علمبردار اہلِ سنت مولانا سید ریاست علی قادری رضوی
علمبردار اہلِ سنت مولانا سید ریاست علی قادری رضوی (تذکرہ / سوانح)
بانی وصد ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی، پاکستان
ولادت
جاں نثار امام احمد رضا ناشر مسلکِ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا سید ریاست علی قادری رضوی بن سید واحد علی رضوی ۲۷؍جون ۱۹۳۲ء کو محلہ شاہ آباد بریلی شریف کے علمی خانوادے میں پیدا ہوئے اور والدین کریمین کے سایۂ عاطفت میں رہ کر پرورش پائی۔
خاندانی حالات
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے منظور نظر مرید و تلمیذ حضرت مولانا سید ایوب علی رضوی بریلوی مولانا سید ریاست علی کے نسبتی ہمشیر زادہ تھے۔ مولانا سید ایوب علی رضوی بن سید شجاعت علی بن سید تراب علی بن سید ببر علی بہاری پور بریلی میں پیدا ہوئے۔ مڈل اسکو میں مڈل کرنے کے بعد فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ اسلامیہ اسکول بریلی میں پڑھاتے رہے۔ پھر جب امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تو اپنے آپ کو بارگاہِ رضویت کے لیے وقف کردیا۔ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے رکن رکین رہے اور حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے ساتھ شدھی تحریک کے انسداد میں حصہ لیا، اور اس کی رپورٹیں ہفت روزہ اخبار دبدبۂ سکندری رامپور، ماہنامہ یادگار، رضا بریلی میں نکالتے رہے۔ ردو اد جماعت رضائے مصطفیٰ مولانا سید ایوب علی ہی ترتیب دیتے تھے۔ آپ نے شعر وشاعری سے بھی لگاؤ رکھا تھا، محرر اورمصنف تھے۔
۲۶؍رمضان المبارک ۱۳۹۰ھ؍ ۲۶؍نومبر ۱۹۷۰ء بروز جمعۃ الوداع نماز فجر سے قبل مولانا سید ایوب علی رضوی کا وصال ہوا، میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
مولانا سید ریاست علی قادری کے والد ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے بیعت تھے اور نہایت ہی متقی و پرہیز گار تھے۔ والدہ م اجدہ ابھی باحیات ہیں، وہ بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے بیعت ہیں (اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے)۔
سید الطاف علی بریلوی مولانا قادری کے ماموں تھے جن کا انتقال ۱۴۰۸ھ کو کراچی میں ہوا، سید الطاف علی بریلوی آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کے سکریٹری جنرل اور سہ ماہی ‘‘العلم’’ (کراچی) کےمدیر تھے۔ موصوف نے امام احمد رضا بریلوی کا زمانہ پایا اور ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ مسلکاً بریلوی نہیں تھے۔
تعلیم وتربیت اور پاکستان آمد
حضرت مولانا سید ریاست علی قادری نے قرآن کریم اردو کی تعلیم اپنے محلے ہی میں حاصل کی، اور اسلامیہ ہائی اسکول بریلی سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے فوراً بعد ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی ہجرت کر گئے۔ یہاں پر انٹر میڈیٹ اور بعد میں الیکٹرک ڈپلومہ انجنیئرنگ کیا۔ جرمن لینگوئج کورس فرام میونچ ویسٹ جرمنی گوتھے انستی ٹیوٹ کی تعلیم کراچی میں حاصل کی، بعدہٗ ٹیلے کمیونیکشین سرٹیفیکٹ فرام میونچ ویسٹ جرمنی میسر زسر مین اے۔ جی۔ مبذ ڈی۔ ڈی۔ دی کی ٹریننگ کی پاکستان تشریف لےجانے کے بعد مترجم کی حیثیت سے جرمنی سے انگیریز میں ٹرانسلیشن کا کام کیا۔ بعد میں محکمہ ٹیلی فون میں ملازمت اختیار کی اور ٹیلی فون سلیس ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت منیجر فرائض انجام دیئے۔
