کی انتہاء حد میں واقع ہے۔ قوال و درویش بے اختیارانہ جوش کے ساتھ دف بجاتے اور شیخ سعدی کا یہ قصیدہ ایک نہایت دلربا الحان سے پڑھ رہے تھے۔
غمے کز تو دارم بہ پیشِ کہ گویم |
|
دوائے دل در منداز کہ جو یم |
(اے جو غم تجھ سے پہنچا ہے اس کا اظہار کس کے سامنے کروں اور دوائے دل در مند کس سے حاصل کی جاوے۔ اگر میں تیری تیغ جفا سے ہلاک بھی ہوجاؤں تو اس ماجرے کا کسی سے اظہار نہ کروں گا۔ جب تو میرا طبیب ہے پھر میں کسی معالج کی طرف کیسے رجوع کر سکتا ہوں اور اس حالت میں کہ تیرا قیدی ہوں خلاصی کی التماس کس کے سامنے لے کے جاسکتا ہوں۔ سعدی کا حال کیا بیان کروں کہ غم جو تیرے سبب سے ہے وہ کس کے آگے اظہار کیا جاوے۔)
یہ قصیدہ کچھ ایسے درد انگیز لہجہ میں پڑھا گیا تھا کہ مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ تمام لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے گنبد سے باہر نکل آئے اور قوالوں اور درویشوں کے نزدیک جو سماع کر رہے تھے اور دف بجا رہے تھے تشریف لے گئے اور نہایت خاموشی کے ساتھ کھڑے رہے سماع کا ذوق و شوق درویشوں کی صحبت میں اثر کر گیا اور ایک عجیب و غریب حالت طاری ہوئی۔ مولانا اپنا مبارک ہاتھ بار بار اپنے مصفا سینہ پر پھیرتے اور جنبش کرتے تھے یہاں تک کہ قوالوں نے سماع کے افسردہ قالب میں ایک تازہ روح پھونکی اور عجب خوش الحانی سے گانا شروع کیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ میں سماع کی لذت نے اثر کیا اور آپ نے ایک عاشقانہ جنبش کی جو یار و عزیز اس با برکت مجلس میں موجود تھے سب ہمہ تن ہوکر مولانا کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد تھوڑا عرصہ گزرا کہ مولانا نے سفرِ آخرت قبول کیا رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا شمس الدین کے انتقال کی کیفیت یہ ہے کہ جس زمانہ میں سلطان محمد طلم و تعدی کی داد دیتا اور اپنی خون آشام تلوار کو بندگانِ خدا کے خون سے سیراب کرتا تھا اس وقت میں اس نے مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کو طلب کیا اور چند روز تک اس بزرگ کو ایک ایسے مکان میں رکھا جو شاہی رعب و ہیبت سے پُر تھا۔ ازاں بعد بادشاہ نے اپنے پاس بلایا۔ جب مولانا بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے تو سلطان نے فرمایا۔ تم جیسا دانشمند اور ہوشیار آدمی اس مقام میں رہ کر کوئی معقول و عمدہ کام نہیں کر سکتا۔ تم کشمیر میں جاؤ اور وہاں کے بت خانوں میں بیٹھ کر خلق خدا کو اسلام کی دعوت دو۔ بادشاہ جب اپنی اس تقریر کو ختم کر چکا تو چند آدمی دربار سے مقرر کیے گئے کہ اس بزرگ کو کشمیر کی طرف روانہ کریں۔ مولانا شاہی دربار سے رخصت ہوکر مکان پر تشریف لائے تاکہ کشمیر کی طرف روانہ ہونے کا سامان مہیا کریں جو عزیز اس وقت موجود تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں میں نے اپنے شیخ کو خواب میں دیکھا کہ مجھے بلا رہے ہیں۔ میں اپنے خواجہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا سامان کر رہا ہوں۔ یہ لوگ مجھے کہاں لیے جاتے اور کدھر بھیجتے ہیں چنانچہ اس کے دوسرے ہی روز مولانا کو بیماری لاحق ہوئی اور آپ کے سینۂ مبارک پر ایک غلولہ کی شکل بڑا سا آبلہ ظاہر ہوا اور باطنی غم و اندوہ نے اپنا اثر پیدا کیا۔ لوگوں نے حکماء کی تجویز سے آبلہ شگاف دیا اور زخم کے بھرنے کے لیے مرہم لگایا۔ جب یہ خبر بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ایک اور فرمان آپ کی طلبی کا جاری کیا اور لوگوں سے بیان کیا کہ اس کی تفتیش کرو مباداً مولانا نے حیلہ کیا ہو۔ چنانچہ لوگوں نے تفحص و تفتیش کے بعد مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو اسی تکلیف و زحمت میں بادشاہ کے دربار میں لے گئے اور جب بادشاہ کو آپ کے مرض کی تحقیق ہوگئی تو اس نے رخصت کر دیا اور اس کے چند روز بعد مولانا رحمت رب العالمین کے جوار میں جا ملے۔ اگرچہ مولانا نے اپنی حالتِ زندگی ہی میں خطیرہ کے باہر پائینتیوں کی طرف خطیرہ کی دیوار کے نیچے ایک چوترہ اپنے لیے بنایا تھا لیکن دفن کے وقت کاتب حروف کے والد سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مولانا کو خطیرہ کے اندر لانا چاہیے۔ چنانچہ لوگ آپ کے حکم کی تعمیل پر آمادہ ہوئے اور مولانا علاؤ الدین نیلی کے چوترہ کے متصل جو زمین تھی والد بزرگوار نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں دفن کرو کیونکہ مولانا علاؤ الدین نیلی جناب مولانا شمس الدین یحییٰ کے یارو ہم سبق اور ہمراز تھے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ اب آپ مولانا علاؤ الدین نیلی کے چوترہ کے متصل ایک چوترہ میں جو نہایت پر فضا اور مصفا ہے مجردانہ آرام فرما رہے ہیں۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلافت نامہ کا نسخہ سلطان المشائخ کی ۔۔۔ عظمت سے آپ کو عطا ہوا تھا یہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمط الحمد للہ الذی سمت ھمم اولیا ئہٖ عن الزکو ان الی الا لو ان عارا واعتلقتہ ھمو مھم بالو احد الحنان بار افدارت علیھم بکرۃ و عشیّا کاس المحبۃ من کوثر محبو بھم دارا کلما جن علیھم الیل تشتمل قلوبھم من الشوق نارا وتفیض اعینھم من الدمع بد رار او یتمتعون بمناجاۃ الحبیب اسرار وقات الغز افکارً الایزال منھم فی کل زمان من ھم علٰی مکنونۃ نضارۃ العرفان فیظھر فی الاقطار آثارہ ویز ھر فی الافاق انوارہ لسانہ ناطق بالحق وھو داعی اللہ فی الخلق لیخر جھم من الظلمات الے النور و یقربھم الی الرب الغفور ثم الصلاۃ علی صاحب الشریعۃ الغراء والطریقۃ الزھراء رسول الرحمۃ المخصوص بخلافۃ ربہ فی مقام البیعۃ وعلی خلفائہ الراشدین الذین فازوا بکل مقام علی وعلی الہ الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی اما بعد فان الدعوۃ الٰی الواحد العلام من ارفع و طائم الاسلام و اوثق غر وۃ فی الایمان علی ماورد فی الخبر عنہ علیہ السلام والذی نفس محمد بیدہ لئن شئتم لا قسمن لکم ان احب عبادہ اللہ الی اللہ الذیین یحبون اللہ الی عباد اللہ ویحبون عباد اللہ الی اللہ ویمشون فی الارض بالنصیحۃ والا مرو مامدح اللہ عبادہ الذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا وزریاتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما وقد اوجبھا اللہ تعالٰی علی وقفہٖ لاتباع سید المرسلین وقائد الغراء المحجّلین بقولہ عزو جل قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی واتباعہ انما یکون برعایۃ اقوالہٖ والا قتداء بہ فی اعمالہ وتنزیہ السر عن کل ماسوا اللہ فی الوجود والانقطاع الی المعبود لم ان الولد الا عزالتقی والعالم المرضی المتوجہ الی رب العالمین شمس الملۃ والدین محمد بن یحیی افاض اللہ الواحد انوارہ علی اھل الیقین والتقوی لما صح قصدہ الینا ولبس خرقۃ الا رادۃ منا واستو فی الحظ من صبحتنا اجزت لہ اذا اَستقام علی اتباع سید الکائنات واستغرق الاوقات بالطاعات و رافت القلب عن ھوا جس النفس والخطرت واعرض عن الدنیا واسبابھا ولم یر کن الی ابنائھا وار بابھا وانقطع الی اللہ بالکلیۃ واَشرقت فی قلبہ الانوار القدسیۃ والاسرار المکوتیۃ والفتح باب الفھم التعریفات الالھیۃ ان یلبس الخرقۃ للمرید ین ویرشدھم الی مقامات الموقنین کما اجازنی بعد مالا حظنی بنظرۃ الخاص ولبسنی خرقۃ الاختصاص شیخنا الفایح فی الاقطار فوائح نفحاتہ الرایح فے الافاق لوامع کرماتہ السابح فی العالم القدس افکارہ البایح بمحبۃ الرحمٰن انارہ قطب الوریٰ علامۃ الدنیا فرید الحق والشرع والدین طیب اللہ ثراہ وجعل خطیرۃ القدس مثواہ وھو لبس الخرقۃ من ملک المشائخ سلطان الطریقۃ قتیل محبۃ الجبار قطب الملۃ والدین بختیار اوشی وھو من بدر العارفین معین الملۃ والدین الحسن السنجری وھو من حجۃ الحق علی الخلق عثمان الھارو نی وھو من سدید النطق الحاجی الشریف الزندنی وھو من ظل اللہ فی لخلق مودود الچشتی وھو من ملک المشائخ اھل التمکین ناصر الملتہ والدین یوسف الچشتی وھو من ملجاء العباد محمد الچشتی وھو من عمدۃ الابرار وقد وۃ الاخیار ابی احمدن الچشتی وھو من سراج الاتقیاء ابی اسحاق الچشتی وھو من شمس الفقراء علو دینوری وھر من اکرم اھل الایمان ھُبیرۃ البصری وھو من تاج الصالحین برھان العاشقین حذیفۃ المرعشی وھو من سلطان السالکین برھان الواصلین تارک المملکۃ والسلطنۃ ابراھیم بن ادھم وھو من قطب الو لایۃ ابی الفضل والفضائل والدر ایۃ الفضیل بن عیاض وھو من قطب العالم والشیخ المعظم عبد الواحد بن زید وھو من رئیس التابعین امام العالمین الحسن البصری وھو من امیر المومنین فی اعالی المقامات المنتھیٰ الیہ خرقۃ کل طالب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ وقدس اللہ اسرار ھم وابقی الٰی یوم القیامۃ انوارھم وھو من سیدن المرسلین خاتم النبیین المنوط باتباعہ محبۃ رب العالمین محمد ن المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وعلی کل من بہ التمٰی واقتدی فمن لم یصل الینا و وصل الیہ فقد استخلفناہ عنا فیدہ العزیزۃ نتائبۃ عن یدنا والتزام حکمہ فی امر الدین والدنیا من تعظیمنا وعظمناہ واھان من لم یحفظ حق من حفظناہ واللہ الموفق الھادی والمستعان وعلیہ التکلان ثم حررت ھذہ الاسطر بالاشارۃ العالیۃ نظام الدین محمد بن احمد علاہ وصانہ عن کل افۃ وحماہ بخط العبد الضعیف الراجی بالفضل الربانی حسین بن محمد بن محمود ن العلوی الکرمانی و ذالک فی الیوم العشرین من ذی الحجۃ اربع وعشرین وسبع مائۃ۔
