مولانا سید غلام محمد شاہ ’’گدا
مولانا سید غلام محمد شاہ ’’گدا (تذکرہ / سوانح)
مولانا سید غلام محمد شاہ صاحب صحیح النسب حسینی سید تھے، آ پ کا سلسلہ نسب آٹھویں امام سید نا موسیٰ رضا سے ملتا ہے، اس لئے آپ کا خاندان ’’رضوی سادات ‘‘ کہلاتا ہے۔ آپ نصر پور (حیدر آباد) کے مشہورصوفی شاعر و بزرگ حضرت سید مصری شاہ نصر پوری اور حضرت شاہ عنایت رضوی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شاہ صاحب کے پڑدا دا حضرت مولانا سید بچل شاہ ایک کامل ولی اللہ ، عالم فاضل اور صاحب دل انسان تھے اور کئی لوگ آپ سے دست بیعت تھے۔ سید غلام محمد شاہ ۱۲۵۳؍ ۱۸۲۶ء میں میر نصیر خان ٹالپر کے عہد حکمرانی میں حیدرآباد شہر میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی ۔ فارسی حیدرآباد کے چیرانی آخوند سے حاصل کی ان دنوں آپ کے ہم درس نامور شاعر محمد بخش واصف کے استاد آخوند حاجی فقیر محمد عاجز تھے۔ اس کے علاوہ اپنے جد کریم حضرت علامہ سید محمد بچل شاہ و دیگر مشاہیر علماء سے تعلیم و تر بیت حاصل کی۔ ایک روایت کے مطابق فخر اہل سنت حضرت علامہ مولانا سید اسد اللہ شاہ فدا ٹکھڑ والے سے بھی استفادہ کیا۔
بیعت:
شاہ صاحب سلسلہ قادریہ میں اپنے پر دادا شیخ طریقت حضرت سید بچل شاہ سے بیعت تھے۔ نیز پردادا صاحب کی تربیت و صحبت بافیض میں جوان ہوئے ۔
سفر حرمیں شریفین :
شاہ صاحب نے دوبار حج کی سعادت حاصل کی ۔ ایک بارلسبیلہ کے حاکم جام حاجی میرخان کی رفاقت میں حج ادا کیااور مدینہ منورہ میں روضہ شریف کی حاضری کا شرف حاصل کیا، سر کار مدینہ ﷺ کی مزار شریف کی سنہری جالیوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر صلوۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ دوسری بار ہنر ہائینس میر حسن علی خان ٹالپر کے صاحبزادے حاجی میر نور محمد خان ( رحلت ۱۹۲۷ء بمقام کر بلا ) کے ساتھ حج کیا۔
میر نور محمد خان نہایت متقی پر ہیز گار صوم و صلوۃ کے پابند شخص تھے اور پرہیز گاری۹ کا یہ عالم تھا کہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے ، لباس تبدیل کر کے نماز ادا کرتے تھے۔
زیارات مزارات مقدسہ:
شاہ صاحب نے سندھ، ہند، عراق، ایران اور عربساتان کی مزارات مقدسہ کی زیارت کا سفر اختیار کیا۔ نجف اشرف، کربلامعلیٰ،مشہد شریف کاظمین شریفین اور بغداد شریف میں سرکار غوث اعظم ، محبوب سبحانی، قطب ربانی ، غوث الثقلین محی الدین سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ اور سرکار امام اعظم سید التابعین عارف باللہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہٗ کی مزارات مقدسہ پر حاضری دی۔ کابل(افغانستان) بھی پروگرام میں تھا لیکن جانا نہ ہوا۔
عادات و خصائل:
شاہ صاحب مخلص، مومن ، عاشق رسول ﷺ ، اہل بیت عظام، صحابہ کرام اور سرکار غوث اعظم کے نہایت عقیدتمند اور مخلص غلام تھے۔ نماز روزہ کے سخت پابند ، حلال روزی کے فکرمند، عالم باعمل، سادگی پسند، سخی مہمان نواز، بااخلاق، پر خلوص، چہرہ حسین وجمیل، خندہ پیشانی، سر پر ہمیشہ سبز عمامہ اور چادر کندھوں پر رکھتے تھے اور داڑھی شریف سنت کے مطابق تھی۔