مولانا سید ریاست علی اردو، فارسی، عربی، انگلش جرمنی وغیرہ زبانوں پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ آپ چار سال کے لیے جرمنی بھی تشریف لے گئے اور وہاں پر جرمنی سے انگلش مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ عربی فارسی کی تعلیم ہندوستان وپاکستان کے جید علماء ومشائخ سے حاصل کی۔
مقالات اور مضامین
مولانا سید ریاست علی صحافی، مقرر، مضمون نگار، ادیب، مقالہ نگار، محقق اور مبصر ہونے کے ساتھ مسجد الحسین اسلام آباد (پاکستان) کے خطیب بھی ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین لکھنے کا شوق ہوگیا تھا اور اسی زمانے میں اپنے معاصرین میں کہنہ مشق ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ مندرجہ ذیل کانفرنس میں مندوب، مقرر اور مقالہ نگار کی حیثیت سے شرکت کی۔
۱۔ سیرت کانفرنس (منعقدہ ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۸ء) زیر اہتمام وزارت مذہبی امور پاکستان اسلام آباد
۲۔ شاہ عبد اللطیف بھائی کانفرنس کراچی
۳۔ اولیاء کانفرنس کراچی
۴۔ میلاد مصطفیٰ کانفرنس فیصل آباد
۵۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس ملتان
۶۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس حیدر آباد
۷۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس لاہور
۸۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس کراچی
۹۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس اسلام آباد
۱۰۔ میلادِ مصطفیٰ کانفرنس سکھر
۱۱۔ تصوف کانفرنس ٹھٹھہ
۱۲۔ تصوف کانفرنس کراچی
مولانا سید ریاست علی قادری ایک اچھے اہل قلم ہیں، سیر وصورت میں بھی شرع کے پابند ہیں، گارہے بگاہے مختلف عنوانات پر مضامنی لکھتے رہےت ہیں جو عوام وخواص میں خاصے مقبول ہیں۔ مندرجہ ذیل اخبار، رسائل اور جائد میں مستقل آپ کے مضامین اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔ مولانا قادری کے مضامنین و مقالات محققانہ اور معلوماتی ہوتے ہیں جن کے پڑھنے سے قاری کا ذہن یک بیک پلٹ جاتا ہے۔
ماہنامہ سنی دنیا بریلی، روزنامہ جنگ کراچی، مشرف کلکتہ، نوائے وقت کراچی، امن حریت اسلام آباد، نقوش لاہور، روحانی ڈائجسٹ، افق، تاجدارِ حرم کراچی، لاہور، نوائے نعت سالانہ معارف رضا کراچی، استقامت کانپور۔
مولانا ریاست علی کے مضامین و مقالات کی تین سو ۳۰۰ سے زائد ہے۔
انعامات وغیرہ
حضرت مولانا سید ریاست علی قادری نے آل پاکستان حمد ونعت مقابلہ زیر اہتمام حبیب بین لمیٹڈ کراچی منعقدہ ۱۹۸۴ء (تا)۱۹۸۸ء بحیثیت مصنف کے خدمات انجام دیں اور ریڈیو پاکستان کراچی، ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں مقرر کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہ کر خدمات انجام دیں۔
سیر کانفرنس ۱۹۸۷ء وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان اسلام آباد میں میڈل، شاہ لطیف بھائی کانفرنس ۱۹۸۶ء کراچی میں شیلڈ، اور اولیاء کانفرنس کراچی میں سند وغیرہ کے انعامات حاصل کیے اور تمغات سے نوازے گئے۔
تصانیف و مرتّبات
مولانا سید ریاست علی ذی علم، دانش مند، محقق، اور بلند پایہ مصنف بھی ہیں۔ آپ کی تصنیفی و ترتیبی کتابیں مندرجہ زیل ہیں جو خاص وعام میں مقبول ہیں۔ آپ نے مختلف کتابوں پر تقاریظ، پیش لفظ، مقدمے اور ادارے لکھے جو علمی دنیا میں س دا بہار کا درجہ رکھتی ہیں۔
