مولانا سید خالد میاں فاخری
مولانا سید خالد میاں فاخری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا قاضی محمد خالد میا ں فاخری بن حضرت مولانا محمد فاخر ’’ بیخود‘‘ خانقاہ اجملی دائرہ شاہ اجمل الہ آباد (بھارت ) میں ۵، جولائی ۱۹۲۷ء کو تولد ہوئے ۔ شجرہ کے مطابق حضرت شیخ محمد افضل الہ آبادی ؒ (متوفی ۱۱۲۴ھ)جو کہ عمررسول حضرت سید نا عباس کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کی نسل میں ایک خاتون سائرہ بی بی کی شادی جماب سید علی اضا سے ہوئی جو ظاہر ہے کہ سید تھے۔ اور سید صاحب مولانا فاخری کے جداعلی تھے ۔ ( بروایت سید شجاع فاخری )
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم کا آغاز گھر سے کیا، اس کے بعد مدرسہ نظامیہ (فرنگی محل لکھنو ) میں تعلیم حاصل کی ، یہاں مولانا جمال میاں فرنگی محلی (کراچی ) اور مولانا خالد انصاری فرنگی محلی آپ کے ہم درس ( کلاس فیلو) رہے ازاں بعد استاد العلماء حضرت مولانا عبدالکافی کی قائم کردہ مشہور دینی درسگاہ مدرسہ سبحانیہ الہ آباد سے مزید تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔
بیعت و خلافت :
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ ابوالعلائی میں اپنے والد گرامی قدر حضرت مولا نا الحاج سید محمد شاہد فاخری سے دست بیعت ، صاحب مجاز اور ان کے بعد سجادہ نشین مقرر ہوئے ۔
آ پ خود لکھتے ہیں کہ ۱۹۶۱ء کو آپ کے والد نے خانقاہ کے تمام تبرکات آپ کے حوالے کردیئے ۔
(تذکار اولیا ء ص۵۸)
حضدرت مولانا خوب اللہ محمدی ؒ آپ کے دادا جان کے برادر اصغر تھے۔ انہوں نے ستمبر ۱۹۵۶ء کو آپ کا ہاتھ پکڑ کر خوب خوب دعا فرمائی ۔ بعد ازاں سلاسل چشتیہ ، قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ ،صفویہ، اشرفیہ،علیمیہ اور مداریہ کی اجازت تام عطا فرمائی ، مجازومازون فرمایا۔ (تذکاراولیاء ص۶۴)
قاضی الہ آباد :
۱۹۵۷ء کو آپ کو یوپی حکومت نے قاضی شہروضلع الہ آ باد مقرر کیا۔ (تذکاراولیاء ص۵۴)
پاکستان آمد :
خالد میاں اپنے متعلق خود لکھتے ہیں : ’’۱۹۶۳ء کو حادثاتی طور پر مشرقی پاکستان آگیا تھا ۔ کچھ دنوں پار بتی پور قیام کے بعد چاٹگام پہنچا اور پھر وہیں سکونت اختیار کر لی ۔ ہفت روزہ پیام مشرق چاٹگام سے بحیثیت ایڈیٹر متعلق رہا ۔ فیروز شاہ ہائی اسکول میں ’’ہیڈ مولوی ‘‘ کی حیثیت سے تدریسی فرائض بھی انجام دیئے اور پھر چاٹگام پورٹ ٹرسٹ کو ’’فرہاد ‘‘ کی جگہ پہاڑیوں سے پتھر توڑ کر فراہم کرتا رہا اور آخر میں ’’چٹا گانگ شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کار پوریشن ‘‘کی معرفت پان اسلامک اسٹیم شپ کمپنی کے جہازوں کو اس کی ضروریات بہم پہنچاتا رہا لیکن ہر حال میں دینی خدمات انجام دینے کا شوق دل میں موج زن رہا۔
۱۵،جنوری ۱۹۷۱ء کو بغرض حاضری بارگاہ نبوی سعودی عرب ( حجاز مقدس ) روانہ ہوا۔ وہاں سے ۲۱، اپریل کو کراچی پہنچا تو حاجی کیمپ میں کموڈور اظہر حسین صاحب ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ سے معلو ن ہوا کہ میرا مکان جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے ۔ وہ سر کاری ضرورت کے تحت چاٹگام ( بنگا ل) تشریف لے گئے تھے ۔ خدا بھلا کرے ڈپٹی ڈائر یکٹر و چیف سرویئر ایم آئی قدوائی صاحب کا جنہوں نے مجھے چاتگام پہنچے میں کافی مدد پہنچائی۔
یکم مئی کو تگام پہنچ کر کرنل ولایت علی صاحب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے تعاون سے سولہ دن کی تلاش بسیار کے بعد بچوں کا پتہ چلا اور کچھ دنوں بعد سب کو لے کر میں کراچی (پاکستان ) پہنچ گیا‘‘۔ (تذکاراولیاء )
درس و تدریس :
الہ آباد میں گورنمنٹ انڈیا کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے اس کے ساتھ مادرعلمی مدرسہ سبحانیہ میں درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔
اکتوبر ۱۹۸۹ء کو دارالعلوم قادریہ المرکز قادری حسن اسکوائر گلشن اقبال کراچی میں بحیثیت مدرس کے ان کا تقررہوا۔ ( عین القادر اکتوبر ۱۹۹۰ئ)
جماعت صوفیاء کا قیام :
صوجیائے کرام کے ایک اجتماع میں ’’جماعت صوفیاء اہل سنت پاکستان ‘‘ کا قیام عمل میں آیا ۔ صدر الاصفیاء جناب حکیم صوفی فضل احمد چشتی الحسینی ( چشتی بابا) سجادہ نشین خانقاہ چشتیہ کراچی کو صدر اور مولانا خالد میاں کو ناظم اعلی منتخب کر لیا گیا۔ اس اجلاس میں مولانا پیر محمد ہاشم جان سر ہندی ، اسرار احمد متولی درگاہ اجمیر شریف ، مخدوم زادہ صدرالدین ، عبدالرحمن عتیقی ، ضیاء الدین احمد جمالی ۔ظفر حسین نقوی وغیرہ نے شرکت فرمائی ۔ (تزکااولیائ)
امامت و خطابت :
الہ آباد میں امامت و خطابت سے وابستہ ہوں گے ۔ چاٹگام (بنگلہ دیش ) میں جامع مسجد وائر لیس کالونی میںخطیب رہے تو ان دنوں جناب عبدالحفیظ خان صاحب ٹی ۔ کے اسٹنٹ کلکڑکسٹمز چاٹکام ( حال حیدرآباد ) کے تعاون سے مدرسہ شرعیہ اشرفیہ کی تعمیر کی۔ اسی درمیان ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں بھی میر پور نمبر ۱۰ کی جامع مسجد میں مدرسہ شرعیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا جو بنگلہ دیش کے قیام کے وقت تک تھا ۔ ‘‘(تذکاراولیائ)
کراچی میں مسجد بدر ( پیپر مارکیٹ، حسن علی آفندی روڈ لائٹ ہاوٗس ) میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے ۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے بھی مسلسل تقریریں کی ۔ کراچی میں محافل میلاد شریف ، جلسہ گیارہویں شریف اور دیگر بزرگان دین کے اعراس کے مواقعہ پر آپ کا خطاب خصوصی ہوا کرتا تھا ۔
سفر حرمین شریفین :
پہلی بار غالبا ۱۹۷۱ء کو حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا اور اس کے بعد ہر سال عمرہ شریف کرنے جاتے تھے ۔
تصنیف و تالیف :
مولانا خالد میاں ، صاحب تصنیف و تالیف تھے ۔ ان کی درج ذیل کتب سے متعلق آگاہی ہوئی :
۱۔سیرت طیبہ ایک نظر میں
۲۔ترجمہ مآ ثر الکلام مصنف : میر غلام علی آزاد بلگرامی مطبوعہ دائرۃالمصنفین کراچی ۱۹۸۳ء
۳۔تاریخ لغت گوئی تدریجی ارتقا ء اور انتخاب ۔ مرتبہ : شمس بریلوی و خالد میاں فاخری
۴۔ تذکاراولیاء ۔ (فاخری سلسلہ کے بزرگوں کا تذکرہ )مطبوعہ اسکائی لائن پرنٹنگ پریس حسین علی آفندی روڈ کراچی غالبا۱۹۷۶ء
۵۔اصطلاحات تصوف مطبوعہ دائرۃالمصنفین کیپیٹل ایریا کراچی سن ندارد
خانقاہ اجملی پر محفل میلاد کا انعقاد:
آپ کے جدا مجد حضرت مولانا سید محمد فاخر بیخود ؔ علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۹۳۰ئ) نے خانقاہ اجملی دائرہ شاہ اجمل الہ آباد میں یکم ربیع الاول سے بارہ تاریخ تک روزانہ محافل عید میلاد النبی ﷺ کی بنیاد ڈالی جو تقریبا ۶۸ سال سے برابر منعقد ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے صرف بارہویں تاریخ کو ایک دن کی محفل ہوتی تھی۔ خالد میاں اپنی موجودگی میں سارے فرائض انجام دیتے تھے بعض اعزہ کی ریشہ دوانی اور چیرہ دستیوں کے سبب غریب الوطنی کی زندگی اختیار کی۔ (تذکار اولیاء ص۶۰)
وصال:
مولانا الحاج قاضی سید محمد خالد میں فاخری نے ۲ جمادی الآخر ۱۴۱۹ھ بمطابق ۱۲ ستمبر ۱۹۹۸ء ۶۱ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ سخی حسن قبرستان (نارتھ ناظم آباد کراچی) میں مزار واقع ہے۔
[خالد میں کے بیٹے شجاع فاخری (فیڈرل کیپیٹل ایریا ، کراچی) نے اپنے والد کے انتہائی مختصر اور نامکمل حالات فراہم کئے جس سے مضمون مرتب کرنے میں کافی دشواری کا سامنا تھا ، لیکن خدا بھلا کرے محترم شہریار قدوسی صاحب کا کہ انہوں نے خالد میاں کی تصنیف و تالیف کے مطالعہ کا موقعہ فراہم کیا جس کے باعث مضمون تیار کرنے میں کافی آسانی رہی۔ فقیر نہایت مشکور ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)