شاعری:
شاہ صاحب ہمعصر شعراء میں ممتاز تھے، میر عبدالحسین سانگی نے شاہ صاحبکو ’’افضل الشعرائ‘‘ کا خطاب دیا۔ سندھی فارسی اور اردو کے بلدن پایہ شاعر تھے، غزل کے بادشاہ شاعر تھے۔ حمد ، نعت، غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، منقبلت وغیرہ ہر صنف میں شاعری کرکے اپنا لوہا منوایا۔
شاہ صاحب کے کلام یں بے شمار خوبیاں ہیں۔ تشبیہ، استعارا، تخیل، زبان کی صفائی، محاورہ کا صحیح استعمال اور صانع و بدایع تو آپ کا خاصہ ہے۔ بلکہ آپ میں ، قادر الکلامی، پختگی، خیالات میں بلندی اور طبیعت کی اعلیٰ فکری موجود ہے۔ اگرچہ آپ اعلیٰ علم و فکر کے صاحب تھے اس کے باجود دیگر شعراء کی طرح کبھی مغلق گوئی سے کام نہیں لیاہے۔ شروع سے آخر تک سادگی اور سلاست کو برقرار رکھا، برجستگی اور روانی قائم رہی۔ آپ کی طعیت آورد سے خالی اور آمد سے بھر پور تھی۔ شاعری میں آپ نے تخلص ’’گدا‘‘کو اپنایا۔
کلام کا نمونہ پیش خدمت ہے:
فارسی:
بحق محمد نبی الانام
علیہ الصلوٰۃ و علیہ السلام
بحق ابابکر والاھمم
بحق امیر عمر ذوالکرم
بہ اعزاز عثمان عالی وقار
بہ اکرام حیدر شہ ذوالفقار
بحق حسین و بحق حسن
بود زیر حکمش زمین و زمن
سندھی
ای ’’گدا‘‘ بادشاہ محی الدین
سپ ولین جی آہ سر جو چٹ
غوث الاعظم جناب جیلانی
آہ مرشد سندم شہ بغداد
’’مخمس در شان رسول بر تضمین قدسی‘‘
اردو
ختم ہے تجھ پہ نبوت اے شہ مطلبی
تیرے محتاج ہیں شاہ و گدا شیخ و نبی
ہے مجھے تیری ثنا سے ہی صفائے قلبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدائیت چہ عجب خوش لقبی
سیدا مجھ کو تیری ذات مقدس کی قسم
واسطے تیرے بنے ارض و سما لوح و قلم
نور تیرے سے منور ہوئے دونو عالم
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ چہ جمالست بدیں بو العجبی
ذات اطہر سے شفا خواہ ہمہ پیرونبی
ہے شفاعت کی ضیا جسم مطہر پہ پھبن
مثل قدسیؔ کے ہے کہنا یہ گداؔ تشنہ لبی
سیدی انت حبیبی و طیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسی پئے درماں طلبی
(کلیات گدا ص ۳۳۵)
شادی و اولاد:
آپ نے اپنے خاندان میں شادی کی، ان کے بطن سے دو بیٹے تولد ہوئے۔ ایک نے شادی کی اور صاحب اولاد ہوکر انتقال کیا اور دوسرے نے جوانی میں انتقال کیا۔ ان زخموں نے شاہ صاحب کو صدموں سے دوچار کیا۔ لیکن آپ نے بڑی ہمت سے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔
تلامذہ
حضرت سید غلام محمد گدا استاد الشعراء تھے بہت سارے سندھی اور فارسی کے شعراء آپ سے شرف تلمیذ رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
۱۔ میر عبدالحسین ’’سانگی‘‘ ٹالپر
۲۔ محمد ہاشم ’’مخلص‘‘ ٹکھڑ
وصال:
مولانا حاجی سید غلام محدم شاہ گدا نے ۴، ذوالقعدہ ۱۳۲۲ھ بمطابق ۱۱، جنوری ۱۹۰۵ء کو حیدرآباد سندھ میں ۶۸ سال کی عمر میں انتقال کیا اور ٹنڈو آغا کے قبرستان (حیدرآباد) میں مزار واقع ہے۔
(ماخوذ ا: کلیات گدا، مرتبہ :رشید احمد لاشاری مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ ۱۹۵۷ئ، بشکریہ ڈاکٹر غلام محمد لاکھو صاحب)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )