نازش تقویٰ مولانا سید مبشر علی رضوی بہیڑی
نازش تقویٰ مولانا سید مبشر علی رضوی بہیڑی (تذکرہ / سوانح)
مقیم قصبہ بھیڑی شیخو پور ضلع بریلی شریف
ولادت
حضرت مولانا سید مبشر علی محسن رضوی بن سید اختر علی قصبہ بہیڑی کے محلہ شیخو پورہ بریلی شریف میں ۴؍اگست ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے۔
حسب ونسب
آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے سید مبشر علی رضوی بن سید اختر علی بن سید قمر علی بن سید منور علی بن سید انور علی بن سید عبدالرسول بن سید محمد صالح بن سید مراد بن سید علی بن سید عبداللہ بن سید عبدالمعانی بن سید احمد بن سید جعفر بن سید عبدالعزیز، بن سید احمد ثانی بن سید کریم اللہ بن سید بو علی بن سید بو لاقی بن سید ابو الفرح بن سید محمود بن سید احمد بن سید ابو الفرح خوارزمی بن سید عبداللہ بن سید جمال اللہ بن سید ہدایت اللہ بن سید محمد سبزواری بن سید موسیٰ مرقع بن سید امام محمد تقی بن سید امام علی موسیٰ رضا بن سید امام موسیٰ کاظم بن سیدنا موسیٰ کاظم بن سیدنا امام جعفر صادق بن سیدنا امام محمد باقر بن سیدنا امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہید کربلا بن سیدنا امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
خاندانی حالات
مولانا سید مبشر علی کے نانا سید مظفر حسنین تھے جو مونڈ یا جاگیر تحصیل بہڑی ضلع بریلی کے رہنے والے تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب مادری سید محمد نفس زکییہ سے جا ملتا ہے۔ سید محمد کی کنیت عبداللہ اور لقب نفس زکیہ تھا اور وہ بیٹے تھے حضرت سید عبداللہ شیخ القرۃ کے اور وہ بیٹے حضرت سید حسن مثنی کے اور وہ بیٹے حضرت سیدنا امام حسن کے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
تعلیم وتربیت
مولانا سید مبشر علی کے گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ لہٰذا مذہبی دینی ماحول میں پرورش پائی فارسی اپنے عم مکرم سید محمد صفدر علی سے پڑھی ۱۹۲۸ء میں اردو مڈل پاس کیا۔ ۱۹۲۹ء میں ہندی مدلپاس کیا۔ آپ ایک مدت تک گورمنٹ اسکول میں معلم رہے۔ پھر ۱۹۵۰ء میں اسکول کی ملازمت سے استعفیٰ دیدیا۔
خدمات دینیہ
مولانا سید مبشر علی رضوی کو کتابوں کا مطالعہ اور ان کو جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مخصوص لائبریری میں تقریباً پندرہ سو کتب عربی فارسی اور اردو کی موجود ہیں۔ مولانا نے لائبریری کی کتابوں کا بار بار مطالعہ کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ بعض کتابوں پر حاشیہ بھی لکھا مولانا سید مبشر علی کو تصنیف و تالیف سے بھی خوب دلچسپی ہے۔ قلمی خدمات کی تعداد تقریباً چالیس کتب ہیں۔ جو غیر مطبوعہ ہیں ان میں سے صرف شجرۂ نسبی وخلفائی مطبوعہ ہے۔
مولانا سید مبشر علی کے مضامین اکثر الفقیہہ امر تسر، ماہنامہ کا شانہ، صابری کلیر شریف ماہنامہ نوری کرن بریلی اور ماہنامہ رضائے مصطفیٰ بہیڑی میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ۱۹۵۵ء سے تادم تحریر اپنے ہی محلہ کی جامع مسجد میں خطابت وامامت کے فرائض ان جام دے رہے ہیں۔
بیعت وخلافت
مولانا سید مبشر علی نے ۱۹۲۳ء میں الحاج الشاہ محمد بشیر میاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت حاصل کی اور خلافت واجازت سے بھی نوازے گئے۔ ۱۰؍جمادی الآخر ۱۳۹۳ھ؍۱۳؍اگست ۱۹۷۳ء کو مفتئ اعظم قدس سرہٗ نے اجازت عطا فرمائی۔
نمونۂ کلام
مولانا سید مبشر علی نے محسن تخلص اختیار کیا، چند اشعار ملاحظہ ہوں؎
سر پہ نبی کے عشق کا سودا لیے ہوئے
میں بھر رہا ہوں حسرت بطحا لیے ہوئے
غارِ حرا سے وہ آئے اقراء لیے ہوئے
بخشش کی عاصیوں کا قبالہ لیے ہوئے
صدیق ان کے نور سے صدیق ہوگئے
فاروق نور کا ہیں صحیفہ لیے ہوئے
عثمان پر ضیائے جمال محمدی
حیدر اُنہیں کے نور کا آلہ لیے ہوئے
زہرہ کلی ہیں جس کی اور حسنین پھول
ہیں سارے اہلیت نور کا تحفہ لیے ہوئے
کیوں تاریکی قبر کا محسنؔ کو خوف ہو
آئیں گے وہ من رانی کا جلوہ لیے ہوئے
منقبت کے اشعار:۔
مری بگڑی بنادو شاہ جیلاں
قضا کا آگیا پیغام یاغوث
لگادیں ایک ٹھوکر سلطنت کو
ترے در کے جو ہیں خدام یاغوث
سرہانے اپنے محسن کے تم آنا
جب آئے موت کا پیغام یاغوث
[1]