فاضل یگانہ مولانا سید محمد محسن شاہ بخاری
فاضل یگانہ مولانا سید محمد محسن شاہ بخاری (تذکرہ / سوانح)
اوچ شریف ( ضلع بہاولپور) کے بخاری سادات کے نامور بزرگ حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری قدس سرہ ( جو کہ سہروردیہ سلسلہ میں شیخ الاسلام حضرت غوث بہاوٗ الدین زکریا ملتانی قدس سرہ الاقدس کے خلیفہ اجل تھے) کے خاندان ذی شان میں فاضل یگانہ ، استاد العلماء ، حضرت مولانا سید محمد محسن شاہ بخاری پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء واجداد اوچ شریف سے مٹھڑی ( بلوچستان ) منتقل ہوئے وہاں آپ کے خاندان کے بزرگوں کی مزارات میں حضرت سید عظمت شاہ کی مزار و خانقاہ مشہور ہے۔ مولانا محسن شاہ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ کی پرانی نصیر آباد ( نزد جھٹ پٹ بلوچستان ) میں مزار ہے۔ سید محمود شاہ کو دو بیٹے ہوئے( ۱) مولانا سید عبدالنبی شاہ (۲) مولانا سید محمد محسن شاہ ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد سید محمد محسن شاہ نے اپنے بڑے بھائی کے پاس کچھ عرصہ قیام کیا اس کے بعد علم کی تڑپ نے سفر کرنے پر مجبور کیا با لآخر آپ نے گھر کو خیر باد کہہ کر رخصت ہوئے اور پنجاب کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی۔
تعلیم و تربیت :
شیخ طریقت حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گیلانی ؒ کے مدرسہ گولڑہ شریف ( اسلام آباد) میں بھی زیر تعلیم رہے۔ اور سہارنپور ( انڈیا) میں غالبا مولانا احمد علی سہارنپوری کے مدرسہ میں دستار فضیلت باندھی ۔
تعلیم کا عرصہ ۱۴ سال بتایا جاتا ہے جس کے درمیان میں آپ کبھی گھر نہیں لوٹے ۔ اس سے آپ کے جذبہ حصول تعلیم کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے ۔ حصول تعلیم کے بعد ڈگھ ( بلوچستان ) میں اپنے بھائی کے پاس آئے وہیں سکونت اختیار کی اور تدریس کا آغاز کیا۔
شادی و اولاد :
میاں جو گوٹھ ( ضلع شکار پور ) میں دو سادات سید شاہ نواز شاہ اور سید نور محمد شاہ سکونت پذیر تھے جو کہ سلسلہ قادریہ میں جنید وقت حضرت حافظ محمد صدیق قادری ؒ درگاہ بھر چونڈی شریف کے دست اقدس پر بیعت تھے۔ سید نور محمد شاہ کے بیٹے سید قطب شاہ کی صاحبزادی سے مولانا محسن شاہ کا عقد ہوا۔ آپ کے یہاں دو بیٹے اور سات بیٹیاں تولد ہوئیں ۔
۱۔ سید غوث علی شاہ بخاری
۲۔ سید شوکت علی شاہ
درس و تدریس :
مولانا محسن شاہ کو حدیث ، تفسیر ، منطق اور فقہ میں مہارت حاصل تھی۔ ۱۹۔ ۱۹۲۰ء میں میاں جو گوٹھ کے مدرسہ کے متولی میاں آدم کے اصرار پر میاں جو گوٹھ میں درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف ۳۶ سال تھی ۔ ایک عرصہ کے بعد آپ نے میاں جو گوٹھ میں مسجد شریف ، مدرسہ اور گھر تعمیر کروایا ا س کے بعد اپنے مدرسہ میں تدریس کا کام کیا۔
