مولانا شمس اللہ بستوی
مولانا شمس اللہ بستوی (تذکرہ / سوانح)
واعظِ خوش بیان مولانا شمس اللہ رضوی حشمتی
مقیم حال محلہ بھورے خاں پیلی بھیت شریف
ولادت
حضرت مولانا شمس اللہ رضوی حشمتی ۱۵؍جولائی ۱۹۳۰ء کو موضع پیری بزرگ میں پیدا ہوئے۔ گندمی رنگ، چوڑا بدن، متوسط قد، پھیلی ہوئی گھنی داڑھی، مزاج میں متانت، عقیدے میں صلابت، مولانا شمس اللہ کا حلیہ ہے۔
خاندانی حالات
مولانا شمس اللہ کے آباء واجداد جگنی دیور یا نزد سعداللہ نگر ضلع گونڈہ کےرہنےوالےتھے، وہاں سے ترکِ سکونت کر کے صوفی غلام علی موضع پیری بزرگ ضلع بستی تشریف لائے۔ یہاں کے قدیمی ذمہ دار حضرات، جن سے صوفی غلام علی کے گہرے مراسم تھے، یہاں آنےکا سبب بنے۔ جب صوفی غلام علی یہاں کےباشندےہوگئے تو دینی خدمات شروع کیں، مسجد کی امامت اور تدریس کی ذمہ داری سن بھالی اور اس وقت سے لے کرتا ہنوز امامت وخطابت اور مدرس کے فرائض اسی خاندان سے وابستہ ہیں۔
تعلیم وتربیت
مولانا شمس اللہ نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔ اس کےبعد مدرسہ مخزن العلوم بھاولپور بستی گلستاں، بوستاں پڑھیں۔ چونکہ اس علاقے میں شیر بیشۂ اہلِ سنت مولانا حشمت علی خاں رضوی قدس سرہٗ اپنے تبلیغی دورےکےسلسلے میں اکثر و بیشتر تشریف لایا کرتےتھے، اور اس علاقے کے افراد کو حضرت سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی، اس لیےمولانا شمس اللہ کو گھر والوںنے شیر بیشۂ اہلِ سنت قدس سرہٗ کےسپرد کردیا۔
چنانچہ مولانا شمس اللہ حضرت شیر بیشۂ اہلِ سنت قدس سرہٗ کےہمراہ پیلی بھیت پہنچے، اور خدمت میں رہ کر فارسی، عربی کی کتابیں از سرِ نو پڑھیں،پھر مزید تحصیل علم کے لیے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور حاضر ہوئے جہاں قدوری سے لے کر مشکوٰۃ شریف کی ساری کتابیں پڑھیں۔
اساتذۂ کرام
۱۔ شیر بیشۂ اہلسنت مولانا حشمت علی خاں رضوی لکھنوی علیہ الرحمۃ
۲۔ حافظِ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۳۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف سابق شیخ الحدیث اشرفیہ مبارک پور
۴۔ حضرت مولانا غلام میلانی رضوی اعظمی علیہ الرحمۃ صدر المدرسین دارالعلوم منظر اسلام بریلی
۵۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالمصطفیٰ مجددی اعظمی علیہ الرحمۃ
۶۔ مولانا محمد ایوب ٹانڈوی مدرس مخزن العلوم بھاؤ پور بستی
۷۔ مولانا عتیق الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ ۱۹۸۳ء
۸۔ جناب رحمت میاں صدیقی بستوی
فراغت
مولانا شمس اللہ اشرفیہ سےتمام اساتذہ کی مرضی سے بریلی شریف چلے آئے۔ یہاں دارالعلوم مظہر اسلام میں داخلہ لے کر یکم شعبان المعظم ۱۲۷۶ھ میں تعلیمی سلسلے کا اختتام کر کے حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ کے مبارک ہاتھوں سے سندو دستارِ فضیلت حاصل کی۔ بظاہر تعلیمی سلسلے کا اختتام ہوچکا تھ امگر پھر بھی تحصیل علم کا جذبہ انگڑائیاں لیتا رہا۔فراغت کے بعد مولانا شمس اللہ پیلی بھ یت گئے اور حضرت شیر بیشۂ اہل سنت علیہ الرحمۃ سے صحاحِ ستہ، جلالین شریف اور تفسیر بیضاوی وغیرہ کی مزید تعلیم حاصل کی۔
تدریس
فراغت کے بعد مولانا شمس اللہ رام پور کٹرہ ضلع بارہ بنکی میں مدرسہ حشمت العلوم تین سال تک بحیثیت صدر مدرس رہے، لیکن افتاد طبع نے مدرسہ کی ملازمت سے باز رکھا اور تین سال کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور اس کے بعد تادمِ تحریر، تحریر وتقریر کے ذریعے مذہب و ملت کی خدمت کر رہے ہیں۔ تصانیف میں صمصام حیدری قابلِ قدر یادگار ہے۔
بیعت وخلافت
مولانا شمس اللہ کو حضرت مفتئ اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی ۱۵؍فروری ۱۳۸۸ھ کو سندِ خلافت واجازت سے نوازا ، اور شیر بیشۂ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں رضوی سے بھی خلافت حاصل ہے[1]۔
عقد شریف
