حضرت مولانا صوفی عبدالرحمن و جودی لکھنوی
حضرت مولانا صوفی عبدالرحمن و جودی لکھنوی (تذکرہ / سوانح)
مولانا صوفی سید عبدالرحمن بن حضر ت سید محمد حسن کوٹ مخدوم عبدالحکیم متصل مبارکپور تحصیل شکار پور سندھ میں۱۱۶۰ھ میں تولد ہوئے ۔ ( تذکرۃ علمائے اہل سنت کا نپورص ۱۱۶۔ تذکرہ مشاہیر سندھ جلد اول ص ۲۱۷)
الرحیم ( حیدرآباد ) کے مشاہیر سندھ نمبر میں ہے کہ مبارکپور شکار پور میں نہیں بلکہ ضلع گھوٹکی میں ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔
حضرت سید عبدالرحمن کے جدا علی عرب شاہ عربستان سے سندھ میں آئے اور روپاہ کے علاقہ میں اقامت پذیر ہوئے او ریہیں اعلی خاندان میں شادی کی جس کے بطن سے دو بیٹے تولد ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے:سید عبدالرحمن بن سید محمد حسن بن سید علم الہدیٰ بن سید حسن محمد بن سید دین محمد بن سید عرب شاہ ۔
تعلیم و تربیت :
سید عبدالرحمن ۱۹ سال کی عمر تک والد ماجد سے تھصیل علوم کی ، قصبہ مہاروی میں چند دنوں مولانا اسد اللہ سے پڑھنے کے بعد دہلی پہنچے اور وہاں سے رامپور آئے ، رامپور سے ۱۱۹۸ھ میں لکھنو پہنچ کر حضرت بھر العلوم مولانا عبدالعلی فرنگی محلی قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر ۱۱۹۹ھ میں درسیات میں تکمیل کی ۔
بیعت و خلافت :
لکھنومیں مسجد شریف پنڈاری میں قیام تھا ۔ ان دنوں سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضر ت مولانا فخر الدین دہلوی چشتی قد س سرہ کے خلیفہ حضرت شاہ عظیم بیعت اور اجازت و خلافت سے سر فراز ہوئے ۔ سماع سے خاص ذوق تھا ، شریعت مطہرہ کے سختی سے پابند تھے ، نہایت متبحر او ر خوش تقریر عالم تھے ، قناعت و توکل خصو صی اوصاف تھے ، مسئلہ ’’وحدت الوجود ‘‘ کے قائل تھے اس مسئلہ میں آپ کے زمانے میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ (تذکرہ علمائے اہل سنت )
ایک روایت کے مطابق اپنے والد ماجد کے ساتھ اپنے چچا زاد بھائی حضرت مولانا مخدوم سید عبدالحکیم (انہی کے نام پر گوٹھ کا نام تھا ) سے شرف تلمیذ کے ساتھ بیعت بھی تھے ۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ )
تصنیف و تالیف :
آپ شاعر ی میں ’’موحد ‘‘ تخلص رکھتے تھے ، تصوف کے موضوع پر بلند پایہ کتب تحریر فرمائی ۔ ان میں سے ایک نام معلوم ہوا ہے ۔
٭ کلمۃالحق (عربی ) مطبوعہ نولکشور ۔ حافظ غیاث الدین اور عرفان احمد انصاری نے کلمۃالحق کے خلاصہ کا اردو ترجمہ کیا جو کہ ’’وحدت الوجود ‘‘ کے نام سے ۱۳۳۹ھ میں لاہور سے اللہ والے کی قومی دوکان کشمیری بازار کی جانب سے شائع ہوا ۔
رشد و ہدایت :
حضرت مولانا سید عبدالرحمن بہت بڑے صوفی بزرگ تھے ۔ سندھ سے نقل مکانی کر کے ہندوستان کے یوپی صوبہ میں لکھنو میں قیام کیا ، خانقاہ کی بنیاد رکھی اور رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری کیا ۔ آپ کا حلقہ ارادت نہایت وسیع ہے خصوصا یوپی کے اکثر علماء امراء و شعر اآپ سے شرف بیعت رکھتے تھے ۔ آپ کے خلیفہ مولانا نور اللہ بچھڑا لوی ( ضلع مراد آباد ) نے آپ کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب ’’انوار الرحمن لتنویر الجنان ‘‘ فارسی میں ۱۲۴۳ھ میںتحریر کی ۔ جس میں آپ کے تفصیل سے حالات درج ہیں افسوس کہ ہمیں نہ مل سکی ۔ اس کے علاوہ الہ آباد سے جاری ہونے والے رسالہ ’’ہندوستانی‘‘ میں آپ کی تفصیلی سوائخ پر ،مشتمل مضمون ۱۹۵۰ء سے پہلے شائع ہوا۔ تذکرہ مشاہیر کے موٗلف نے اس مضمون سے استفادہ کیا۔