ایک بار حضرت حافظ محمد صدیق قادری بھر چونڈی شریف والے ’’میاں جو گوٹھ ‘‘دعوت پر تشریف لائے تھے، جہاں آپ نے مسجد تعمیر کی اس سے یہاں قبل ریت کے ٹیلے تھے۔ ٹیلے پر بزرگ صاحب نے نماز پڑھی تھی اور بشارت دی تھی کہ عنقریب یہاں سے علم کا چرچہ ہو گا۔ آپ نے اللہ کے ولی کی اسی یاد گار پر مسجد و مدرسہ قائم کیا او ر برکتیں حاصل کی۔ آپ کی مہر پر یہ عبارت ’’خلق ایزدرا محمد محسن است ‘‘ کنندہ تھی ۔ ( شریعت سوانح ص۱۲۲)
آپ کا مسلک :
درگاہ بھر چونڈی شریف ( ڈھر کی سندھ ) کے مدرسہ کے مدرس مولانا سید مغفور القادری نے مشائخ بھر چونڈی شریف کے حالات پر مشتمل کتاب ’’عباد الرحمن ‘‘ لکھی تھی اس میں مولانا سید محسن شاہ کا مختصر تذکرہ درج ہے جس سے مولانا کی علمی و سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ مصنف رقمطراز ہیں :
’’سندھ میں اس تحریک کا مرکز زیادہ تر مولانا تاج محمود امروٹی کی مساعی سے قرار پایا۔ اس وقت دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء سے سندھ کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کرنا واجب اور ضروری مشتہر کیا۔ ہمارے حضرت شیخ الثانی ( حافظ عبداللہ قادری ) قدس سرہ نے سندھ کے مشہور اور معتبر علماء اور بیرون سندھ سے فتوے منگواکر خانقاہوں میں خوب نشر و اشاعت کی۔ سندھ کے لوگ جو عموما خانقاہوں اور مشائخ کرام سے وابستہ ہیں ۔ انہوں نے ا س فتویٰ کے تحت سندھ کو دارالحرب تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نقل مکانی کے نقصانات سے بچ گئے ، لیکن وہ لوگ جو علماء نا عاقبت اندیشوں کے دام عبامیں پھنس گئے ، بری طرح نقصان مایہ وشماتت ہمسایہ کا شکار ہوئے۔
اس زمانے میں سندھ کے چوٹی کے علماء میں سے مخدوم سید محسن علی شاہ صاحب ساکن پٹ میاں صاحب علاقہ شکار پور سندھ کا شمار ہوتا تھا بلاشبہ علمی دنیا میں آپ مخصوص مقام کے مالک تھے ، آپ کا لکھا ہوا فتویٰ بیعنہ موجود ہے جس میں آپ نے سندھ کو دارالاسلام قرار دیا۔ ( عباد الرحمن مطبوعہ لاہور)
٭ حضرت مولانا سید محمد محسن علی ہاشمی نے ۱۳۳۵ھ میں ایک استفتاء بزبان فارسی بریلی شریف ( انڈیا ) ارسال کیا جس کا جواب امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی نے عربی میں دیا جو کہ مطبوعہ فتاویٰ رضویہ میں محفوظ ہے اس کی نقل پیش کی جارہی ہے۔
مسئلہ :از مدرسہ اسلامیہ عربیہ ہمایون پوسٹ، پٹ میاں تعلقہ شکار پور ضلع سکھر مسئولہ محمد محسن علی ہاشمی مدرس اول ۸ شوال ۱۳۳۵ھ؍ ۱۹۱۷ء
چہ می فرما یند علما ء عظام درایں مسئلہ کہ مذبوح فوق العقدہ حلال ست یا حرام ؟بینو ا توجروا
الجواب : قال ﷺ الذکاۃ مابین اللبہ واللحین ولا شک ان مافوق العقدۃ مما یلیھا بین المحلین و کلام التحفہ والکافی وغیرھما بدل علی ان الحلق یستعمل فی العنق کما فی ابن عابدین فتحریر العلامہ عندی ما افادہ فی رد المحتار اذ قال والتحریر للمقام ان یقال ان کان بالذبح فوق العقدہ حصل قطع ثلاثہ من العروق فالحق ماقالہ شراح الھدایۃ تبعا للرستغفنی والا فالحق خلافہ اذا لم یو جد شرط الحل باتفاق اھل المذاھب ویظھر ذالک بالمشاھدہ او سوال اھل الخبر فاغتم ھذا المقال ودع عند الجدال ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ جلد ۸ ص ۳۲۰ )
