راغب المصلین مولانا شمس الدین احمد رضوی
راغب المصلین مولانا شمس الدین احمد رضوی (تذکرہ / سوانح)
صدر المدرسین ومفتی ومسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ
کوور (جی ٹی روڈ) ہزاری باغ بہار شیر شاہ سوری روڈ سے تقریباً چھ۶ کلو میٹر شمال کی جانب دامن کرہ میں آباد ہے اور وقوع کے اعتبار سے بہت پر بہار ہے۔ مولانا مفتی شمس الدین رضوی صدیقی کے جد کریم عبداللطیف مرحوم کے بزرگوار شیخ بھکاری بریلی شریف سے ترک وطن کر کے مقام راگڑیہہ ضلع ہزاری باغ (بہار) میں سکونت پذیر ہوئے۔ پھر عبداللطیف نے راگڑیہہ سے منتقل ہوکر کودر میں سکونت اختیار کی، راگڑیہہ اور کوور کی مسافت تقریباً ۶ میل ہے اس گاؤں میں تقریباً ۱۵۰ گھر مسلمان آباد ہیں۔
ولادت
اسی موضع کوور ڈاکخانہ دھرگلی ضلع گریڑیہہ (بہار) میں ۱۵؍جون ۱۹۵۵ء کو عالم با عمل حضرت مولانا شمس الدین احمد رضوی پیدا ہوئے، ولادت سے چالیس یوم قبل آپ کے والد کا انتقال ہوگیا والدہ ماجدہ کی آغوش رحمت میں پرورش ہوئی، اور شیخ عبداللطیف نے کفالت فرمائی۔ پھر اُن کے انتقال کے بعد چچا قمر الرحمٰن نے سر پرستی کی۔
نام احمد لقب شمس الدین، کنیت ابو الخیر شمس الدین احمد بن جناب زین الدین احمد بن شیخ عبداللطیف بن شیخ بھکاری، اس طرح سے آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔
تسمیہ خوانی
اپنی خدندانی روایت کے مطابق جب مولانا شمس الدین کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو دادا عبداللطیف نے خوب دھوم دھام سے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کرائی۔ اس میں امیر وفقیر، عزیزواقارب سب کی دعوت کی۔ عالمانہ کرو فر کے ساتھ بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کی گئی۔ یہ تقریب ۱۹۶۰ء میں ہوئی۔ آپ کے ماموں مولوی برأت علی نے بسم اللہ کی رسم ادا کی۔
مولانا شمس الدین احمد کا خاندان دیندار خاندان ہے۔ اس لیے شروع ہی سے روزہ نماز کی تاکید کرنے لگے، اور مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے لگے۔ جب مولوی برأت علین ے اپنے بھانجے کی یہ حالت دیکھی تو بہت محنت و شفقت سے دن رات تعلیم میں رغبت دلانے لگے۔
تعلیم وتربیت
حضرت مولانا شمس الدین احمد نے ۱۹۶۰ء میں تعلیم کا آغاز گاؤں کےمکتب اور اسکول میں کیا۔ اسکول کے اساتذہ میں ماسٹر محمد ظہور قابل ذکر ہیں۔ درجۂ ہفتم تک اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ ۲؍فروری ۱۹۶۹ء کو مدرسہ فیض العلوم دھکٹی دیہہ جمشیدپور میں فارسی کی پہلی شروع کی۔ فیض العلوم جمشید پور ٹاٹا نگر میں تقریباً ایک سال تک حصول علم میں مشگول رہے ۴؍فروری ۱۹۷۰ء کو مدرسہ عزیز سمبلپور اڑیسہ پہنچے بدہٗ ۴؍اپریل ۱۹۷۰ء کو مدرسہ عین العلوم بیت الانوار گیوال بیگھ تشریف لے گئے پھر ۱۹۷۵ء یا ۱۹۷۶ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا تعلیمی سفر کیا اور معزز اساتذۂ فن سے اکتساب علم کیا۔
۱۴؍شوال المکرم کو جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس تشریف لے گئے۔ وہیں مستقل متنفر بنایا، ۱۵؍اگست ۱۹۷۶ء کو سند فراغت حاصل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ شمس العلماء مولانا قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپور علیہ الرحمۃ مصنف قانونو شریعت
۲۔ حضرت شاہ محمد سلیمان اشرفی بھاگلپوری
۳۔ حضرت علامہ مولانا کادم رسول رضوی شیخ الحدیث مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ شریف
۴۔ حضرت مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی
۵۔ محدث کبیر مولانا ضیاء المصطفیٰ رضوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور
۶۔ حضرت مولانا مفتی عبید الرحمٰن رضوی پور نوی
۷۔ حضرت مولانا نجم الدین احمد اورنگ آبادی
۸۔ حضرت مولانا عبدالشکور پلاموی
۹۔ حضرت مولانا نصیر الدین رضوی اورنگ آبادی
۱۰۔ حضرت مولانا شاہ مبین الہدیٰ گیاوی
۱۱۔ حضرت مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی دربھنگوی مہتمم جامعہ اسلامیہ نوری، مدھوبنی
۱۲۔ حضرت مولانا نظیر الدین احمد پر لوی بنگالی
۱۳۔ حضرت مولانا محمد عمر بستوی
امتحانات
مولانا شمس الدین احمد نے منشی، مولوی، عالم، فاضل دینیات اور کامل طب کے امتحانات الٰہ آباد بورڈ سے دیئے۔ ۱۹۷۷ء میں فاضل دینیات، ۱۹۸۴ء میں فاضل امحانات پاس کیے، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر امتحان اعلیٰ ڈویژن سے کامیابی حاصل کی۔
