استاذ الافاضل مولاناشیخ عبد اللہ شیخ گجراتی قدس سرہٗ
استاذ الافاضل مولاناشیخ عبد اللہ شیخ گجراتی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
فاضل متجر،مرجع الفضلائ، بے مچل تاریخ گو ، مولانا شیخ عبد اللہ ابن مولانا صدر الدین ( م ۱۲۶۹ھ/۲۔۱۸۵۱ئ) سکھوں کے عہد حکومت میںاپنے ننہیال موضع دینہ( ضلع جہم ) میں ۵۰۔۱۲۴۹ھ/۱۸۳۴ء میں پیدا ہوئے ، بچپن کے چند سال اپنے عابد زاہد نانا حافظ نورجی[1] رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۲۷۰ھ/۵۴ ۔ ۱۷۸۳ئ) کے زیر سایہ گزارے ۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں حافظ نور دین ، چک عمر کی خدمت میں حاضر کئے گئے اور حافظ صاحب کی توجہ سے جلد ہی قرآن پاک یاد کر لیا بعد ازاں علوم متادولہ کی تحصیل والد ماجد سے کی جو اپنے دور کینامور اساتذہ میں شمار ہوتے تھے ، ان کے علاوہ مولانا گلام یحیٰ ( میکی ڈھوک )استاذ حضرت خواجہ شمس العارفین قدس سرہ اور اپنے عم محترم مولانا میاں مخدوم عالم سے بھی استفادہ کیا ۔
تکمیل علوم کے بعد شیخ نے چک عمر ، تحصیل کھاریاں میں عرس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، بے شمار علماء آپ کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے، چک عمر اگر شہ آپ کے پر دادا مولانا حافظ شیخ محمد شکر اللہ خلیفۂ حضرت خواجہ فخر الحق والدین چشتی دہلوی کے زمانہ ہی سے منبع فیض چلا آرہا تھا لیکن شیخ عبد اللہ کی شبانہ روز مساعی کی بدولت علم و فضل کا گہوارہ بن گیا ، علامہ اصغر علی روحی قدس سرہ نے ایک دفعہ فرمایا :
’’میں نے لاہور کی مساجد او علماء کی فہرست تیار کی تونصف سے زیدہ حضرت مولانا شیخ عبد اللہ کے شاگرد ثابت ہوئے۔‘‘
آپ کے چند مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ مولانا محمد عبد المالک ، ساکھوڑی ،مشیر مال ریاست بہاولپور۔
۲۔ قاضی عطا محمد گجراتی ، تحصیلدار نپشزہ،
۳ ۔ مولانا نیاز احمد ساکن قصبہ نبہوڑہ ۔
۴۔ مولانا حکیم غلام محی الدین قریشی ساکن دیالی
۵۔ مولانا محمد عالم قریشی سر گڈھن۔
۶۔ مولانا حافظ نور دین مفتٔی اہل سنت جلالپور جٹاں۔
۷۔ مولانا نور احمد : باگڑیانوالہ۔
۸۔ سید بقاشاہ ،کیر انوالہ شہانہ۔
۹۔ سید محمد انور شاہ ، گولیکی۔
۱۰۔ سید فضل شاہ ، چک عبد الخالق سیداں۔ (وغیرہم)
مولانا شیخ عبداللہ بے نظیر فاضل اور مناظرہ میں یکتائے روز گار تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ، امیر حبیب اللہ کاں والی کامل ار مہاراجہ نبیر سنگھ حاکم ریاست جموں کشمیر آپ کے مداحوں میں سے تھے۔
حضرت پیر سید غلام حیدر شاہ جلالپوری قدس سرہ نے آپ کو حضرت خواجہ پیر شمس العافین سیالوی قدس سرہ سے بیعت کرایا اور جلد ہی آپ کا شمار خلفاء میںہونے لگا ،سلسلۂ چشتیہ کے علاوہ آپ کو سلسلۂ قادریہ ، نقشبندیہ ار سہر وردیہ میں بھی اجازت تھی۔
مولانا شیخ عبد اللہ کے دو صاحبزادے مولانا محمد بقا(مولوی فاضل) اور حافظ محمد رضا آپ کی زندی ہی میں فوت ہو گئے تھے اس لئے آپ کیبا سفا بھتیجے مولانا سلام اللہ شائق آپ کے جانشین ہوئے۔