ترجمہ خلافت نامہ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام حمد و ثنا اس خدا کو ثابت ہے جس نے اپنے دوستوں کے ارادوں کو عالم اور اہل عالم کی طرف میل کرنے کی طرف کردیا اور ان کے دلی قصدوں کو خدائے واحد و حنان کے ساتھ نیکو کاری کی رو سے وابستہ کیا پس صبح و شام خدا کے دوستوں پر محبوب کے دریائے محبت کی شراب کا پیالہ ہمیشہ اور بلا زوال دور کرتا رہتا ہے۔ جب ان پر رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو شوق و ذوق سے ان کے دل مشتعل ہوجاتے اور آنکھیں بارش کی طرح آنسو بہاتی ہیں وہ دوست کے ساتھ راز کہنے کی وجہ سے برکورداری حاصل کرتے اور خدا تعالیٰ کے سرا پردہ کے گرد فکروں کی رو سے گھومتے ہیں ان میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر زمانہ میں عرفان کی تازگی کے لباس سے آراستہ رہتے پھر اطراف عالم میں ان کی نشانیاں ظاہر ہوتی اور عالم میں ان کے انوار روشن و واضح ہوتے ہیں۔ ولی کی زبان حق کے ساتھ گویا ہوتی ہے اور وہ خلق میں خدا کا داعی ہوتا ہے تاکہ خلق کو گمراہی کی تاریکی سے ہدایت کی روشنی کی طرف نکالے اور انہیں رب غفور کی طرف نزدیک کرے۔ حمد و ثنا کے بعد روشن شریعت اور تابان طریقت کے صاحب یعنی رسول رحمت پر خدا کی کامل رحمت نازل ہو جو مقام بیعت میں اپنے پروردگار کے خلیفہ ہونے کے ساتھ مخصوص ہیں اور جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خلفاء پر بھی خدا کی رحمت کاملہ نازل ہو جو راہِ راست دکھانے والے اور ہر برتر مقام پر پہنچنے والے ہیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پاک پر بھی خدا کی رحمت نازل ہو جو اپنے رب کو ہر صبح و شام یاد کرتے ہیں۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ خدائے واحد علام کی طرف پکارنا ارکان اسلام کا ایک اعلی و ارفع رکن اور ایمان کا نہایت مضبوط کڑا ہے جیسا کہ پیغمبر علیہ السلام کی حدیث میں وارد ہوا کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے اے مسلمانو! اگر تم چاہو تو میں تمہارے وثوق و تیقّن کے لیے قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بندگانِ خدا میں سب سے زیادہ خدا کے دوست وہ لوگ ہیں جو خدا کو دوست رکھتے ہیں اس کے بندوں کی طرف اور بندگانِ خدا کو دوست رکھتے ہیں خدا کی طرف یعنی خدا کی محبت و عشق کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ نیز بری باتوں سے باز رکھنے اور اچھی باتوں کا حکم کرنے کے لیے زمین پر چلتے ہیں اسی بنا پر خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی مدح سرائی ان لفظوں میں کی ہے کہ ٍالذین یقولون الخ یعنی رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو کہتے ہیں الٰہی! ہمیں ہماری بیبیوں اور اولاد میں سے آنکھوں کی خنکی عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کے امام قرار دے۔ اور تحقیق خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس حدیث کی استواری اور موافقت کے لحاظ سے اس بہترین پیغمبر کی پیروی لازم و واجب کی ہے جو اپنی امت کے ان لوگوں کو بہشت کی طرف کھینچ لے جانے والا ہے جن کے اعضاء وضو روشن و درخشاں ہوں گے جیسا کہ خود تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ فرما دیجیے کہ یہ میری راہ اور میرا دین ہے۔ اور اے میری امت میں تمہیں خدا کی طرف اس بینائی کی رو سے بلاتا ہوں جس پر میں ہوں اور جو لوگ میری پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر کی پیروی جبز آپ کے اقوال کی رعایت و نگاہ داشت کرنے اور اعمال میں آپ کی اقتدا کرنے اور ان تمام چیزوں سے سر کو پاک کرنے کے جو وجود و پیدائش میں خدا کے سوا ہیں اور تمام خلائق سے قطع تعلق کر کے معبود کی طرف ملنے کے ہر گز حاصل نہیں ہوتی۔ پھر جاننا چاہیے کہ فرزند عزیز پرہیز گار اور خدا کی صفات و وحدانیت کا عالم اور خدا کا پسندیدہ اور رب العالمین کی طرف توجہ کرنے والا یعنی شمس الملۃ والدین محمد بن یحیی نے (خدائے واحد اس کے انوار کو اہل یقین اور صاحبِ تقوی پر فائز کرے) جب اپنا قصد و ارادہ ہماری طرف درست کیا اور ارادت کا خرقہ ہماری طرف سے زیب جسم کیا اور ہماری صحبت کا کافی دوافی حصہ حاصل کیا تو میں نے اسے اجازت و رخصت دی جب کہ میں نے تحریر کر لیا کہ وہ جناب سید کائنات کی پیروی و اتباع پر ثابت قدم و مستقیم ہے اور اس نے اپنے تمام اوقات طاعت الٰہی میں مستغرق کر دیے ہیں اور غلبات نفس اور خطرات کے ہجوم سے اپنے دل کو محفوظ رکھتا ہے۔ دنیا اور اسباب دنیا سے رو گرداں ہے اور ابناء دنیا اور ارباب دینا کی طرف میل کرنے سے بری ہے اس نے تمام علائق کو قطع کر دیا ہے اور ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ اس کے دل میں عالم قدس کے انوار تابان و درخشاں ہیں اور عالم ملکوت کے اسرار چک رہے ہیں اس کے لیے خدا تعالیٰ کی معرفت کے دریافت کرنے کا دروازہ کھل گیا ہے اور محبت خدا کا ذوق و شوق دل میں بھرا ہوا ہے۔ میں نے اسے اس بات کی اجازت دی کہ مریدین کو خرقہ پہنائے اور انہیں موقنین کے مقامات کی طرف راہ دکھانے میں شمس الدین یحییٰ کو ویسی ہی اجازت دی جیسے مجھے میرے شیخ نے اپنی نظر خاص سے ملاحظہ کرنے اور خرقہ اختصاص کے پہنانے کے بعد اجازت دی وہ شیخ جن کی بزرگی کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور کرامتوں کی روشنی ہر جانب پہنچی ہوئی ہے۔ عالم قدس میں ان کا افکار نے بلند پروازی کی ہے اور رحمان کی محبت ان کے آثار نے ظاہر کی وہ کون؟ خلق کے قطب۔ دنیا کے علامہ فرید الحق والشرع والدین خدا تعالیٰ ان کی آسوددگی کو خوش کرے اور خطیرۃ القدس کو ان کا آرام گاہ مقرر فرمائے۔ جناب فرید الحق والدین نے ارادت و خلافت کا خرقہ مشائخ کے بادشاہ طریقت کے سلطان محبت خدا کے کشتہ یعنی قطب الملۃ والدین بختیار اوشی سے زیب جسم فرمایا اور انہوں نے خلافت کا خرقہ عارفوں کے مہتاب معین الدین حسن سنجری سے پہنا اور معین الدین حسن سنجری نے خلافت کا خرقہ عثمان ہارونی سے پہنا جو خدا کی دلیل اس کی خلق پر ہیں اور عثمان ہارونی نے خلافت کا خرقہ حاجی شریف زندنی سے حاصل کیا اور انہوں نے مودود چشتی سے پہنا جو خلق میں سایۂ خدا ہیں۔ خواجہ مودود چشتی نے بادشاہ شیوخ صاحب تمکین ناصر الدین یوسف چشتی سے خرقہ خلافت لیا اور یوسف چشتی نے ابو محمد چشتی سے حاصل کیا جو بندگانِ خدا کی پناہ تھے۔ ابو محمد چشتی نے خلافت کا خرقہ عمدۃ الابرارقدوۃ الاخیاء ابو احمد چشتی سے زیب بدن فرمایا اور ابو احمد چشتی نے بزرگ ترین اہل ایمان پرہیز گاروں کے چراغ ابو اسحاق شامی سے خرقہ خلافت حاصل کیا (چشتی کے القاب مبارک کا اطلاق اسی بزرگ سے نکلا ہے کیونکہ اس بزرگ کا اصلی وطن چشت تھا) ابو اسحاق شامی چشتی نے خرقہ خلافت درویشوں کے آفتاب حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری سے پہنا اور خواجہ علو دینوری نے بادشاہ مشائخین بزرگ ترین اہل ایمان ابو ہبیرۃ بصری سے خرقہ خلافت پہنا اور ہبیرۂ بصری نے صالحوں کے سرتاج اور عاشقوں کی دلیل حضرت حذیفہ مرعشی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اور حذیفہ مرعشی نے سالکوں کے شہنشاہ واصلوں کی دلیل سلطنت کے ترک کرنے والے حضرت ابراہیم ادھم بلخی سے خرقہ خلافت پہنا اور ابراہیم بلخی نے قطب الاقطاب قطب ولایت صاحب فضل و فضائل ذو الراے حضرت فضیل بن عیاض سے حاصل کیا۔ اور حضرت فضیل نے قطب عالم شیخ معظم حضرت عبد الواحد بن زید سے خرقہ خلافت پہنا اور عبد الواحد زید نے تابعین کے سردار علماء کے امام حضرت خواجہ حسن بصری سے خرقہ خلافت پہنا اور حضرت خواجہ حسن بصری نے امیر المومنین خلیفہ برحق حضرت رسول رب العالمین کے جانشین اہل عالم کے پیشوا آسمانی فرشتوں کے درمیان سکونت کرنے والے اعلی مقامات میں جگہ لینے والے جن کی طرف ہر طالب کا خرقہ منتہی ہوتا ہے یعنی جناب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے خرقہ خلافت پہنا جو خلفاء راشدین کے ختم اور اہل مشارق و مغارب کے امام ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی ذات کو بزرگ کرے اور تمام مشائخ کے اسرار پاک کرے اور ان کی روشنائی قیامت کے روز تک باقی رکھے اور حضرت مرتضی علی بن ابی طالب نے سید المرسلین خاتم النبین سے خرقۂ خلافت زیب جسم فرمایا جن کی پیروی پر رب العالمین کی محبت موقف ہے اور جن کا نام پاک محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے خدا تعالیٰ ان پر اور ان کے فرزندوں اور یاروں پر رحمت و سلام نازل فرمائے۔ اور ان لوگوں پر بھی رحمت کاملہ نازل ہو جو آپ سے نسبت رکھتے اور اقتدا کرتے ہیں پس جو شخص کہ ہماری طرف نہ پہنچ سکے اور شمس الدین یحیی کی طرف پہنچے تو اسے واضح ہو کہ ہم نے شمس الدین یحیی کو اپنی جگہ جانشین کیا اور اپنا خلیفہ بنایا ہے پس اس کا عزیز ہاتھ میرے ہاتھ کے قائم مقام ہے اور دین و دنیا کے کاموں میں اس کی فرمانبرداری کرنا حقیقت میں میری تعظیم و توقیر کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو اس کی توقیر کرے جسے میں بزرگ و گرامی کہوں اور عزت کروں اور اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کرے جو اس شخص کے حق کی رعایت نہ کرے جس کے حق کی میں رعایت کروں اور خدا تعالیٰ ہی مدد گار اور راہ دکھانے والا ہے اور اس پر تمام کاموں کا بھروسہ ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہو کہ چند سطریں حضرت سلطان المشائخ نظام الدین محمد کے اشارہ عالیہ لکھی گئی ہیں خدا ان کی بزرگی کو ہمیشہ نگاہ رکھے اور ہر آفت سے محفوظ رکھے۔ نیز یہ سطریں بندۂ ضعیف فضل رحمان کا امید وار حسین محمد بن محمود علوی کرمانی کے قلم خاص سے لکھی گئی ہیں اور کتابت ذی الحجہ کی بیسویں تاریخ ۷۲۴ھ میں واقع ہوئی۔