خلفاء :
آپ کے حلقہ ارادت کے علاوہ خلفاء کی فہرست بھی طویل ہے ۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔
٭ مولانا فتح علی شاہ فتح پوری امیٹھوی
٭ خواجہ محمد شریف بن خواجہ سید سلطان الدین احمد
٭ مولانا ابو الحسن بن شیخ ریاض احمد ردولوی
٭ مولانا امیر علی شہید بن شیخ محمد بخش
٭ شاہ حسین بخش شاکر فرخ آبادی
مولانا امیر علی ، مفسر قرآن حضرت علامہ احمد المعروف ملا جیون صدیقی حنفیؒ ( مصنف : تفسیرات احمد ی ۔ نور الانوار ) کی اولاد میں سے تھے ۔ مولانا امیر علی سات سال حجرت عبدالرحمن کی صحبت میں رہے علوم باطن حاصل کر کے ۱۲۴۲ھ میں خلافت حاصل کی ۔ مولانا امیر علی شہید مسجد شریف کی حفاظت میں جان دے کر شہید ہوئے ۔ آپ کے بیالیس (۴۲) باکمال خلفاء تھے ۔ حضرت شاکر بھی ایک باکمال بزرگ ہو گذرے ہیں ، فرخ آباد میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کے فیوض کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حضرت طالب حسین مجیب ان کے نامور خلیفہ تھے ۔ فرخ کے نوجوان شاعر حفیظ مجیبی ان کے مرید باوفا تھے اور مرشد کی یاد میں اخبار ہفت روزہ ’’مجیب ‘‘ فرخ آباد سے جاری کیا ۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ )
ردویابیہ:
بابائے وہابیت مولوی اسماعیل دہلوی قیتل بالا کوٹ ( مصنف تقویۃ الا یمان ) نے بالا کوٹ خون ریزی کے ارادے سے جاتے ہوئے تہدید ا حضرت خواجہ عبدالرحمن سے کہا : ’’ واپس ہوکر تمہاری خبرلوں گا‘‘۔ حضرت نے جوابا فرمایا :’’پہلے تم واپس بھی تو آجاوٗ ۔ ‘‘ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید ۔ مولوی اسماعیل ۱۲۴۶ھ میں بالا کوٹ ( سرحد ) کے مسلما ن پٹھانوں کے ہاتھوں مارے گئے ( تذکرہ علمائے اہل سنت ) اس طرح حضرت کا ارشاد مبارک ظہور میں آیا ۔
وصال :
حضرت خواجہ سید عبدالرحمن نے ۶، ذوالقعد ۱۲۵۹ھ میں وسال کیا ۔( تذکرہ علماء اہل سنت دوسری روایت کے مطابق ۱۲۴۵ھ میں لکھنو میں انتقال کیا ۔یہ سن درست معلوم ہو رہا ہے۔ لکھنو میں آپ کی خانقاہ شریف مرجع خلائق ہے ۔ خلیفہ مولانا نور اللہ بچھڑالوی نے وصال پر فارسی میں قطعہ تاریخ وصال کہا :
نوجوان شاعر حفیظ مجیبی نے اپنی اخبار میں ’’نذر عقیدت ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شائع کی ہے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں :
گوہر بحر ولایت در درج عرفان
واقف راز خفی اے شہ عبدالرحمن
اے ’’موحد‘‘ لقب و آئینہ ھب بنی
سندھ سے تابہ اودھ آپ کا سکہ ہے رواں
لکھنو سے یہ ضیا آپ کی پھیلی ہر سو
فرخ آباد کو ’’شاکر‘‘ سا ملا جان جہاں
ہے جمال آپ کے پر تو کا ’’مجیبی‘‘
آپ کا خلق درخشاں ہے یہاں نور فشاں
(حفیظ مجیبی ایڈیٹر ہفت روزہ ’’مجیب‘‘ فرخ آباد شمارہ ۷ جون۱۹۳۷ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)