تدریسی زندگی
مولانا شمس الدین احمد کی تدریسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۷ء سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مدرسہ عین العلوم بیت الانوار گیا میں تعلیمی فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد ۱۵؍مارچ ۱۹۷۸ء میں جامعہ حمیدیہ رضویہ تشریف لائے۔ اور جامعہ حمیدیہ بنارس میں ایک سال تک تشنگان علوم کی پیاس بجھاتے رہے۔۱۰؍شوال المکرم ۱۳۹۸ھ کو مدرسہ خیریہ نظامیہ سہسرام میں درس وتدریس کی مسند پر فائز رہے۔
بہرائچ شریف کی ایک بہت ہی مشہور و معروف درسگاہ جامعہ اشرفیہ مسعود العلوم معروف بہ چھوٹی تکیہ ہے۔ اس مدرسہ کو آج سے پچاس سال قبل محدث اعظم ہند مولانا سید محمد رضوی اشرفی کچھو چھوی نے قائم فرمایا تھا۔ مسعود العلوم کے ارکان کی دلی خواہش تھی کہ مولانا شمس الدین احمد ہمارے ادارے میں درس دیں۔ آپ نے ان کی خواہش کا اھترام کرتے ہوئے ۱۵؍مارچ ۱۹۸۰ء کو مدرسہ تشریف لائے۔ مولانا کی خدمات اور کارہائے نمایاں نے آپ کو ۱۹۸۷ء میں صدر المدرسین کے منصب پر فائز کردیا۔ مولانا شمس الدین احمد بحسن وخوبی درس وتدریس کے ساتھ تبلیغی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔
فتویٰ نویسی
مدرسہ کے وقت تک کتابوں کا پڑھانا، عہدہ وصدارت کا سنبھالنا، ان ذمہ داریون کے علاوہ ایک اہم ذمہ داری فتویٰ نویسی بھی ہے۔ بہرائچ شریف کے قرب و جوار و دور دراز سے آئے ہوئے سوالات کے جوابات آپ نہایت تشفی بخش دیتے ہیں۔ مولانا شمس الدین نے سب سے پہلا فتویٰ ۲۹؍مارچ ۱۹۸۰ء میں طلاق کےمتعلق دیا کہ
‘‘حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے’’
تقریر گوئی
مولانا شمس الدین احمد نے طبیعت نکتہ رس پائی ہے۔ فن تقریر بھی ایک عمدہ فن ہے۔ تبلیغ وارشاد اور پندو نصاح ایک اچھا اور موثر فن ہے اس کے ذریعہ عوام کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔ قوم کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ مولانا شمس الدین احمد فن تقریر میں کہنہ مشق مقرر ہیں۔ فی البدیہہ تقریر فرماتے ہیں۔ آپ کا اکثر موضوع سخن اصلاحمعاشرہ اور روزہ نماز ہوتاہے۔ جو آج ہماری قوم کے لیے بیحد ضروری ہے۔ مولانا اپنے مخصوص فکر واحساس کی بدولت نباض قوم کے منصب پر فائز نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علماء کی صف میں راغب المصلین کے لقب سے ملقب ہیں۔
عقد مسنون
مولانا شمس الدین احمد کا عقد مسنون جناب محمد یوسف کی دختر سے ۱۳؍مئی ۱۹۷۲ء میں ہوا۔ آپ کےپانچ بچے ہیں جن میں ایک لڑکا چار لڑکیاں۔ (۱)ابو المعانی ظفر الدین احمد رضوی (۲)روح الفاطمہ عرف روحی احمدی (۳)بلقیں اختر نوری احمدی(۴)رضیہ شمیم چشتی احمدی، (۵)مسعودی احمد۔
بیعت وخلافت
حضرت مولانا شمس الدین احمد نے ۲۴؍صفر المظفر ۱۳۹۲ھ کو مفتی اعظم قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر خانقاہ رضویہ بریلی میں بیعت کا شرف حاصل کیا، اور اگست ۱۹۷۶ء؍شعبان المعظم ۱۳۹۶ھ میں مفتی اعظم مولانا شمس الدین احمد نے ایک ملاقات میں راقم سے فرمایا۔
‘‘مجھے اور مصنف قانون شریعت کے صاحبزادے مولانا محی الدین احمد ہشام کو بڑے سکون واطمینان کےعالم میں سند خلافت عطا فرمائی تھی۔ اور حضور مفتی اعطم قدس سرہٗ کافی دیر تک دعا فرماتے رہے۔۔۔ اور ہم اُن کے آغوش نوری میں اشکبار ہوتے رہے [1] ۔’’
مولانا شمس الدین احمد مفتی قدس سرہٗ کے متعلق راقم کےنام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔
پیر ومرشد سرکار مفتئ اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کی یہ عادت کریمہ تھی کہ ہر نمازکے لیے کامل وضو فرماتے اور با جماعت نماز ادا فرماتے۔’’
چند تلامذہ
۱۔ مولانا شمیم عالم رضوی پلاموی، بہاری مدرس مسعود العلوم بہرائچ شریف
۲۔ مولانا حافظ محمد بشارت علی رضوی شید ا پور پوسٹ قیصر گنج بہرائچ
۳۔ مولانا سید بدر الحسن کٹیہاری
۴۔ مولانا محمد فاروق گجراتی
۵۔ مولان علیم الدین پلا مو بہار
۶۔ مولانا محمد میکائیل ضیائی رضوی کانپوری
۷۔ مولانا محمد اشفاق احمد ضیائی
۸۔ مولانا عسکری گجراتی
۹۔ مولانا فضل رسول رضوی اورنگ آبادی
۱۰۔ مولانا گل محمد رضوی بہرائچی [2]