٭ مولانا محمد قاسم اویسی یاسینی صاحب ایک مضمون میں حضرت مولانا سید محمد محسن علی شاہ کے صحیح العقیدہ سنی ہونے پر رقمطراز ہیں :
مولانا محسن علی شاہ ، مولانا مفتی محمد ابراہیم کی طرح ہمایونی یا بریلوی مکتبہ فکر کے عالم تھے۔ جس کا ثبوت اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں جب امروٹی مکتبہ فکر کے عقائد باطلہ کے خلاف ہمایون شریف میں منعقدہ کانفرنس میں ’’جمعیت الاحناف ‘‘ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کانفرنس میں دیگر علمائے اہلسنت کی طرح مولانا محسن علی شاہ نے بھی اول تا آخر تک گرم جوشی سے حصہ لیا۔ (الراشد ربیع الاخر ۱۳۹۹ھ)
ایک مسئلہ کی وضاحت :
۱۳۳۹ھ میں مولانا سید محسن علی شاہ اور مولانا مفتی محمد ابراہیم ناظم گڑھی یاسین کا آپس میں ذبح فوق العقدہ مسئلہ پر مناظر ہوا تھا۔
وہابیوں نے تحریری طور پر اس مناظرہ کو خوب اچھالا ہے۔ اس لئے اس مسئلہ کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ مذکورہ مناظرہ ؍ بحث مباحثہ عقائد پر نہیں تھا کیوں کہ دونوں کے عقیدے ایک تھے دونوں صحیح العقدہ سنی بلکہ اہل سنت و جماعت کے قابل فخر سر مایہ تھے۔ ( جیسا کہ دلائل سے ثابت کیا گیا ہے) بلکہ یہ مناظرہ ایک فقہی مسئلہ پر تھا نہ کہ ایمان و عقائد پر ۔ اس طرح بحث و مباحثہ علماء کرام کاآپس میں ہو تا رہتا ہے۔ ہر ایک عالم علم کے سمندر میں غوطہ زنی کرتا رہتا ہے اور ہر ایک اپنی خدا داد صلاحیت ، ذکاوت، بالغ نظری اور کھوج کے مطابق موتی پاتا ہے۔ جب تک یہ زمین قائم ہے اور علمائے کرام کے وجود مسعود سے سر سبز و شاداب ہے علمائے کرام اپنی تحقیقات علمیہ سے عوام الناس کو فیضیاب کرتے رہیں گے ۔ جیسا کہ فقیر راشدی نے اس کتاب کے مقدمہ مین تفصیل پیش کی ہے۔ جوصاحب ذوق اس مناظرہ کی تفصیل جاننا چاہتے ہوں وہ رسالہ ’’تمیز الحلال عن الحرام الدفع اوھام الجھال والعوام ‘‘ مطبوعہ رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ۱۳۴۰ھ؍ ۱۹۲۲ء اور مولانا محمد قاسم اویسی یاسینی کا مضمون ’’ذبح فوق العقدہ ‘‘ ( الراشد ربیع الاخر ۱۳۹۹ھ) کا مطالعہ فرمائیں ۔
تلامذہ:
آپ کے طلباء کی تعداد بقول شان بخاری تین صد ہیں ان میں بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔
٭ قاضی محمد بخش صاحب
٭ مولانا تاج محمد صاحب ( خان قلات کے استاد)
٭ مولانا عبدالرب شاہ صاحب مکران
٭ مولانا اشرف شاہ صاحب پیر پٹھ ضلع ٹھٹھہ
٭ مولانا الھداد لونی نزد سبی بلوچستان
٭ مولانا نور محمد کھوسہ بلوچ غالبا جوہی
٭ مولانا الہٰی بخش
٭ مولانا عبدالحی میاں جو گوٹھ
٭ مولانا یار محمد میاں جو گوٹھ
وصال :
مولانا سید محمد محسن علی شاہ نے ۲۵، صفر ۱۳۶۹ھ ( ۱۹۵۰ئ) میں انتقال کیا۔ مولانا مفتی محمد ابراہیم یاسینی نے تاریخ وفات کہی ۔
گفت بہر سال وصلش ہاشمی صاحب جمال
’’سید محسن علی در سایہ رحمان رسید‘‘
(ماہنامہ شریعت سوانح نمبر سندھی )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )