مولانا حافظ عبد الحلیم لکھنوی
مولانا حافظ عبد الحلیم لکھنوی (تذکرہ / سوانح)
مولانا حافظ عبد الحلیم بن مولانا امین اللہ بن مولانا محمد اکبر بن مفتی ابی الرحیم لکھنوی: جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور بارع فنعں فرعیہ واصولیہ،فقیہ،محدث، صاحبِ تحقیقی و تدقیق اور مصنفِ کتبِ کثیرہ تھے۔۲۱؍شعبان ۱۲۳۹ھ کو پیدا ہوئے،پہلے قران حفظ کیا پھر کتب صرف ونحو کو اپنے والد سے پڑھا۔جب وہ فوت ہوگئے تو شرح تلخیص مفتاح کو اپنے نانا مفتی ظہور اللہ سے پڑھا اور شرح عقائد نسفیہ وغیرہ کو مفتی محمد اصغر سے حاصل کیا اور ان کے فوت ہونے پر باقی کتب درسیہ م عقول و منقول کو مفتی محمد یوسف اور کتب علوم ریاضی کو اپنے خالو مولانا محمد نعم اللہ سے پڑھا یہاں تک کہ فائق اقران اور کامل مکمل ہوئے۱۲۶۰ھ میں اپنے وطن سے شہر باندا کو تشریف لے گئے جہاں آپ کو نواب ذوالفقار ولہ نے اپنے مدرسہ کا مدرس مقرر کیا،پھر کچھ مدت بعد جونپور کو تشریف لے گے اور وہاں کے رئیس حاجی محمد امام بخش نے اپنے مدرسہ کا آپ کو مدرس کیا اور ایک خلقت کثیر نے آپ سے تلمذ کیا اور آپ کے فضائل اور تصانیف مشہور زمانہ ہوئیں۔
۱۲۷۷ھ میں شہر حیدر آباد کن کو گئے اور وہاں وزیر مختار املک نے آپ کو اپنے مدرسہ کا مدرس مقرر کیا جہان دو سال تک تدریس و تنشیر علوم میں مصروف رہے ۱۲۷۹ھ مین مستعفی ہوکر حرمین شریفین کو تشریف لے گئے اور وہاں کے علماء نےآپ کی بڑی عزت کی اور مولانا محمد جمال مکی مفتی حنفیہ اور مولانا سید احمد دحلان مفتی شافعیہ اور شیخ علی حریری مدنی اور مولانا عبد الغنی مجددی دہلوی نزیل مدینہ منورہ اور مولانا عبد الرشید مجددی وغیرہ مہم نےآپ کو حدیث کی اجازت دی اور اس سے پہلے آپ کو مولانا حسین احمد محدث ملیح آبادی تلمیذ شاہ عبد العزیزی دہلوی سے بھی اجازت حاصل تھی،۱۲۸۰ھ کو حیدر آبا دمیں واپس آئے اور وزیر موصوف نے عدالت دیوانیکی نظامت اپ کو تفویض کی،چنانچہ مقدمات مرجوعہ کو آپ بڑی خوبی سے فیصل فرماتے رہے یہاں تک کہ روز دو شنبہ ق۲۹؍ماہ شعبان ۱۲۸۵ھ میں وفات پائی اور ’’حافظ نامدار‘‘ تاریخ وفات ہے۔
آپ کی تصنیفات حسبِ ذیل ہے جو سب کی سب مفید اور مقبول ہے، رسالہ درباب اشارہ سبابہ،حاشیہ شرح عقائد جلالی المسماۃ بہ حل المعاقد،نظم الدرفی سلک شق القمر،امعان النظر البصارۃ شق القرم،التحلیۃ شرح التسویۃ، نور الرحمٰن فی آثار حبیب الرحمٰن، الا ملاء فی تحقیقی الدعاء،ایقادالمصابیح فی التروایح،غایۃ الکالم فی بیان الحلال والحرام،خیر الکلام فی مسائل الصیام،قول الحسن فیما یتعلق بالنوافل والسنن، عمدۃ التحریری فی مسائل اللون واللباس والحریر،السقایہ شرح الہدایہ نامکمل، قمر الاقمار ھاشیہ نور الانوار،رسالہ دربارہ رحلت حرمین،التعلیق الفاضل فی مسئلۃ الطہر المتخلل،حاشیہ شرح وقایہ نا مکمل،رسالہ درباب جمعی فتاوی، جو ان سے پوچھے گئے۔رسالہ دربارۂ تراجم علماء ہند مگر نا مکمل،تحقیقات المرضیۃ لحاشیۃ الزاہد علی الرسالۃ القطبیہ،قول الاسلم لحل شرح السلم،اقوال الاربعہ،کشف المکتوم لحل حاشیۃ بحر العلوم،قول المحیط فیما یتعلق بالجہل المؤلف والبسیط،معین الناءصین فی رد المنھا لطین،ایضاحات لمبحث المختلطات،کشف الاشتباہ لحل حمد اللہ،بیان العجیب فی شرح ضابطۃ التہذیب،کاشر الظلمہ فی بیان اقسام الحکمہ،العفان فی المنطق،حاشیہ نفیسی شرح موجز،ھاشیہ قدیمہ دوانیہ نامکمل،شرح تجرید قوشجی کی شرح،حاشیہ بدائع المیزان نا مکمل،ھاشیہ مصباح نحو وغیرہ ذلک۔
آپ کے خلف الصدق فقیہ،محدث،عالمِ بے عدیل،فاضلِ بے تمثیل، جامع معقلو و منقول، حاوی فروع واسول،قدوۃ المحققین،زبدۃ المدققین،مصنف کتب کثیرہ مولانا ابو الحسنات مولوی حافظ محمد عبد الحی لکھنوی زندہ[1]موجود ہیں جو بدء تحصیل علوم سے تصنیف کتب اور تنشیر علوم میں یہاں تک مصروف ہیں کہ باوجود یکہ آپ کی عمر بھی پوری چالیس برس کی نہیں ہوئی مگر چشم بد دور آپ ستر کتب ورسالہ جات سے زیادہ تصنیف کر چکےہیں جن مین سے اکثر معرض طبع میں آکر شہرت پاچکی ہیں اور ان کے سوا بڑی بڑی علمی اور فضیلت کی کتابوں پر آپ کے حواشی اور تعلیقات موجود ہیں اور ان میں ایسی تحقیقات و تدقیقات کو کام فرمایا ہے کہ طالب علموں کے آگے ایک منبھا ہوا آئینہ رکھ دیا ہے غرض کہ کثرت تصنیفات اور تنشیر علوم کے سبب ہندوستان کے کے حنفیوں میں اس آخر زمانہ میں اس جمیعت و لیاقت کا اور کوئی عالم و فاضل دکھائی نہیں دیتا جس سے ان کو اگر چودھویں صدی کا مددِ امتِ محمدیہ قرار دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے،خدا تعالیٰ ان کا فیض مدت تک جاری رکھے۔
1۔ ولادت،باندہ،ذیقعدہ ۱۲۶۴ھ،وفات لکھنؤ ۱۹؍ربیع الاول ۱۳۰۴ھ ۸۷ سے زائد کتب کے مصنف تھے(تذکرہ علمائے ہند)
(حدائق الحنفیہ)