مولوی احمد الدین بن حافظ نور حیات بن حافظ محمد شفاء بن حافظ نور محمد گوی: فاضلِ اجل،عالمِ اکمل،فقیہ،محدث،جامع کمالات ظاہری و باطنی،صاھبِ ریاضت و مجاہدت تھے،۱۲۱۷ھ میں پیدا ہوئے،مطول اور شرح وقایہ تک تو اپنے بھائی مولوی غلام محی الدین سے پڑھا،بعد ازاں متفرق عالموں سے استفادہ کیا اور اخیر کو مولوی محمد اسحاق محدث دہلوی سے چودہ سال دہلی میں رہ کر دستار فضیلت باندھی اور حدیث وغیرہ علوم کی اجازت حاصل کی،ریاضت و مجاہدہ بدرجہ کمال تھا۔ رات کو کئی دفعہ بیدار ہوتے اور ہر دم ذکر الٰہی میں مصروف رہتے،چلتے پھرتے حالت صحت و بیماری میں طالب علموں کو سبق پڑھاتے رہتے تھے۔مقبول درگاہِ الٰہی میں ایسے تھے جہ جو زبان درفشان سے فرماتے وہی ہوتا۔مرور اس قدر تھی کے طالب علموں کو اگر ان میں سے کوئی بیمار پڑجاتا تو اپنے ہاتھ سے دوا تیار کر کے دیتے۔ آپ بھی مثل اپنے بھائی مرحوم کے اکثر لاہور میں رہتے اور درس دیتے تھے،اور یہ دستور کیا ہوا تھا کہ جب چھ ماہ آپ لاہور میں رہتے تو آپ کے بڑے بھائی بوگا میں تشریف لیجاتے اور جب وہ لاہور میں آتے تو آپ بوگا میں تشریف فرما ہوجاتے تھے۔غرض جس قدر انتشار علم معقول و منقول پنجاب میں ان فارغ التحصیل اور فیض یاب ہوئےگویا پنجاب میں کوئی صاحبِ علم ان کو شاگردی سے بے بہرہ نہ ہوگا کوئی بالذات کوئی بالواسطہ ان کے تلامذہ میں منتسب ہوگا۔
آپ نے تصنیفات بہت کی مگر نظر ثانی تک نوبت نہ پہنچی کہ لوگ لے گئے از انجملہ ایک کتاب احمدیہ حاشیہ شرح ملا ہے جو بہت مشہور ہے مگر اس میں بھی نظر ثانی کا موقع نہیں ملا،ایک حاشیہ خیالی ہے،باقی تصانیف کا کچھ پتہ نہیں۔وفات آپ کی ۱۳؍شوال شب یکشنبہ ۱۲۸۶ھ میں ہوئی اور جامع مسجد بھیرہ کے متصل دفن کیے گئے۔آپ کی عمر بھی تقریباً ستّر سال ہوئی اور لطف یہ ہے کہ جیسے آپ ۱۳سال اپنے بھائی مولوی غلام محی الدین سے چھوٹے تھے ویسے ہی تیرہ سال بعد ان کے وفات پائی اور ’’غفور‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)