حضرت عمدۃ المحققین مولانا سید شریف احمد شرافت نوشاہی ساہنپال
حضرت عمدۃ المحققین مولانا سید شریف احمد شرافت نوشاہی ساہنپال (تذکرہ / سوانح)
حضرت عمدۃ المحققین مولانا سید شریف احمد شرافت نوشاہی ساہنپال شریف علیہ الرحمۃ
صاحبِ تصانیفِ کثیرہ حضرت پیر ابو الظفر سیّد شریف احمد شرافت علوی، قادری نوشاہی بن سیّد غلام مصطفےٰ نوشاہی(م ۱۳۸۴ھ) بن سید حافظ محمد شاہ(م ۱۳۳۷ھ) ۱۹؍ شعبان ۱۳۲۵ھ / ۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۷ء میں بمقام ساہن پال شریف، تحصیل پھالیہ، ضلع گجرات پیدا ہوئے۔[۱]
[۱۔ محمد اقبال مجددی: ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ ص ۱۱]
سیّد شرافت نوشاہی، برصغیر کے معروف مذہبی، روحانی، علمی اور ادبی خاندان ’’نوشاہیہ‘‘ کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب گیارھویں پشت میں بانی سلسلۂ نوشاہیہ شیخ الاسلام حضرت سیّد حافظ حاجی محمد نوشہ گنج بخش سے ملتا ہے۔
حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری، امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد سے تھے قرآن پاک کے حافظ ہونے کے علاوہ علوم عقلیہ و نقلیہ کے جیّد عالم تھے خصوصاً تفسیر، حدیث، فقہ، طب، تصوّف اور فن زرنگاری میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ اور پنجابی کے صاحبِ دیوان شاعر تھے[۱]
[۱۔ شفیق الرّحمٰن نوشاہی، سید: ’’معارف شرافت‘‘ غیر مطبوعہ (بیاض)]
سیّد شرافت نوشاہی مدظلۂ کے والد ماجد حضرت مولانا سیّد غلام مصطفےٰ نوشاہی رحمہ اللہ کی دینی، تبلیغی، علمی، ادبی اور تاریخی خدمات ان گنت ہیں آپ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جن میں سے آپ کا عظیم قلمی شاہکار ’’انوار شاہی‘‘ المعروف ’’فیض محمد شاہی‘‘ ہے یہ کتاب دس ضخیم جلدوں میں بیاض کی صورت میں ہے۔
سیّد حافض محمد شاہ نیک اختر نوشاہی(جد امجد حضرت سیّد شرافت نوشاہی) بہت سے علوم و فنون کے حامل تھے کثرتِ تلاوت کی وجہ سے آپ کو قرآن پاک حفظ ہوگیا تھا۔ آپ کی بے شمار تصانیف میں سے ’’کتاب الفوائد‘‘ نہایت بلند پایہ تصنیف ہے جو تصوّف، تاریخ، ادب اور ایسے کئی دوسرے اہم علوم پر مشتمل ہے۔
حضرت سیّد شریف احمد شرافت کو بزرگانِ دین کے معمول کے مطابق چار سال چارہ ماہ چار دن کی عمر میں جد امجد علیہ الرحمّہ نے بسم اللہ شریف شروع کراتے ہوئے ۲۳؍ ذی الحجہ ۱۳۲۹ھ کو پہلا سبق دیا۔
آپ نے قرآن مجید اور فارسی کتب اپنے جدِّ امجد سیّد حافظ محمد شاہ رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ عربی کی کتب متداولہ اپنے والد ماجد سے سبقاً سبقاً پڑھیں اور فنِ کتابت مولانا محمد حسین مبارک رقم (مرحوم) ساکن عادل گڑھ ضلع گوجرانوالہ سے سیکھا۔ کتابت میں آپ کا تخلّص ’’نفیس رقم‘‘ ہے۔ آپ نے سلسلۂ قادریہ نوشاہیہ میں اپنے والد ماجد قدس سرہ سے بیعت کی اور خلافت و اجازت کا شرف حاصل کیا والد ماجد قدس سرّہ نے آپ کو شمس الفقراء کا خطاب دیا۔[۱]
[۱۔ محمد اقبال مجددی: ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ ص ۱۲]
حضرت پیر سیّد شرافت نوشاہی بلند پایہ مصنّف ہیں آپ کی تصانیف نہایت علمی و تحقیقی مضامین پر مشتمل ہیں تصانیف و تالیف کی تعداد دوسو کے لگ بھگ ہے جن میں سب سے زیادہ ضخیم و جحیم تالیف ’’شریف التواریخ‘‘ ہے جو تقریباً سات ہزار صفحات تقریباً سینتیس ہزار(۳۷۰۰۰) بنتے ہیں۔[۱]
[۱۔ محمد موسیٰ امر تسری حکیم: ’’تقریب احوال و آثار سید شرافت نوشاہی‘‘ ص۳]
مخدوم اہل سنت جناب حکیم محمد موسیٰ امر تسری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:
حضرت شرافت زید مجدہ، ظاہری علوم و فنون میں بھی ایسے باکمال ہیں کہ ان کے علوم کی گہرائی، گیرائی اور ان کے بے مثل علمی و تحقیقی کارناموں کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور آج سے صدیوں پہلے کے علماء و فضلاء اور مصنّفین کی علمی کاوشوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور اس قابل قدر خصوصیّت کے باعث پنجاب کے سجّادگان میں ان کا مقام بالکل ممتاز اور خاص شان کا حامل نظر آتا ہے۔[۱]
[۱۔ محمد موسیٰ امر تسری، حکیم: تقریب ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ ص۴]
حضرت سید شریف احمد شرافت نوشاہی کا ذوق مطالعہ اور وسعتِ علمی کا نقشہ جناب محمد اقبال مجدّدی نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:
لاہور کے مشہور علم پرور بزرگ مولانا محمد شمس الدین(مرحوم) (تاجر کتب نادرہ متوفی ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء) کی دکان (زیر مسلم مسجد انار کلی لاہور) پر پہلی مرتبہ ۱۹۶۴ء میں مؤلف احقر(مولانا محمد اقبال مجددی) کا مولانا سیّد شرافت نوشاہی مدظلۂ سے اس طرح تعارف ہوا کہ مخدومی ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کو کتاب ’’مقاماتِ داؤدی‘‘ اور اس کے مصنّف کے بارے میں معلومات درکار تھیں۔ ڈاکٹر صاحب، مولوی شمس الدّین(مرحوم ) کی دُکان پر تشریف لائے اور مذکورہ کتاب اور اس کے مصنّف کے بارے میں دریافت کیا۔ مولوی صاحب مرحوم نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تقریباً ایک ماہ بعد ایک سن رسیدہ، مگر توانا بزرگ (سیّد شرافت (نوشاہی) مولوی صاحب مرحوم کی دُکان پر تشریف لائے۔ مولوی صاحب مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کی مطلوبہ کتاب اور اس کے مصنّف کے بارے میں استفارات کیے۔ انہوں نے مولوی صاحب مرحوم کے سوالات کے جواب میں فرمایا کہ ’’مقاماتِ داؤدی‘‘ شیخ کرمانی شیر گڈھی متوفی ۹۸۲ھ کے حالات پر مشتمل ہے اور اس کے مصنّف عبد الباقی بن جان محمد جمجی قادری ہیں سال تصنیف لفظ ’’طفوظ‘‘ ۱۰۵۶ھ سے برآمد ہوتا ہے اور اس کا ایک قلمی نسخہ میرے ذاتی کتب خانہ میں بھی موجود ہے۔[۱]
[۱۔ محمد اقبال مجددی مولانا: مقدمہ ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ ص۷]
اس واقعہ سے جہاں مولانا کی وسعتِ علمی کا پتہ چلتا ہے آپ کی علم دوستی، کتب سے گہرا لگاؤ اور خدا داد قوّتِ حافظہ کا بھی علم ہوتا ہے۔
آپ کی اَ ن گنت تصانیف میں سے چند کتب کے اسماء یہ ہیں:
۱۔ علوم القرآن (تفسیر)۔
۲۔ الروض الجنان فی احادیث، سید الانس و الجان(صلی اللہ علیہ وسلم) (حدیث)۔
۳۔ انوار السّیادت فی آثار السّعادت (فقہ)۔
۴۔ برکات المجوب فی زیارت السالک و المجذوب (تصوّف)۔
۵۔ اعجاز التواریخ (تاریخ)۔
۶۔ تاریخ سلاطین (تاریخ)۔
۷۔ شریف التواریخ (تاریخ)۔
۸۔ تاریخ عباسی (تاریخ)۔
۹۔ تذکرۃ المحذرات (تذکرہ)۔
۱۰۔ ارمغان امینیہ (فارسی، اردو نظمیں)
۱۱۔ رموز الطب (طب)[۱]
[۱۔ محمد اقبال مجددی: ’’احوال و آثار سید شرافت نوشاہی‘‘ مختلف صفحات]
نوٹ: حضرت مولانا سیّد شرافت نوشاہی کی تصانیف کی مکمّل فہرست ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے۔
(تعارف علماءِ اہلسنت)