حضر ت مولانا سید علی محمد شاہ ( دائرہ والے)
حضر ت مولانا سید علی محمد شاہ ( دائرہ والے) (تذکرہ / سوانح)
سید علی حمد شاہ ، مٹیار ی کے سادات میں سے ہیں ، علم و عرفان کے اندر بڑا بلند مقام رکھنے والے ہوئے ہیں۔ سندھ کے معروف علمی مرکز دائرہ کی درسگاہ کے سجادہ نشینوں میں آپ کا شمار ہوتے ہے ۔
آباء واجداد :
سادات مٹیاری میں سے عیسیٰ شاہ کی اولاد میں ’’حمزہ شاہ بنوری نقشبندی ‘‘بزرگ ہوئے ہیں ان کے آپ پڑپوتے اور ’’سید نیک محمد شاہ ‘‘کے فرزند ہیں ۔ چونکہ آپ کے والد اور دادا، دائری شریف ( موجودہ اڈیرو ، تحصیل ہالا ، ضلع حیدرآباد ) کے رہنے والے تھے اور دائرہ کی مشہوردرسگاہ سے ان کا اور ان کے دیگر اہل علم عزیز واوقاب کا تعلق رہا ہے ، اس لئے یہ لوگ دائرائی سید کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں ۔
آپ کی ولادت ہالا کے ایک گاوٗں اڈیرو ( سابقہ دائری شریف ) میں ۵، رجب المرجب ۱۲۲۶ھ؍۱۸۱۱ء کو ہوئی ، آپ کی والدہ دائرہ کی درسگاہ کے بانی و سجادہ نشین سید یار محمد شاہ ( م۱۲۲۰ھ) کی زوجہ کی بہن تھیں ۔ اس طرح سید علی محمد شاہ ، سید یار محمد شاکی اہلیہ کے بھانجے ہوئے ۔
تعلیم :
آپ کی ابتدائی تعلیم ’’دائرہ کی درسگاہ ‘‘ میں اس وقت کے منتظیم قاری حافظ میاں دوست محمد ھیئی ‘‘ کی زیر نگرانی ہوئی ، آپ نے اپنی ذہانت اور خدا داد صلاحیت کے باعث نو سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا ۔ اس زمانہ میں ’’مٹیاری ‘‘بڑے بڑے علماء اور فقہاء کا مرکز بنا ہوا تھا اور اعلیٰ اساتذہ کی زیر نگرانی اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے کے لئے مٹیاری میں سندھ کے معروف و مشہور عالم، علامہ مخدوم عبدالکریم کے مدرسہ میں داخلہ لے لیا اور یہاں کے دونوں بند پایہ علماء یعنی مخدوم عبدالکریم اور مخدوم محمد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے علوم کی تکمیل کی۔ اس زمانہ میں یہ دونوں ’’عالم ‘‘اپنے وقت کے امام شمار کئے جاتے تھے ، اور فقہی مسائل میں ان کی تحریروں کو عصر علماء کی نگاہ میں بڑی وقعت اور قدر حاصل تھی ، حتی کے ان دونوں حضرات کو ’’ مخدوم ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ بہر حال ان دونوں کامل اساتذہ کے علاوہ دیگر اپنے فن کے ماہر علماء اور اساتذہ مثلا مخدوم ابراہیم و لہاری ، حاٖفظ مسعود چوٹیا روی اور مخدوم میون محمد سے بھی آپ نے اکتساب علم کیا ۔
درسگاہ دائرہ کی خدمت :
گیارہویں صدی کے اواخر میں ’’صدر جھیجی گاوٗں ‘‘ (موجودہ اوڈیر لال) میں قرآن پاک کی حفظ و ناظرہ اور تجوید و قراٗت کی تعلیم کے لئے ایک مکتب کا قیام عمل میں آیا ، جو بعد میں سندھ کی عظیم الشان درسگاہ کی صورت اختیار کر گیا ، تقریبا ایک سو سال تک ابتدائی قرآنی تعلیم پورے زور شور سے جاری رہی ، اس کی کامیابی کے بعد قرآن و حدیث کی اعلیٰ تعلیم طلبا ء کو ’’حلقہ ‘‘ اور دائرہ بنا کر دی جانے لگی تو یہ درسگاہ دائرہ والی درسگاہ کے نام سے یہ گاوٗں دائرہ شریف کے نام سے اور اس کے اساتذہ دائرے والے اساتذہ کے نام سے مشہور ہوگئے ۔
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی تحقیق کے مطابق اس درسگاہ کی بحیثیت قرآنی مکتب کے سب سے پہلے بنیاد سید محمد ہاشم ( ثالث ) کے والد سید مسعود ( ثانی ) نے گیارہویں صدی ہجری کے اواخر میں رکھی ( کیوں کہ سید محمد ہاشم کا انتقال ۱۱۰۸ھ میں ہوا تھا ) اور تقریبا ایک سو سال کے بعد ’’دائرہ ‘‘کی شکل میں اعلیٰ تعلیم کا آغاز کر کے اس درسگاہ کو عظیم ذائرہ والی درسگاہ جس نے بنایا وہ سید محمد ہاشم کے صاحبزادے سید مسعود عرف سید معصوم ( م۱۱۸۲ھ)ہیں یہی وجہ ہے کہ جس ذات کو سب سے پہلے ’’صاحب دائرہ ‘‘ کا لقب ملا او ر جو اس نام سے مشہور ہوا وہ سید مسعود عرف سید معصوم ہی کی ذات تھی ، سید محمد معصوم کے بعد اس درسگاہ کی جانشیبی کی سعادت سید شاہ محمد کو اور ان کے بعد سید یار محمد کو حاصل ہوئی ۔ اور سید یار محمد کے اس درسگاہ کی صدارت و سر پرستی اور سجادہ نشینی کی مسند پندرہ سال تک خالی رہی ، جب سید مخدوم علی محمد شاہ کا زمانہ آیا تو ان کی ذہانت اور علمیت سے متاثر ہو کر ان کے ابتدائی استاد قاری دوست محمد نے اپنے اس ذہین شاگر د سید علی محمد شاہ کو اس منصب پر متمکن کرنے ککی کوشش شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ مٹیاری کے بر گزیدہ عالم اور سید علی محمد شاہ کے استاد مخدوم محمد اکرم نے ا س تجویز کی بھر پور تائید کی اور اپنے ہاتھوں سے ان کو یہ منصب تفویض کر دیا۔
سید علی محمد شاہ نے ایک متبحر عالم ، ایک شفیق استاد اور ایک مد بر منتظم کی حیثیت سے ا س درسگاہ کو سنبھالا ، ابتدائی حفظ و قراٗت کی تعلیم کے معیار کو بلند کر نے کے علاوہ اعلیٰ عربی او ر دینی تعلیم کے خود تدریسی فرائض انجام دے کر اس کو بام عروج پر پہنچا دیا ۔ بیرونی طلباء کی رہائش کے لئے ایک عظیم الشان ہاسٹل تعمیر کرایا ، لنگر خانے کا وسیع انتظام کیا، پانی کے مستقل انتظام کے لئے کنواں کھدوایا ، طلباء کو اور بھی و افر مقدار میں سہولتیں مہیا کیں ، جا سے باعث اس وقت طلباء کی تعداد دو سو تک تجاویز کر گئی ، الغرض سید علی محمد شاہ کی تدریس و تعلیم ، انتظام و انصرام کا یہ سلسلہ تقریبا ۱۲۴۵ھ میںشروع ہوا اور ان کی زندگی کے پینتیس سالوں تک جاری رہا۔ اور ہزار ہا طلباء نے اکتساب فیض کیا۔
بیعت و ارشاد :
علم شریعت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سید علی محمد شاہ نے اپنے وقت کے ایک سر ہندی اور نقشبندی بزرگ حضرت حاجی عبدالرحمن سر ہندی سے بیعت ہو کر علم طریقت کی تکمیل بھی کی اور اس فن میں بھی کمال حاصل کیا ، یہی وجہ ہے کہ علوم ظاہری پر آپ کی تصانیف کے ساتھ ساتھ علوم باطن پر بھی آپ کی تصانیف ملتی ہیں چنانچہ فارسی زبان میں آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک کتاب ’’ ذکر کی تلقین کے طریقے ‘‘ کے نام سے میاں غلام بنی شاہ کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔
آپ کے زہد واتقا ء اور ورع و تقویٰ اور روحانی مرتبہ و مقام کے باعث آپ کے دوست احباب اور عزیز و اقارب آپ کے نام لینے کو بے ادبی تصور کرتے تھے اس لئے وہ آپ کو ’’ سائیں وڈو ‘‘ یعنی بڑے حضور کے لقب سے پکارا کرتے تھے ۔
علمی خدمات :
آپ کی شہور اور بلند پایہ علمی تصانیف آپ کی فصاحت او ر علمیت کا منہ بولتا ثبوت اور سندھ کی علمی تاریخ کا ایک عظیم سرمایہ ہیں ۔ جو تصانیف معلوم ہو سکیں ان کے نام یہ ہیں ۔
۱۔ مصلح المفتاح (سندھی ) : شیخ فتح محمد بن شیخ عیسیٰ عبداللہ نے ’’مفتاح الصلوۃ‘‘کے نام سے فارسی (نثر ) میں نماز اور طہارت کے مسائل پر ایک کتاب لکھی تھی جو سندھ میں بڑی مقبول ہوئی اور مدارس میں پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی، فارسی زبان سے نا آشنا سندھی زبان جاننے والوں کی سہولت کی خاطر سید علی محمد شاہ نے اس کتاب کا عام فہم اور سہل انداز میں سندھی نظم کے اندر ترجمہ کا ارادہ کیا اور اس کام کا آغاز ۲۲، جمادی الثانی ۱۲۷۰ھ؍ ۱۸۵۴ء میں کر کے سات سال کی محنت شاقہ کے بعد ۲۵ ، ربیع الثانی ۱۲۷۷ھ کو اس کتاب کا سندھی میں منظوم ترجمہ ’’مصلح المفتاح ‘‘ کے نام سے مکمل کیا، جو بعد میں ’’دائرہ والی سندھی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس کے سندھی کے چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ۔
جھرو لفظ الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہ ان میں مثالا
تہ تنھن چجاناں بی صلوات نہ چبئی ناتہ نہ چجندو و سلسلو اصلا
یعنی اگر کوئی حضور بنی ﷺ پر صلوۃ وسلام بھیجنے کے لئے الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو پھر اسے کسی اور صلوۃ کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی سلسلہ اصل سے منقطع ہو گا، اسی باب میں آگے حضور کے نام لینے کا ادب بیان کرتے ہیں ۔
ئر ذاتی نالبی بنی حرف ندا جو چوں آھی حراما ذاتی آھن بہ نالا اسانھجی نبی تی ھک محمد بیواحمد ا ای اسان کی آگاہی ادب سکاریو منجھ سندھس کلام کریما لا تجعلو دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاء ء ئں ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثر ھم لا یعقلون ان بنھی آیتن م اسن کی ای میع مولی عی کی بسبان سیکارن ادبا محبوب کریم جو ان ئر مرتبو متانھتون کیو آگا آگی احسانا تان بی جی کتی نالو نبی جو ھو ندوندا سین منجھ کنھن دعا کہ کنھن ذکرا
یعنی حضور ﷺ کے ان دو ذاتی ناموں یعنی محمد اور احمد پر حر ف ندا سے پکارنا بے ادبی کی وجہ سے حرام ہے ، کیوں کہ قرآن پاک کی ان دو آیتوں لا تجعلو ا دعاء الرسو ل بینکم الایہ ( النور : ۶۳) اور ان الذین ینا دونک الا یہ ( الحجرات :۴) میں اللہ تعالیٰ نے ادب سکھایا ہے اور محبوب کریم کا نام بڑا مرتبہ والا بنایا ہے ۔ لہذا خواہ ذکر دہو یا دعا ہر جگہ حضور کا صفاتی نام لے کر پکارا جائے گا ۔
۲۔ مختصر مصلح المفتاح ( سندھی ) :مصلح المفتاح جیسی مفصل اور طویل کتاب لکھنے کے بعد سید علی محمد شاہ کو خیال آیا کہ ایک ایسی مختصر کتاب مرتب کر نی چاہئے جس میں اخلافی مسائل تحقیقی ابحاث ، کتابوں کے حوالہ جات اقوال ائمہ میں ترجیحات وغیرہ نہ ہو ں بلکہ صرف نفس مسائل مسائل کا ذکر ہو تاکہ عام قاری کے لئے مسئلہ معلوم کرنے میں کوئی دشواری نہ رہے ، چنانچہ اس خیال سے آپ نے ربیع ۱۲۷۷ھ کے بعد سے کام شروع کر دیا، مختصر مصلح المفتاح کے نام سے کتاب سندھی زبان میں مرتب فرمائی ، جو بعد میں ( دائری واری نندی سندی) دائرہ والی چھوٹی سندھی کے نام سے مشہور ہوئی ۔
۳۔ مرغ کی اذان کی فضیلت ( سندھی ) : آدھی رات اور فجر کے وقت مرغ کی اذان کی فضیلت پر ااپ نے ایک رسالہ فرمایا۔ یہ رسالہ مصلح المفتاح سے پہلے تحریر کیا گیا ہے کیوں کہ مصلح المفتاح کے ’’پاٹ بانگ خروس ‘‘ میں آپ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
۴۔ بیاض سیدی ( عربی اور فارسی ) : مختلف شریع مسائل کو عربی او ر فارسی زبان میں مختلف فقہی ابواب کے تحت مرتب فرمایا ہے اور اپنے نام کی مناسبت سے اس کو بیاض سیدی کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ اس بیاض کی ا بتداء کتاب العلم سے کی ہے ۔ بہت سے مسائل میں مستند کتابوں کے حوالے اور مشہور علماء کے اقوال سے اقتباسات نقل کرنے کے بعد پھر اپنی رائے ذکر کی ہے۔
اس بیاض میں ۱۲۶۵ھ سے پہلے اور بعد کی تحریریں موجود ہیں ۔ مصنف نے اس میں متقدمین کے ماخذ کے ذکر کے علاوہ سندھ کے مشہو ر علماء مثلا مخدوم رحمت اللہ ٹھٹوی ، مخدوم محمد ہاشم ، مخدوم عبدالواحد سیو ستانی ، مخدوم عبدالرحیم ، مخدوم عبدالکریم مٹیاروی ، مخدوم محمد عارف اور مخدوم محمد صادق کے اقوال اور ان کی تحریر وں کے حوالے بھی نقل کئے ہیں ۔
۵۔ زبدۃ الموالید ( عربی ) : سید علی محمد شاہ نے حضور سر ورکائنات ﷺ کی ولادت اور آپ کی سیرت کے متعلق عربی میں یہ کتاب ۹، ربیع الثانی ۱۲۸۱ھ میں تصنیف فرمائی ہے ۔ اس کتاب کی ابتداء میں حمد و صلوۃ کے بعد اس کے موضوع ، عنوان اور اس کی افادیت وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
الحمد للہ الذی اسس نبا ء العالمین علی النور المحمد ی ووضع بناء الکانینن الواء ہم باطھار النور الا حمدی و الصلوۃ والسلام علیٰ خیر العالمین و عرو سھم محمد الہ الطیبین و اصحابہ الطاہرین اما بعد !فیقول من لا احقر منہ ای السید علی محمد بن نیک محمد تجاوز اللہ تعالیٰ عن سیاتھما و غفر ذنوبھما، ان ھذہ رسالۃ فی ذکر مولود نبینا و حبیبنا سیدنا محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم علی الہ و محبہ وسلم اما ظھرمن العجائب فی ابتداء خلقتہ و مولدہ و سیرتہ صلوتہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم قد جمعتھا من الکتب المعتبرۃ کالشمائل المحمدیہ و خیار الموالید وکماثبت بالسنۃ للدھلوی وغیر ھایسر عند ذکر ماجمعت فیھا کل مومن محب مطبع ویز داد فرحہ ان شاء اللہ تعالیٰ ویفضح کل من کان فی قلبہ مرض و عنادنور اللہ تعالی قلبی و قلوب المومنین المحبین بمحبتہ و صحبتہ محبوبہ علیہ الصلوۃ والسلام وھو حسبی و نعم الوکیل ونعم النصیر وما ینبغی ان یعلم ان ھذہ الرسالۃ یقرء بطریق الخطبۃ فی الا عراس نحو العرس لمولد النبی ﷺ فی شھر ربیع الاول و کالو لیمۃ للتز ویج او للختان وال قدوم و نحوھا مما فیہ السرور لکن بعض عبارتھا لا یقرء فی الخطبۃ و علامتھا الخط الا حمر فوقھا و سمیتھا بزبدۃ الموالید ۔
اس رسالہ کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :
تمت ھذہ النسحۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی تسع شھر ربیع الثانی بعد الاف وماتین واحدی وثمانین ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا تبہ مصنفہ۔
وفات :
آپ نے ۹ ، محرم الحرام ۱۲۸۷ھ کو جمعرات کے دن بوقت عصر اس جہاں فانی سے رحلت فرمائی ۔
آپ کے دوست قاضی عبدالقوی نے ااپ کی وفات پر یہ تاریخی قطعہ کہا ہے ۔
زہے سیدے عالمے فاضلے
ولی خدا نیک بخت است
بعلم و عمل خلق را ہنموں
بتقویٰ سردست بدعت شکست
بہ حج و زیارت مشرف شدہ
خدا یش بحق بنی یا و رست
بہ تدریس حفظ کلام کریم
زبردست بودہ است مالاش دست
بہ رضوان جنت شدہ ہم نشین
جو رخت سفر سوء عقبیٰ بہ بست
زمن نام سال وصالش شنو
’’علی محمد شھے حق پرست‘‘
۱۲۸۷ھ
[ماخوذ: سندھ کے صوفیائے نقشبند]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)