لسان الامت مولانا سید علی اکبر شاہ
لسان الامت مولانا سید علی اکبر شاہ (تذکرہ / سوانح)
خطیب اسلام حضرت مولانا سید علی اکبر شاہ بن محمد شاہ ۲، فروری ۱۹۰۱ء کو میہڑ(ضلع دادو) میں رولد ہوئے ۔ آپ ولی کامل حضر ت سید صدر الدین شاہ بکھری مشھدی بن سلطان العارفین حضرت سید محمد مکیؒ (متوفی ۶۴۴ھ ، مدفون سکھر سندھ ، خلیفہ اکبر شیخ شہاب الدین سہرور دی قدس سرہ الاقدس ) کی اولاد میں سے تھے۔ (موھیا کنھن نہ مال ص۱۵موٗلف :حبیب اللہ دیروی مطبوعہ میہڑ ۲۰۰۰ئ)
تعلیم و تربیت :
سید علی اکبر شاہ نے ابتدائی تعلیم آخوند عبدالحلیم کے پاس حاصل کی۔ سندھی اور انگریزی کی دو تین جماعتیں ای ۔ وی اسکول میہڑسے پاس کی۔ شاہ صاحب نہایت ذہین و ہوشیار طالب علم تھے ۔ ذہانت کو دیکھ کر آپ کے والد صاحب سید احمد شاہ نے آپ کو حضرت مولانا حکیم عبدالوہاب گلال (مصنف : تحفۃالوہاب ۲ جلدیں ، ردشیعیت میں معرکۃ الآراء تالیف ہے)کی خدمت میںگوٹھ گاہی مہیسر میں بٹھا دیا ۔ وہیں فارسی و عر بی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم مولانا عبدالکریم دیروی (میہڑ ) کے پاس حاصل کی۔ قدرت ان پر مہربان تھی ، قوت حافظہ کی نعمت سے سر فراز تھے، اس لئے تھوڑے عرصہ میں درس نظامی کا نصاب مکمل کر لیا۔
خطابت :
بعد فراغت میہڑ کی جامع مسجد کے امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ آپ جادو بیاں خطیب ثابت ہو ئے ۔ آپ کی تقریر سننے کے لئے ہر جمعہ صبح سے پسگروائی کے لو گ جمع ہونے لگتے ۔ ضلع دادو میں آپ کے خطاب کا چرچہ ہونے لگا۔ سندھ کے نامور صحافی رحیم بخش برق کے بقول کہ وہ ہندو سندھ میں دو خطیبوں سے متاثر تھے ان دونوں کی تقریر سے وقت گذرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔ ان میں ایک سندھ کے سحربیاں خطیب مولانا سید علی اکبر شاہ تھے ‘‘
مدرسہ دارالقرآن کا قیام :
آپ نے اعلیٰ ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے جامع مسجد میہڑ میں ’’مدرسہ عربیہ اکبر یہ دارالقران ‘‘کی بنیاد رکھی ۔ اور اس مدرسہ کا ناظم تعلیمات اپنے استاد مولانا عبدالکریم دیر وی کو مقرر کیا۔ جہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے ۔ قرآن و حدیث و فقہ کی تعلیم عام ہوئی ۔ عوام الناس مستفیض ہوئے اور آپ کا یہ صدقہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ تیس برس سے مفتی کریم بخش مگسی کی نگرانی میں تدریس کا عمل جاری ہے۔
سماجی خدمات :
لوگوں کو علم کی ترغیب کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی اصلاح کیلئے ’’انجمن اصلاح رسوم‘‘قائم فرمائی ۔ جس کے پلیٹ فارم سے سماجی رفاہی کام کئے ۔ اس کے بعد آگے جاکر’’ ینگ مسلم ایسوسی ایشن ‘‘تنظیم قائم کی۔ جس کے تحت مدرسہ دارالقرآن میں تعلیم بالغان کے لئے ’’نائیٹ اسکول ‘‘ قائم کیااور ایک لائبریری قائم فرمائی جس کے ذریعے نوجوانوں کا حلقہ دینی علمی ادبی اور ملی کتب کا باآسانی سے مطالعہ کر سکتا تھا ۔
جامع مسجد حیدر آباد کی تعمیر :
جب آپ نے حیدرآباد میں جامع مسجد صدر کے نزد رہائش اختیار کی تو آپ نے جامع مسجد کی تعمیر و ترقی و توسیع میں بھر پور حصہ لیا ۔ ایک بار دوران تقریر آپ نے لوگوں کو تعمیر مسجد کی جانب توجہ دلائی اور اثر انگیز انداز میں بات سمجھائی کہ لوگ بے خود ہوگئے اور ہر ایک نے اپنی بساعت کے مطابق تعاون کیا، لیکن ایک صاحب (غالبا آخوند عبداللطیف مٹیاروی ) نے اسی وقت ایک لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا۔
بیعت :
مولانا سید علی اکبر شاہ سلسلہ نقشبندیہ میں پیر طریقت حضرت پیر سید محمد مجتبیٰ رامپوری (متوفی ۱۹۳۶ئ)ؒ کے دست بیعت ہوئے ۔ پیر رامپوری کی مزار شریف خیر پور میرس (سندھ ) کے محلہ سعد آباد میں واقع ہے ۔
سیاست :
جب ملک میں مزہبی لیڈروں نے تحریک خلافت چلائی ان دنوں آپ عالم شباب پر تھے نوجوانی میں تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ پہلی خلافت کانفرنس لاڑکا نہ میں منعقد ہوئی ، خلافت تحریک کے بڑے بڑے لیڈروں نے شرکت کی ۔ شاہ صاحب نے کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے ضلع دادو میں کام کیا۔ میہڑ تحصیل سے ایک جماعت ساتھ لے کر کانفرنس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ کی خدمات کے صلہ میں آپ کو میہڑ تحصیل کے لئے خلافت تحریک کا کنویر مقرر کیا گیا۔
۱۹۴۰ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا اور ’’قرار داد پاکستان ‘‘منظور ہوئی ۔ لیگ کے منشور ودستور میں (مسلمانوں کی بھلائی )کو سامنے رکھ کر مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کای۔ اس کے بعد آلانڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر بنے ۔ اور اس طرھ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ انہین کام کرنے کا موقعہ ملا۔ جی ایم سید نے جب قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان سے بعض اختلافات کی بنیاد پر مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر الگ ہو گئے تو ان کی جگہ پر شاہ صاحب سندھ مسلم لیگ کے صدر چنے گئے۔
آپ نے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے میں بڑی سعی کی ، تحریک پاکستان کے لئے دن رات کام کیا۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے جس میں اسی علاقہ کے بااثر جاگیر دار وڈیرہ محمد قاسم مہیسر کو زبردست شکست دی ۔ وڈیرہ کی حمایت میں کانگریس کے نامور لیڈروں (جس میں جواہر لعل نہرو بھی تھا) نے بڑی جفاکشی کی لیکن ناکام گئے۔
شاہ صاحب عالم دین ، خوش اخلاق ، درویش ، خطیب ، سماجی بھلائی کا کام کرنے والے پرجوش رہنما ، عوامی لیڈر اور بے داغ شخصیت کے مالک تھے اس لئے مخالفوں کی مخالفت کے باوجود جیت گئے۔
جب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تو ان دنوں آپ کو ایک ہزار (۱۰۰۰) روپے و ظیفہ ملتا تھا ۔ آپ اپنی تنخواہ کو اس طرح تقسیم کرتے تھے (۱)وہ طلباء جو ذہانت فطانت کے باوجود غربت کے سبب تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے انہیں ۴۰۰ روپے اسکالر شپ دیتے تھے(۲) تین سو روپے قرآن مجید کی اشاعت میں ’’تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی ‘‘کو دیا کرتے اور (۳) بقیہ تین سو روپے ذاتی خرچہ کے لئے رکھتے تھے ۔
شاہ صاحب اسمبلی کے ممبر تھے ان دنوں سندھ اسمبلی میں سند ھ یونیورسٹی کا بل پیش ہوا تو آپ نے بھر پور حمایت کی بالآخر بل پاس ہوا ۔
سندھ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کمیٹی کے سر گرم ممبر تھے۔
سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پہلے اعزازی سر براہ مقرر ہوئے ۔
آپ نے سندھ میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے بڑی جفاکشی کی، اسی جدوجہد کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ آپ نے اپنے احباب کے ساتھ تلک چاڑھی حیدرآباد پر ایک عظیم الشان تعلیمی ادارہ ’’جامعہ عربیہ ‘‘ قائم فرمایا۔ لیکن بد نصیبی سے آج وہ ہائی اسکول کی صورت میں قائم ہے۔
کسانوں کو حقوق دلانے مٰن کوشش فرماتے رہے ’’زرعی اصلاح کمیٹی ‘‘ کے ممبر بنائے گئے۔ شاہ صاحب نے سندھ میں تعلیم عام کرنے کیلئے ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس ‘ منعقد کی۔ حیدرآباد میں ’’عربی کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا۔
کراچی مین علکم دین کی اشاعت کیلئے دارالاشاعت اور دار الطباعت قائم کئے۔
ایک بار فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے شاہ صاحب کو گاڑی کی پرمنٹ بھجوائی۔ آپ نے اپنے سیکریٹری کو کہا : ایوب خان کو پر مٹ واپس بھجوادو اور لکھ دو کہ اللہ تعالیٰ نے چلنے پھرنے کی طاقت دی ہے جب تک یہ طاقت جسم میں ہے گاڑی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ گاڑی کو فروخت کرکے وہ رقم دارالامان کے یتیم بچوں میں بانٹ دی جائے۔‘‘
شاہ صاحب دینی سماجی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود اللہ رب العالمین کی بندگی سے کبھی غافل ہ رہے ۔ عبادت ریاضت سے دلی لگائو تھا۔ شرعیت مطہرہ کے پابند، نماز پنجگانہ و روزہ کے سخت پابند اور شب بیدار عابد تھے ۔ ایک بار میہڑ کی جامع مسجد میں چالیس روز کے چلہ میںبیٹھے۔ میہڑ میں بڑی عقیدت و محبت و مقبولیت رکھتے تھے۔ عقیدت مندوں نے چالیسواں دن گن رکھا تھا کہ شاہ صاحب کا چلہ پورا ہوگا جا کر ان کی زیارت کریں گے، دعائیں منگوائیں گے اور پانے دکھ سکھ بیاں کریں گے۔ چالیسویں دن شاہ صٓحب کو معلوم ہوا کہ مسجد شریف کے دروازے پر لوگوں کا جم غفیر استقبال کیلئے جمع ہوگیا ہے تو اس درویش بے نفس کو لگوں کا یہ انداز پسند نہ آیا آپ نے فرمایا : ’’عبادت اپنے لئے ی تھی اور لوگوں سے مبارکباد وصول کرنے کیلئے نہیں کی تھی۔‘‘
اس لئے اس بے ریا شخصیت نے دوبارہ چالیس روز کے چلہ کی نیت کرلی۔ سبحان اللہ! (مشاہیر دادو) آج کے دور میں نیکی کی خوب نمائش کی جارہی ہے ، حج سے واپسی پر جلوس کی صورت مٰں خانقاہ پر جلوہ افروز ہونا رسم بن گئی ہے، بری بڑی گاڑیوں میں بیٹھنا پیروں کا امتیازی نشان بنتا جارہا ہے۔ ایسے عالم میں حضرت شاہ صاحب کی سیرت مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے عقلمند روشنی لیتے رہیں گے۔
پردہ عورت:
محمد حیسن پہنور نے علامہ آئی آئی قاضی (سابق وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جامشورو) کی پشت پناہی پر ’’اسلامی پردہ‘‘ کے خلاف احتجاج کیا اور ’’مسلم عورت‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔
حضرت علامہ الحاج مفتی کواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ الاقدس نے مسلم عورت کی رد شدید میں کتاب لا جواب ’’فصل الخطاب فی لزوم الستر والحجاب المعروف پردہ عورت‘‘ ۱۹۴۷ء میں تحریر فرمائی۔ پردہ عورت پر حضرت مولانا سید علی اکبر شاہ صاحب نے زور دار تقریظ رقم فرمائی جس میں محمد حسین پہنور کو رجوع اور ’’پردۂ عورت‘‘ میں شرعی تحقیقات جو درج ہیں انہیں قبول کرنے کا مشورہ دیا ۔ (پردہ عورت ص۴)
تلامذہ:
درج ذیل حضرات آپ کے نامور شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں:
٭ نامور ادیب غلام محمد گرامی میہڑ
٭ حاجی غلام حیدر شیخ ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر لاڑکانہ
وصال:
مولانا علی اکبر شاہ صاحب کی شیخصیت ہمہ گیر شخصیت تھی۔ وہ عالم دین ، فقیر درویش، جادو بیاں خطیب، سراپا محبت، سادگی کے پیکر ، انسان دوست ، غریب پرور ، شب بیدار ، مجسمہ اخلاق و اخلاص، عوامی لیڈر، سماجی رہنما، مدبر، سیاستدان، مبلغ، متوکل، متقی، سخی، سلف صالحین کا نمونہ اور عشق رسول ﷺ سے لبریز سینہ رکھتے تھے۔
۲۲ جون ۱۹۶۹ئ/۱۳۸۹ھ کو انتقال کیا مزار شریف جامع مسجد شریف (میہڑ) کے احاطہ میں مرجع اہل درد ہے۔ مولانا سید کاظم علی شاہ (مرحوم ) صوبائی خطیب محکمہ اوقاف سندھ نے نماز جنازہ کی اقتداء کے فرائض انجام دیئے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)