۱۔ تحریک آزادی ہند مصنفہ پروفیسر حسنین کاظمی
۲۔ لوگار ثم (علم ریاضی کی ایک شاخ)
۳۔ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نازک لمحات کی میزان پر
۴۔ مفتئ اعظم ہند (سوانح حیات مولانا شاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی)
۵۔ امام احمد رضا کے نثری شہ پارے
۶۔ سالنامہ معارفِ رضا کراچی
۷۔ مجلہ سیرت وزارت مذہبی امور حکومتِ پاکستان اسلام آباد
۸۔ عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
اہم ذمہ داریاں
مولانا سید ریاست علی کی زندگی ہمہ رنگ ہے، گوناگوں مصروفیات کے بعث ان اہم ذمہ داریوں کو بھی بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں، جو مولانا قادری کی اعلیٰ صلاحیت وقابلیت کا بیّن ثبوت ہے۔
۱۔ اعزازی مشیر مجلہ رحمۃ اللعالمین (سالنامہ) اسلام آباد
۲۔ مشیر اعلیٰ ماہنامہ نوائے نعت کراچی
۳۔ ممبر مجلس ادارہ سالنامہ معارف رضا کراچی
۴۔ جنرل سکریٹری تصوف اکیڈمی آف پاکستان (کراچی)
۵۔ ممبر وفاق الصوفیہ کراچی
۶۔ ممبر دائرۃ المصنفین کراچی
ادارہ تحقیقات امامِ احمد رضا کا قیام
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے حلقۂ ارادت اور عقیدت مندوں نے تبوفیق ایزوی اپنے رفیع ورہنماؤں کی زندگی اور مشن کو عام کرنے کے لیے بر صغیر پاک وہند، اور اطراف واکناف عالم میں انجمن، حلقے، دائرہ ہائے فکر، کتب خانے، اشاعتی ادارے، اور ریسرچ سینٹر قائم کیے اور اپنے محدود مادی ومالی وسائل کے باوجود گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں مولانا سید ریاست علی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک برین سیل (BRAN CELL) کی سطح پر کراچی میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کی ۱۹۷۴ء میں بنیاد ڈالی، جو ۱۹۸۰ء سے اس صدی کے جلیل القدر اور قابلِ احترام روحانی، علمی رہبر ورہنما امام احمد رضا کی شخصیت اور علمی کارناموں کو اپنے مدود مالی ومادی وسائل کے باوجود متعارف کرانے کے لیے حسبِ توفیق خالص علمی وادبی کام کر رہا ہے، مدیر محلہ امام احمد کانفرنس ۱۴۱۰ھ؍۱۹۸۹ء مولانا سید ریاست علی قادری کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
ادارہ تحقیقات امام احمد رضا قدس سرہٗ کو اگر ایک جسد سے تعبیر کیا جائے تو ہمارے سید صاحب (ریاست علی قادری) اس کی روح ہیں، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کی یہ شہ رگ اور ایک دین ہیں کہ اس کے سارے جسم میں اس کے ذریعے خون پہنچ رہا ہے۔
سالنا معارف رضا
حضرت مولانا سید ریاست علی نے آج سے پانچ چھ سال پہلے بے سرو سامانی کے عالم میں اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے جذبۂ فدا کاری سے سرشار ہوکر معارف رضا کا پہلا شمارہ نکالا تھا۔ اس وقت ماہر رضویات، محقق وقت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مظہری پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج سکھر، حضرت مولانا شمس الحسن شمس بریلوی حضرت مولانا محمد اطہر نعیمی اور جناب محمد شفیع قادری نے آپ کا بھر پور تعاون کیا۔ سید ریاست علی کی شب روز کی جانکاہ محنت نے مجلہ معارف رضا کو کامیاب بنایا۔ اس میں بڑے بڑے پروفیسر، محققین اور دانشوروں کے مقالاتہوتے ہیں جو امام احمد رضا کے یومِ وصال پر ہر سال پابندی اور بلند معیاری کے ساتھ نکل رہا ہے۔
امام احمد رضا کانفرنس جناب مولانا سید ریاست علی کے نصب العین کی ایک ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آئی۔ اپنوں اور غیروں نے بے حد سراہا۔ دانش در طبقہ اس کانفرنس کی بدولت امام احمد رضا بریلوی اور ان کے پائیگا علم اور ان کے تبحر سے آگاہ ہوا، اور اس کانفرنس کی بدولت امام احمد رضا بریلوی اور ان کے پائیگاہ علم اور ان کے تبحر سے آگاہ ہوا، اور اس کانفرنس کے بڑے مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔ آپ نے راقم کے نام ایک خط لکھا کہ:
میں نے اپنی زندگی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت کے مشم کی ترویج واشاعت کے لیے وقف کردی ہے۔
دنیائے رضویت مولانا ریاست علی کی ذات پر نازاں ہے اور ان کے فروغِ عمل کے لیے دعا گو ہے آپ کا قائم کردہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا پور ے ملک پاک وہند میں اعلیٰ حضرت پر اپنی نوعیت کا واحدادارہ ہے جو اعلیٰ حضرت پر تحقیق کر رہا ہے۔ اس ادارےنے دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم دانش وروں کو اعلیٰ حضرت کی طرف رجوع کیا ہے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ حضرت کی کتابوں اور ان کے کارناموں پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔
بیعت وخلافت
تقسیم ہند کے بعد ۱۹۵۶ء میں مولانا سید ریاست علی قادری پاکستان سے بریلی شریف حاضر ہوئے۔ حضور مفتئ اعطم نوری قدس سرہٗ کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا تو آپ کے زہد وتقویٰ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور فوراً شرفِ بیعت حاصل کیا۔ اگر چہ عقیدت آستانۂ رضویہ سے پہلے ہی سے تھی اس لیے کہ مولانا ریاست علی کے والد سید واحد علی رضوی کو امام احمد رضا سے شرف بیعت حاصل تھا جس کی وجہ سے اکثر وبیشتر مواقع پر اعلیٰ حضرت اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت کا ذکر خیر ہوا کرتا تھا۔ اس لیے مولانا قادری آستانۂ رضویہ سے متعارف تھے۔
۱۹۸۰ء میں حضرت مفتئ اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے سلسلۂ قادریہ، برکاتیہ، نوریہ، رضویہ میں اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا۔ نیز اپنا عمامہ ، جبہ، ٹوپی، جائے نماز، رومال اور دیگر تبرکات عنایت فرمائے۔
جاں فشانی کا نتیجہ
حضرت مولانا سید ریاست علی نے حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ کو بھی دیکھا تھا۔ مولانا محمد ھامد رضا بریلوی آپ کے دولت خانے پر تشریف لے جاتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ خوبصورت اور حسین شخصیت نہیں دیکھی۔ وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبرو تھے۔
جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی الشاہ محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ، استاذ العلماء مفتی تقدس علی خاں رضوی علیہ الرحمۃ، ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مظہری اور حضرت علاہ شمس بریلوی کے دل میں آپ کی بے حد قدور منزلت ہے [1]
[1] ۔مذکورہ حالات مجلہ امام احمد رضا کانفرنس ۱۹۸۹ء؍۱۴۱۰ھ ص ۲۵، تذکرہ اکابر اہل سنت پاکستان ص ۱۰۸، گناہ بے گناہی ص ۳۴، اور زیادہ تر حالات حضرت علامہ مولانا سید ریاست علی رضوی کے مکتوب گرامی سے ماخوذ ہیں بنام راقم محررہ ۲۹؍مارچ۱۹۹۰ء؍ ۱۴۱۰ھ۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