بلند پایہ واعظ اور بے مثل شاعر مولانا سید نور اللہ شاہ ابن مولانا سید چراغ شاہ ۱۲۸۰ھ؍۱۸۲۳ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔درس نظامی کی ابتدائی کتابیں مولانا میر حسن سیالکوٹی(استاذ علامہ اقبال) سے ،آخری کتابیں اپنے بڑے بھائی مولانا سید عبد اللہ شاہ سے پڑھیں۔آپ حضرت مولانا قاضی سلطان محمود (آوانی) قدس سرہ العزیز کے سفر و حضر کے ساتھی تھے۔جب حضرت قاضی صاحب بزرگان دین کے مزارات عالیہ کی زیارت کے لئے جاتے تو اکثر ااپ کو شرف معیت حاصل ہوتا تھا۔اور بقول نواب معشوق یار جنگ جب حضرت قاضی صاحب آخری دفعہ اپنے شیخ حضرت مولانا اخوند عبد الغفور قدس سرہ کے مزار شریف کی زیارت کے لئے سوات تشریف لے گئے تو مولانا سید نور اللہ شاہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
آپ فارسی زبان کے علامی مرتبہ شاعر تھے،آپ کے کلام سے قار الکلامی اور گہرے در دو سوز کا پتہ چلتا ہے،ایک نعتیہ مسدس (غیر مطبوع) کے چند بند ملاحظہ ہوں ؎
بدرد تو کہ من ازوبے بجانم
بعرض مدعا تر شد بجانم
چہ درداست اینکہ تد بیرش ندانم
بکن چاہ کہ تو مشکل کشائی
منہ بر سینہ ام سنگ جدائی
کجائی یا رسول اللہ کجائی
گلستان دفار نو بہاری
بمیدان کرامت شہسواری
پئے محنت شعاراں غم گساری
شکسۃ خاطران رامو میائی
منہ بر سینہ ام سنگ جدائی!
کجائی یا رسول اللہ کجائی
زلیخائے صبا چوں جستجو کرد
قبائے یوسف گل مشکبو کرد
لب اندر مرحبائش سوبسو کرد
ہمہ این است لطف مصطفائی
من بر سینہ ام سنگ جدائی
کجائی یا رسول اللہ کجائی
آپ نے حضرت شاہ دولہ دریائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت قاضی سلطان محمود (آوانی) قدس سرہ کی تعریف میں متعدد گراں قدر فارسی قصائد لکھے ہیں، ذیل میں حضرت قاضی سلطان محمود آدانی قدس سرہ کی شان میںایک قصیدہ مدحیہ کے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں جن کا ہر ہر مصر عہ قابل داد ہے:۔
روز گارے شد کہ وارم در دل زار و حزیں
آرزوے مدحت شاہنشہ شنیا ودیں
قاضی سلطان محمود آنکہ نام میش
نیک زد بر روئے دلہا سکہ چوںنقش نگیں
در دریائے حقیقت،اختر برج شرف
شاہباز اوج عرفاں افتخار عارفیں
جرعہ از جام محبت ریز،درکام دلم
تا ازیں دنیائے دوںپر در فشانم آستیں
مشکلیدارم کہ بر رائے منیش روشن است
پس چرا بیہودہ گوی آنچناں یا ایں چنیں
چشم دار د شاہ نور اللہ زخوان فیض تو
ان اصحاب العطایایکر مون السائلین[1]
پنجابی میںشجرہ قادریہ غفور یہ نظم فرمایا جس کیدو بند ملاحظہ ہوں ؎
میں بھی قدم ولی دا پھٹیا
سنگ اصحاب کہف دے رلیا
دیکھ لوں ہنقسمت اڑیا
کد تک ہون ہمرایاں نی
پاک رسول محمد سرور خلقاں تارو کھایاں نی
عشق حقیقی والیاں رمزاں سیاںدلاںوچہ پایاںنی
نور اللہ ہیتیرا بردا
ہر دم وچہ ہجر دے مردا
لاہ دیدل دے اتوں پردا
کاہنوںمد تاں لایاں نی[2]
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
چاند روشن علم کا جاتا رہا
آپ کے اردو پنجابی اور فارسی قصائد اور شجرات کامجموعہ ’’چشمۂ نور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے رد شیعہ میںآپ کی ایک اہم کتاب تحفۂ شیعہ اندر پریس،سیالکوٹ سے شائع ہوئی تھی جس پر مولانا غلام حسین ساہو والہ (سیالکوٹ) کی منظوم تقریظ تھی۔چوہدری غلام غوث مصنف مثنوری صمدانی اور ن وا معشوق یار جنگ مولف مقامات محمود سے آپ گہرے مراسم تھے۔
ماہ جون (۱۳۲۷ھ؍۱۹۴۸ئ) میںآپ کا وصال ہوا اور پائین درگاہ حضرت امام علی الحق رحمہ اللہ تعالیٰ سیالکوٹ میں مدفون ہوئے[3]
[1] نور اللہ شاہ،مولانا سید: چشمۂ نور (مطبوعہ اسلامیہ سٹیمپریس لاہور) ص۹۔۱۵
[2] ایضاً: ص ۸۸۔۸۹
[3] مکتوب گرامی جناب سید نور محمد قادری مدظلہ ساکن چک ۱۵ شمالی ڈاک خانہ چک ۵ براستہ ملکوال،گجرات،بنام راقم الحروف ۔
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)