مولانا سید چراغ شاہ ابن سید محمد شاہ موضع بو کن مضافات گجرات میں ایک غریب سید گھرانے میں ۱۲۳۸ھ/۱۸۲۲ء کے الگ بھگ پیدا ہوئے ۔اوائل عمر میں حضرت با با جنگو شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ( جن کا مزار مبارک موضع طہور کھو کھر المعروف ڈیرہ با با جنگو شاہ مٰن مرجع خاص و عام ہے،) کے ارشاد پر سیالکوٹ چلے گئے اور استاذ الا ساتزہ مولانا غلام[1]
اقبال کے استاذ علامہ میر حسن منشی محمد دین فوق کے نام ایک مکتوب لکھتے ہیں ۔ میری طفولیت کے زمانہ میں یہاں دو رس گاہیں تھیں ایک مسجد کبو تراں والی میں جس میں مولوی غلام مرتضیٰ صاحب جو نہایت پرسا ، قانع ،صابر ،فرشتہ شیرت و صورت بزرگ تھے،، درس دیا کرتے تھے ایسے بزرگان نہ اخلاق کا (کوئی اور ) آدمی دیکھا ۔‘‘ (نقوش مکاتیب نمبر ، جلد دوم ،ص ۸۰۵ ( ۱۹۵۷ء)
۳۔ مولانا جان محمد لاہوری کی ایک تقریر ، وغیر وغیرہ
معاصرین میں سے حضرت مولانا قاضی سلطان محمود ، مولانا غلام حسن سا ہو والہ ،مولانا غلام حسین سا ہو والہ اور ادیب یگانہ علامہ محمد حسن فیضی ساکن بھین( ضلع جہلم) کے ساتھ آپ کے گہرے مخلصا نہ روابط تھے۔
۱۳۰۴ھ /۱۸۸۴ء میں آپ کا وصال ہوا ، مولانا محمد حسن فیضی نے عربی میں اور مولاناغلام حسن نے فارسی میں طویل اور پرُ درد مرثیے کہے ۔ مولانا غلام حسین نے موصوف کے نام مبارک چراغ شاہ کی مناسبت سے ’’ بے اوجہانے بے چراغ‘‘ (۱۳۰۴ھ/۱۸۸۴ء ) تاریخ وصال کہی ، تاریخی شعر درج ذیل ہے ؎
نوک کلکم زدر قم ’’ بے اوجہانے بے چراغ‘‘
پس ‘‘ لیرضی الحق عنہ ‘‘ نیز تاریخش شمار
آپ کے پانچ صاحبزادے تھے جن میں سے مولانا حافظ سید عبد اللہ شاہ ، مولانا سید نور اللہ شاہ سیالکوٹی اور حکیم ظہور اللہ شاہ اپنے دور کے ممتاز فاضل تھے [2]
[1]
[2] یہ تمام حالات مکرمی سید نورمحمد قادری مدظلہ، مؤلف ‘‘ اعلیٰ حضرت کی سیاسی بیصرت‘‘ اور اعلیٰ حضرت کی شاعری پر ایک نظر ‘‘ نے فراہم کئے ہیں ۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)