حضرت مولانا تاج الدین
حضرت مولانا تاج الدین (تذکرہ / سوانح)
عالم با عمل، مرد مجاہد مولانا تاجدین ابن شیخ محمد عیٰسی ، موضع میاں وال رجیاں تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کھالوں کا کا روبار کرتے تھے ، نہایت متقی اور درویش منش تاجر تھے ، جب ہوش سنبھالا تو اپنے گائوں کی مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی ۔ درس نظامی کا استفادہ مولانا سید غلام رسول سے کیا ، درس حدیث کے لئے لاہور تشریف لائے ، ان دنوں جامع مسجد ٹپولیاں اندروں لوہاری دروازہ لاہور میں مولانا شہاب الدین نے یکی دروازہ پولیس لائن کے سامے ایک چھوٹی سی مسجد میں اقامت اختیار کی اور درس حدیث مولانا شہاب الدین سے لیتے رہے ۔ حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ اور حضرت مولانا غلام قادر بھیروی قدست اسراہما سے آپ کے گہرے مراسم تھے ، آپ فرمایا کرتے تھے :
’’اگر وعظ سننا ہو تو مولوی دیدار علی شاہ صاحب کا سننا چاہئے جس سے ایمان تازہ ہو جاتا ہے ۔‘‘
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریولی کی علمی فضیلت کے دل و جان سے قائل تھے ، نماز جمعہ ہمیشہ مولانا غلام قادر بھیر وی کے پیچھے ادا کرتے اور جب کبھی وہ رخصت پر تشریف لے جاتے تو آپ ان کی جگہ فرائض خطابت انجام دیتے ۔
تحصیل علم کے بعد آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ میں پیر صاحب مانکی شریف کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور گیارہ برس تک شیخ کی خدمت میں رہ کر راہ عرفان کی منزلیں طے کرتے رہے ، ان کے وصال کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور ہر سال شیخ کے مزار اقدس پر حاضری دیتے رہے ۔ لاہورتشریف لا کر چوک مسجد وزیر خاں کے قریب چوبٹہ بھگتورام کی ایک مسجد میں قیام پذیر ہو گئے اور اسے از سر نو تعمیر کر کے یا د خد ا میں زندگی بسر کرنے لگے ، اپنی شب زندہ دار والدہ کو بھی واپس لے آئے بن کا وسال لاہورہی میں ہوا اور درس میاں وڈامیں دفن ہوئیں۔یہاں کی ہنگامہ پرور فضا سے اکتاکر پاور ہائوس کے قریب چوبچہ گرورام متصل ریلوے لائن امت تسر مولانا جان محمد سہر وردی کی مسجد مین چلے آئے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ مولانا کی کوششوں سے مسجد کی تعمیر نو ہوئی اور جنگل میں منگل کا سماں پیدا ہو گیا، مولانا جید والم اور قابل قدر مرشد طریقت تھے ، تمام عمر مجرد رہے، رعب و دبد بے کا یہ عالم تھا کہ غیر شرعی ہئیت کے کسی شخص کو آپ کے پاس حاضر ہونیکی جراء ت نہ ہوتی تھی۔
اسی دوران محکمہ ریلوے نے ایک لائن کا نقشہ پاس کر کے مسجد کو خالی کرنے اور متبادل جگہ دینے کا نوٹس دیا تو مولانا نے صاف انکار کر دیا اور مسجد کو منہدم کر کے لائن بچھانے کی اجازتنہ دی آخر کار محکمہ ریلوے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا اور انہیں یہ نقشہ تبدیل کرنا پڑا ، ۳۵ شعبان المعظم ، ۶ فروری (۱۳۲۷ھ/۱۹۲۹ء) بروز بدھ بوقت نماز عشاء ، آپ کا وصال ہوا ، اسی م سجد میں آپ کا مزار بنا جو مسجد مولانا تاج الدین کے نام سے مشہور ہے ، نماز جنازہ امام اہلسنت مولانا سید دیدار علی شاہ قدس سرہ نے پڑھائی ، ہزاروں افراد جنازہ میں شریک ہوئے ، مفتی اعظم پاکستا ن مولانا سید ابو البرکات سید احمد قادری مد ظلہ العالی ، غازی کشمیر مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری ، پیر غلام دستگیر نامی ، غازی علم الدین شہید کے علاوہ بیشمار علمائے کرام اور معززین شہ رشامل تھے ، وصال سے پہلے آپ نے اپنے مدفن کی نشاند ہی کردی تھی ۔
اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب غازی علم الدین شہید کو میانوالی جیل میں آخری وصیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے ایک بات یہ بی کہی کہ میری نعش اس چار پائی پر قبر ستنا لیجائی جائے جس پر مالانا تاج الدین کا جنازہ اٹا تھا ، مد نام زمانہ گستاخ رسول ، راجپال کو قتل کرنے سے پہلے غازی علم الدین شہید کہا کرتے تھے:۔
’’زندگی ہو تو ایسی ہو اور جنازہ ہو تو ایسا ہو!‘‘[1]
[1] محمد کلیم ، مؤرخ لاہور : ماہنامہ ضیائے حرم ، لاہور ( اکتوبر ۱۹۷۳ئ) ص ۷۷۔ ۸۱
(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)