۱۳۷۲ھ میں مولانا شمس اللہ کی شادی شیر بیشۂ اہل سنت کی منجھلی صاحبزادی سے ہوگئی جس کی وجہ سے بستی چھوڑ کر پیلی بھیت میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں کےہوکر رہ گئے۔ پانچ لڑکے تین لڑکیاں یادگار ہیں۔
۱۔ محمد رؤف رضا حشمتی
۲۔ محمد نجم الرضا حشمتی
۳۔ محمد تحسین ضا
۴۔ مجاہد رضا
۵۔ گل شمس رضا
۶۔ اکرم جہاں
۷۔ رضیہ خاتون
۸۔ نور افشاں
تقریب نکاح ناور الابصار
شیر بیشۂ اہلِ سنت علیہ الرحمۃ نےمولانا شمس اللہ کی شادی جب کی اُسی وقت منظوم دعوت نامہ اپنےاحباب میں دیا۔ مولانا شمس اللہ سے کتنی محبت وعقیدت تھی، اس کا اظہار اسکےپڑھنےسےہوتا ہے۔ اشعار یہ ہیں:؎
حمد بے حد برائے ربِّ ودود |
|
بر ح بیب خدا سلام ودرود |
بر جمیع صحابۂ اخیار |
|
عترت پاک پر بھی یا غفار |
ہم بہ روح جنابِ غوث الوریٰ |
|
بو حنیفہ کی روح پر بھی سدا |
ہم بہ احمد رضا امامِ زمن |
|
ہم بہ ارواح جملہ اہلِ سنن |
بعدِ حمد و ثنا گزارش ہے |
|
ساتھ تسلیم کے نگارش ہے |
میرے غربت کدے پہ ہی شادی |
|
نور چشمی کی خانہ آبادی |
میرا نور نگاہ شمس اللہ |
|
رحمت حق ہو اس پہ شام دیگاہ |
میری بیٹی کا اس سے ہوگا نکاح |
|
ہے جو دونوں کو دو جہاں کی فلاح |
چھٹی شوال، جون کی انیس |
|
جمعہ کے روز ہے یہ عقدِ نفیس |
میری عزت بڑھائیے آکر |
|
آپ سب پر ہو رحمتِ دادر |
المکلف: فقیر ابو الفتح عبید الرضا محمد حشمت علی خاں رضوی برکاتی لکھنوی غفرلہٗ[2]
مباحثہ علاقہ نیپال
بروز جمعرات ۲۰؍مئی ۱۹۶۵ھ؍ ۱۳۸۵ھ کو منڈی مہندر نگر علاقۂ نیپال میں مولانا شمس اللہ بیان کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔ وہابیوں، دیوبندیوں، جماعتیوں کو جب معلوم ہوا کہ سنی عالم آرہے ہیں تو وہ اپنے نام نہاد مولویوں کو لے کر جلسہ گاہ میں پہنچے۔ صاحب مجلس سیٹھ شکر الدین کے حسنِ انتظام سے بارہ بجے تک مولانا شمس اللہ کاپر جوش بیان ہوا۔ اور صلوٰۃ وسلام ہونے کے بعد شیرینی پر فاتحہ ہوئی۔
بعد ختم بیان وہابی آخر ہمت کر کے سامنے آئے، مختلف موضوعات پر تقریباً ڈھائی بجے تک بحث و مباحثہ ہوا، پھر صبح پر بات چیت رکھی گئی۔ صبح کو آٹھ بجے سے لے کر دس بجے تک بحث ہوتی رہی۔ دیوبندی مولوی اشرف علی گھانوی کی کتاب بہشتی زیور ساتھ لائے تھے۔ مولانا شمس اللہ اپنے ساتھ ان کی کوئی کتاب نہیں لے گئے تھے۔ دیوبندیوں کو کفریہ عبارات آپ نے بیان کیں، دیوبندی اقبال کرنے سے انکار کرتے رہے۔ مولانا شمس اللہ نے آخر بہشتی زیور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ:
عبدالرسول، غلام رسول، علی بخش ، حسین بخش وغیرہ نام رکھنے کو کفر وشرک لکھا ہے یوں کہنے کو کہ
خدا چاہے اور رسول چاہے کام ہوجائے کفر بتایا۔
دیوبندیوں نے انکار کیا، مولانا شمس اللہ نے کتاب بہشتی زیور کھول کر دکھادی، صاحبِ مجلس سیٹھ شکر الدین نے دونوں عبارتیں پڑھیں، اور بھرے مجمع میں کہا کہ:
‘‘میں رات سے اب تک مولانا کے متعلق سوچتا تھا کہ یہ بریلوی مولوی صرف ضد میں ایسی باتیں ان کے متعلق کہتے ہیں، ایسا کوئی نہیں لکھ سکتا، مگر اب آنکھوں سے بہشتی زیور کی عبارت دیکھ لی، یہ کتاب مردود، اس کا لکھنے والا بھی مردود’’
کہتے ہوئے بہشتی زیور کو بہت جوش میں زمین پر پھینک دیا۔ مولیٰ تعالیٰ نے مولانا شمس اللہ کو کامیابی عطا فرمائی اور وہابیہ دیوبندیہ ذلیل وخوار وخائب وخاسر ہوئے[3]۔
[1]۔تذکرہ علماء بستی میں خلافت واجازت کی تاریخ وسنہ مذکور نہیں ہے، راقم کو ایک ملاقات میں تاریخ خلافت تحریر کرائی۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[2]۔مولانا شمس اللہ رضوی نے یہ منظوم دعوت نامہ راقم کو صفر المظفر ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۸۹ء میں عطا فرمایا۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[3]۔ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۲۹ بابت ستمبر ۱۹۶۵ء؍ جمادی الاول ۱۳۸۵ھ