مولانا سید حامد شاہ راشدی
مولانا سید حامد شاہ راشدی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا پیر سید محمد حامد شاہ راشدی علیہ الرحمۃ فقیر راقم کے جد کریم حاجی الحرمین شریفین، زائر بغداد شریف حضر تپیر سید غلام قادر شاہ راشدی علی اللہ مقامہ فی الجنۃ (رحلت ۱۹۸۷ئ) کے عم محترم شیخ مکرم اور سسر عظیم تھے۔
مولانا حامد شاہ اہل سنت و جماعت کے جید عالم، مدرس ، مصنف، عامل کامل، شیخ طریقت اور حاذق حکیم تھے۔ صدری روایت کے مطابق درگاہ پیر شیر جیلانی علیہ الرحمۃ(متصل لاڑکانہ سندھ) کے مغرب کی جانب لب مہران ایک گوٹھ ’’عثمان شاہ‘‘ کے نام سے غالباً آپ کے دادا جان نے درگاہ پیر جو گوٹھ (بالمقابل شگر مل متصل نودیرو) سے منتقل ہو کر آباد کیا تھا۔ وہیں پیدا ہوئے اور وقت کے مشاہیر علماء سے تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے اور گوٹھ سنہری (متصل لاڑکانہ) کے مولانا حافظ محمد کامل کے مدرسہ میں کافی عرسہ تدریس سے وابستہ رہے۔
جتوئی ، دہامرہ ارو مہیسر قوموں کے ئی گوٹھ آپ سے شرف بیعت رکھتے تھے۔ اولاد میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد عثمان تولد ہوئے۔ بری صاحبزادی عابدہ، زاہدہ، قائم اللیل و صٓئم الدہر تھیں، انتہائی سادگی پسند تھی، زندگی میںکبھی نہ رنگین کپڑااستعمال کیا اور نہ ریشمی، پوری زندگی میں سوتی اور سفید کپڑا زیب تن کیا۔ حضرت قبلہ عالم سرکار مشوری قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھیں اور مکتوبات کے ذریعے سلوک طے کرکے روحانیت کے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ مجرد تھیں، گھر کا کام کاج اور اللہ تعالیٰ کی بندگی دونوں کاموں سے مشغول رہیں۔ فقیر راقم زین العابدین نے انہیں کی گو د میں پرورش پائی۔
آپ کی دوسری صاحبزادی فقیر راقم کے دادا جان کی دوسری اہلیہ تھیں، جس کے بطن سے ہمارے چچا عثمان شاہ اور پھوپھی تولد ہوئی تھیں۔ میری پھوپھی کی شادی میرے ماموں سید سکندر علی راشدی بن مرحوم سید شمس العارفین راشدی ساکن نودیرو سے ہوئی۔ پہلی اہلیہ سے میرے والد محترم سید محمد اشرف علی شاہ اکلوتے فرزند ہیں۔
مولانا حامد شاہ کی اولاد میں بڑی صاحبزادی مجرد تھیں، ایک بیٹا سید محمد عثمان شاہ تولد ہوا ، سنہڑی کے مدرسہ سے فراغت پائی ، والد ماجد کی طرح عالم فاضل و کامل تھے، لیکن شادی سے پہلے عالم شباب میں ۱۹۴۰ء میں انتقال کرگئے، اس طرح حامد شاہ کی ایک بیٹی سے اولاد ہوئی، جس کے ذریعے نسل در نسل جاری و ساری ہے۔
حاجی روشن علی سرہیہ کی روایت کے مطابق ’’سائیں حامد شاہ مولانا محمد کامل دایوسنہڑی والے کے شاگرد تھے اور انہی کے مدرسہ میں مدرس تھے۔ عالم باعمل ، مدرس باکمال، پیر کامل، مصنف اورحاذق حکیم تھے۔ ان کی والدہ بیمار تھیں بہت علاج معالجہ کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا آخر تنگ آگئے ایک روز کسی کے مشورے پر سائیں شاہ صاحب سے علاج کروایا تو والدہ جلد صحتیاب ہو گئیں‘‘
فقیر راشدی جب سن شعور کو پہنچا تو دادا جان کے گھر حویلی میں تین پیٹیاں لکڑی کی تھیں جن کی لمبائی پانچ ، چھ فٹ ہوگی وہ حضرت مولانا پیر سید حامد شاہ کے ذخیرہ کتب سے بھری ہوئی تھیں۔ لیکن افسوس دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ساری کتب ضائع ہوگئیں۔ ان میں نادر و نایاب قلمی کتابیں بھی تھیں ار حضرت کی اپنی ذاتی تصانیف بھی تھیں۔ فقیر کے والد صاحب سید محمد اشرف علی شاہ راشدی کی روایت کے مطابق حضرت حامد شاہ اور ان کے جوان سال بیٹے کی (دونوں کی) قبریں ایک ساتھ درگاہ پیر جو گوٹھ (نوڈیرو) میں اپنے خاندان کے قبرستان میں واقع ہیں اور وہیں فقیر کے دادا جان ، میری نانی جان، میرے بھائی محمد شاہ و دیگر اہل خانہ کے مزارات واقع ہیں۔
بقول سید اختر شاہ راشدی کہ حضرت سید حامد شاہ نے ۱۹۳۳ئ/۱۳۵۲ھ کو انتقال کیا۔
فقیر راقم اپنے بچپن میں دادا جان کے ساتھ مریدین کی دعوت پر جایا کرت اتھا جیسے ہی ان لوگوں کو اطلاع ملتی، سراپا انتظار بن جاتے، آمد پر پورے گوٹھ میں خوشی کی لہر دوڑا ٓتی، کنویں کے کنارے بڑی وسیع و طویل بیٹھک میں ہجوم جمع ہوجاتا ، پلنگ بچھائے جاتے، بستر سجائے جاتے ، دستر خوان لگائے جاتے ، چھوٹے بڑے سبھی بیٹھک میں مل کر بیٹھ جاتے (ان دنوں پورے گوٹھ کی ایک ہی اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی) نمازیں جماعت کے ساتھ ادا ہوتیں، رات دیر تک صحبتیں جاری رہتیں، بزرگوں کی باتیں ہوتیں، نصیحت آموز تلقین ہوتی، ذکر کی ضربیں لگتی اور درود سلام کا نذرانہ پیش ہوتا۔ نہ گھر گھر ٹی وی کی وبا تھی، نہ ہی باہم دست گریباں تھے بلکہ ہر طرف محبت ، مروت، ایثار ، در گزر اور بردباری کے جذبہ کا مظاہرہ ہوتا تھا۔
آج ان تمام برکتوں سے فقط وہ گوٹھ نہی بلکہ پورا معاشرہ شہر ہو چاہے دیہات یکسر خالی ہوگیا ہے کیوں کہ ٹی وی آگیا ہے گھر گھر نجی سینما گھر بن گیا ہے۔ ٹی وی کی وبا عام ہونے کے سبب ٹی بی کے مرض مہلک جیسا گھٹن سا ماحول عام ہوگیا ہے۔ ٹی وی نے ہمارے باطن کو چاٹ لی اہے اسلئے سکون و چین کی دولت سے ہم محروم ہوگئے ہیں اب ڈپریشن ہی ڈپریشن ہے۔
حضرت دادا جان اکثر فرمایا کرتے کہ (۱) مریدین کو ذریعہ معاش نہیں بنانا چاہئے (۲) مریدن کی رشتہ داری کے مسئلہ میں نہیں پڑنا چاہئے اپنے مسائل وہ خود حل کریں (۳) مریدین کے ہاں بار بار چکر نہیں لگانا چاہئے بلکہ وقت مقررہ پر سال میں ایک بار اس کیلئے بھی پیشگی اطلاع دینا چاہئے (۴) جتنے دن مریدن کے پاس ہوتے ہر نماز جماعت کی خود امامت فرماتے اس طرح حاضرین باجماعت نماز ادا کرتے اور اس کی برکت سے بے نمازی بھی نمازی بن جاتے۔
میرا بچپن دادا جان کی آغوش میں گزرا اور اپنی اولاد اور پوتوں میں سب سے مجھے زیادہ چاہتے تھے بلکہ میرے بغیر تو کھانا بھی تناول نہیں فرماتے تھے اسی طرح آپ بھی حضرت حامد شاہ کے لاڈلے تھے، آپ کے ان کے ساتھ تین رشتے تھے آپ کی تعلیمات میں آپ کے شیخ کا عکس نظر آتا تھا۔
دادا جان ۱۹۵۰ء میں کسی دوست کے مشورے پر ’’عثمان شاہ گوٹھ‘‘کے مکانات کسانوں کے سپرد کرکے زمینیں و باغات فروخت کرکے لاڑکانہ شہر میں مکانات خرید کر رہائش اختیار کی اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ اور اسی سن میں حج بیت اللہ بھی کیا۔
دادا جان حضرت غلام قادر شاہ نے ۱۹۵۰ء میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری دی لیکن سب سے پہلے بغداد شریف سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہٗ کے مزار مقدس پر حاضری دی اوراس وقت کے سجادہ نشین حضرت سید عبدالرحمن جیلانی کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت بھی ہوئی۔
لاڑکانہ کے قیام کے دوران حضر ت سرکار مشوری علیہ الرحمۃ کی صحبت اختیار کی۔ مشوری شریف اکثر حاضری دیا کرتے تھے ارو حضرت کے مواعظہ حسنہ سے مستفیض ہوتے تھے ارو اپنے مریدین میں یعنی کوٹ لال بخش مہیسر (تحصیل میرو خان) میں حضرت قبلہ کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کروایاتھا تاکہ اصلاح عقائد و اعمال ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین پر رحمت کی بارش برسائے۔ جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے حضور پر نور ﷺ کا پڑوس نصیب فرمائے ۔ آمین
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)