حضرت کامل مولانا سید امیر علوی اجمیری قدس سرہ العزیز
حضرت کامل مولانا سید امیر علوی اجمیری قدس سرہ العزیز (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا سید امیر علوی اجمیری بن حافظ غلام رسول قدس سرہما چچھڑ شریف ضلع سر گودھا میں پیدا ہوئے۔چونکہ وصال کے وقت آپ کی عمر تقریباً ۹۷سال تھی اس لئے غالب گمان ہے کہ ااپ کی ولادت ۱۲۹۰ھ/۱۸۷۳ء میںہوئی ہوگی۔
سات سال کی عمر میں ایک مجذوب نے ملتان جانے کا اشارہ کیا ، چنانچہ رات کی تاریکی میں خاموشی سے ملتان رواہ ہو گئے اور گھوٹہ ضلع ملتان میں ایک بزرگ حضر ت مولانا حافظ جمال الدین قدس سر ہ کی خدمت میں رہ کر کئی سال تک صرف ونحو کی تکمیل کی اور استاذ گرامی سے امام النحو کا لقب حاصل کیا۔
کچھ عرصہ گھر رہنے کے بعد پھر ملتان شریف چلے گئے اور غوث عالم حضرت خواجہ بہاء الدین زکریا قدس سرہ کے مزار اقدس پر با قاعد گی سے حاضری دیتے رہے۔یہ معمول بارہ سال تک جاری رہا۔ اسی اثنا م یں ایک نابینا متبحر عالم سے ملاقات ہو گئی ۔انہوں نے کہا کہ ااپ میرے بیٹے کے نحو کی ایک کتاب پرھا دیں ، میں آپ کو فلاں کتاب پڑھو دونگا ، پھر انہی کے ایماء پر اجمیر شریف حاضرع ہوکر مدرسہ معینیہ میں مولانا علامہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ تعالیٰ سے علوم دینہ کی تکمیل کی اور اسی مدرسہ میں مدس مقرر ہوگئے۔
ایک سال بعد جذبۂ محبت الٰہیہ کی فراوان کی بناء پر تمام مصروفیات سے دستبردار ہ رکر خواجگان حضر خواجہ معین الدین اجمیری رضی اللہ تعالیٰ کی درگاہ اقدس میں گوشہ نشین ہو گئے ۔ ۳۵ سال تک یہ معمول رہا کہ خواجہ کی چوکھٹ پر نگاہ جمائے مختصر سے جحر ے میں بیٹھے رہتے اور حضرت خواجہ کے انوار و برکات سے بہر ہور ہوتے رہتے تھے۔سلسلۂ طریقت میںامام العارفین حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ کے مرید تھے۔
آپ کے تلامذہ میں سے یہ حضرات بڑے قابل ذکر ہیں :۔
۱۔ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ تعالیٰ بافی دار العلوم مظہر السلام لائل پور
۲۔ حضرت محقق علامہ مولانا سید غلام جیلانی مدظلہ العالی صدر المدرسین مدرسہ ٍٍاسلامیہ میر ٹھ (بھارت)
حضرت مولانا سید امیر اجمیری قدس سرہ نے تبلیغ اسلام،اصلاح عقائد اور بد مذہبوں کے رد میں متدد رسائل تالیف فرمائے بعض کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
۱۔ بیعت مشائخ
۲۔ اہلاک الوہابین
۳۔ کشف الفتاع عن و جہ السماع
۴۔ رسالۂ نور
۵۔ ما ہ حق نما
۶۔ مسئلۂ وحدۃ الوجود و الشہود
۷۔سماع موتٰی
۸۔ آداب زیارت (قبور)
۹۔ارشاد الحق
۱۰۔ رسالۂ حاضر وناظر
۱۱۔ کلمۃ الحق
۱۲۔ کشف الحجاب عن مسئلۃ ایصال الثواب
وغیرہ وغیرہ
قیام پاکستان کیھ بع آپ حرمی ن شریفین کی زیات کے لئے چلے گئے اور واپسی پر چچھڑ شریف میں قیام پذیر ہوگئے۔آپ نے تین مسجدیں تعمیر کرائیں اور خوشاب میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔
حکیم اہل سنت مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ راوی ہیں کہ غالباً جنوری ۱۹۶۲ء کو خبر ملی کہ حضرت مولانا بعارضۂ فالج بیمار ہیں ، نومبر ۱۹۶۲ء کو اچانک میرے پاس تشریف لے آئے ، غور سے دیکھنے کے با وجود جسم کے کسی حصہ پر فالج کا اثر نظر نہ آیا البتہ زبانی گفتگو کی بجائے اشاروں سے بات چیت کر رہے تھے ۔کاغذ اور قلم پیش کیا لیکن گرفت بالکل صحیح ہونے کے باوجود ایک لفظ بھی نہ لکھ سکے ۔ میں نے ( حکیم صاحب زید مجدہ نے ) پوچھا کہ حضرت کسی وقت کوئی لفظ زبان سے ادا ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟تو آپ نے بغیر کسی لکنت صاف طور پڑھا :
’’الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسولاللہ
وسلم علیک یا حبیب اللہ‘‘
گویا اللہ تعالیٰ نے ان ی زبان کو اپنے اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کے لئے مختص فرمادیا تا ورنہ اگر مرض ہوتا تو دنیاوی باتوں ی طرح درود شریف کی ادائیگی پر بھی قدرت نہ ہوتی ، اور یہ حالت آخری دم تک رہی۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی مجلس میں بیٹھ کر خدایا آتا ہے اور سکون قلب نصیب ہوتا ہے ۔
۴شعبان المعظم ، ۶ اکتوبر ( ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ئ) بروز منگل نماز ظہر کے بعد نفل پڑھتے ہی سفر آخرت فرمایا ۔ مر کزی مجلس رضا لاہور کے سر پرست مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ نے تاریخ وصال کہی:
’’ شمع ہدیٰ خموش ہے[1] ‘‘۹ ، ۵ ۱۳
[1] محمد موسیٰ امر تسری ،حکیم اہل سنت : مولانا سید امری علوی اجمیر ی ماہنامہ ضیائے حرم (جولائی ۱۹۷۲ء ،ص ۳۷۔۷۳
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)