ٓٓٓٓآج سے قریباً پون صدی پہلے موضع چک جانی متصل ڈنگہ میں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا موئے مبارک تھا ،مزاور عید قربانیکیموقع پر اس کی زیارت کرایا کرتے تھے، اس کی زیارت کیلے بے انداز خلق خدا حاضر ہو کاری تھی ،مز اور اسے اپنے رہائشی مکان پر رکھتے تھے جہاں اس کی بے ادبی کا احتمال ہوتا تھا اس لئے مولانا شیخ عبد اللہ نے اپنی گرہ او اپنے احباب کے چندہ سے ایک مسجد اور ایک زیارت گاہ تعمیر کرادی جہں بصد ادب و احترام موئے مبارک رکھوادیا ۔
مولانا شیخ عبد اللہ نے عربی و فارسی میں ایک منظوم نصیحت نامہ مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے لکھا تھا۔
آپ کی ایک تالیف تارٰخ الدیوان ) حالات ھاجی عبد اللہ دیوان قادری قدس سرہ جو بشند ور علاقہ پٹھوار (جہلم) کے رہنے والے تھے، متوفی۲۰ شوال ۱۹۷۲ھ) کا قلمی نسخہ مولانا عبد الرشید،لاجپت نگر ، شاہدرہ کے پاس موجودہے جس میں حضرت دیوان رحمہ اللہ تعالیٰ ے تفصیلی حالات بیان کئے گئے ہیں ، قطعۂ تاریخ مولانا شیخ عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا لکھا ہو ہے ؎
حضرت دیوان صاحب ، صاحب فقرمتیں
بر بساچ قاریہ بودہ اند مسند نشیں
چونکہ بود نداندریں دنیا بخلو تہا نہاں
در قصور جنت الماویٰ شدہ خلوت گزیں
شیخ ر سال وصالش مصر ع پاکیزہ گفت
’’حاجی دیوان عبد اللہ بجنت،آفریں ‘‘[2]
آپ عربی فارسی اور پنجابی میں طبع آزمائی فرمایا کرتے تھے ، آپ کا مجموعۂ کلام جس کا تاریخی نام نشان شیخ (۱۳۱۱ھ) ہے تا ہنور طبع نہیں ہو سکا ۔ آپ کا فارسی کلام حافظ شیرازی ، جان جاناں اور ناصر علی سر ہندی کی زمینوں اور انہی کے رنگ میں ہے ۔
تاریخ گوئی میں آپ کو قدرت کا ملہ حاصل تھی ،برجستہ تاریخکہنے میںآپ اپنی مثال نہ رکھتے تھے،آپ نے سینکڑوں کی تعداد میں تاریخیں رقم فرمائیں ، ۱۸۹۶ء میں پیسہ اخبار نے انعامی مقابلہ کرایا ، آپ نے بھی عربی ، فارسی اور اردو میں قطعات تاریخ لکھ کر ارسال کئے اور اول نمبر اانے پر آپ کی خدمت میں تین انعام پیش کئے گئے۔
یگانۂ روزگار فاضل مولانا شیخ عبد اللہ ۴۰۔۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء میں راہئی دار آخرت ہوئے ، مولانا محمد سلام اللہ شئق نے تاریخ وفات کہی ؎
چو مولائے ما قبلۂ اہل دیں
چراغ ہدایت بروئے زمیں
چراغے نہ گو یم کہ مہر جہاں
زبنیند گاںگشت ناگہ نہاں
زفقدش سیہ گشت عالم تمام
شدہ خواب و درچشم شائق حرام
خدائش بجنات بخشد مقام
بحق محمد علیہ السلام
بسال مسیحی چو داری خیال
بگوکوچ شیخ المشائخ مسائل بسال[3]
[1] آپ کا مزار آ پ کے مورث اعلیٰ حضرت خواجہ محمود رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفۂ مجاز حضرت غوث بہاء الحق ملتانی قدس سرہ کے روزضۂ مبارکی شمالی جانب موضع حاصلا نوالہ ،تحصیل پھالیہ میں ہے۔
[2] عبد اللہ ، شیخ مولانا : تاریخ الدیوان (قلمی)
[3] جملہ کوائف ماخوذ از مکوب جناب حکیم محمد مظفر علی مد ظلہ ساکن چک عمر(گجرات)بنام مکر می حکیم محمد موسیٰ امر تسری زید مجدہ۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)