حضرت مولانا مولوی محمد شریف قدس سرہ
حضرت مولانا مولوی محمد شریف قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
ولادت با سعادت:
حضرت مولانا خاندان غلویہ سے قندھار کے رہنے والے تھے۔ اپنی والدہ محترمہ کی جانب سے علوی تھے۔ آپ کا تولد شریف ۱۱۹۸ھ میں ہوا۔ سترہ سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار کی اجازت سے علوم ظاہری کی تحصیل کے لیے سفر اختیار کیا۔ دو سال کابل میں اور سات سال پشاور میں رہے۔ پھر دہلی میں وارد ہوئے۔ اور حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ جس طرح علوم ظاہری میں شاغل رہ کر فاضل ہوئے ہو۔ بحر معارف باطنی میں موج زن ہوجاؤ۔ عرض کیا کہ خوب۔ لیکن چونکہ ابھی علوم ریاضی وغیرہ کا شوق جوش زن تھا۔ دہلی سے روانہ ہوکر رامپور روہیلوں میں پہنچے۔ وہاں مفتی شرف الدین صاحب کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ تعلیم میں کوتاہی نہ ہوگی۔ مگر سکونت کے لیے کوئی مکان تلاش کرلو۔ اس لیے آپ شہر میں ادھر اُدھر پھرے۔ مگر کوئی مکان آمدو رفت عام سے خالی نہ پایا۔ اس لیے بیرون شہر ایک بے آباد مسجد کے حجرے میں قیام کیا۔ اور دس سال وہیں گزار دیے۔ اور مفتی صاحب سے استفاضہ فرماتے رہے۔ اسی اثناء میں ایک بزرگ معلم دیوان حافظ و مثنوی مولانا روم کا پتہ لگا۔ وہ مجذوب تھے۔ کسی سے سروکار نہ رکھتے تھے۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اظہار شوق کیا۔ انہوں نے کمال عنایت سے فرمایا کہ بسم اللہ آیے شروع کیجیے۔ چنانچہ دو سال میں دیوان حافظ و مثنوی شریف پڑھی۔ پھر مفتی صاحب سے رخصت ہوکر بریلی میں وارد ہوئے اور وہاں علم تجوید حاصل کیا۔ قصہ کوتاہ بیالیس سال کی عمر میں پھر دہلی میں آئے۔
اجازت و خلافت:
اُس وقت حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کا وصال ہوچکا تھا۔ اس لیے ان کے خلیفہ اعظم شاہ حضرت شاہ ابو سعید سے بیعت ہوئے۔ اور دو سال ان کی خدمت میں رہے۔ اور علم باطنی کی تکمیل کی۔ اجازت و خلافت لے کر وہاں سے رخصت ہوئے۔ رخصت کے وقت آپ کے پیر دستگیر نے آپ کو پیر ہن و دستار وکلاہ اور عصا مبارک عنایت فرمایا۔ اور چار باتوں کی وصیت فرمائی۔ اول یہ کہ مذہب حنفیہ کی کتابوں پر عمل کرنا جیسا کہ حضرت امام ربانی نے مکتوبات شریفہ میں فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ طلبہ باطنی کو توجہ دینا۔ تیسرے یہ کہ بغرض دنیا امیروں سے نہ ملنا۔ چوتھے یہ کہ اغیار کی مجلسوں سے پرہیز رکھنا۔
اس کے بعد چند سال زیارات فقراء اور مزارات اولیاء اللہ کے لیے اجمیر شریف و کلیر شریف اور اکثر سرہند شریف میں گزرے۔ پھر اپنے پیر دستگیر کی قدم بوسی کے لیے دہلی میں وارد ہوئے۔ اسی اثنا میں جناب مولوی حافظ عبد الرحمٰن بن شیخ سیف الرحمٰن سرہندی ساکن جالندھر جو حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کی اولاد سے تھے خانقاہ شریف میں آئے۔ اور حضرت شاہ ابو سعید قدس سرہ سے درخواست کی کہ مولانا محمد شریف کو جالندھر جانے کی اجازت دیجیے۔ اس طرح آپ جالندھر میں تشریف لائے۔
اشاعت طریقہ:
شہر جالندھر میں بہت سے لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ کچھ مدت کے بعد آپ کا فیض حدود شہر سے خارج بھی پہنچنے لگا۔ چنانچہ آپ بستی غذاں میں رونق افروز ہوئے۔ پھر ہوشیار پور میں مسجد حافظ جانی مرحوم میں جو مسجد دروازہ گوریاں کر کے معروف ہے آپ کا قیام رہا۔ اس طرح آپ امر تسر۔ لاہور۔ کشمیر وغیرہ میں بھی بغرض اشاعت طریقہ و افاضہ تشریف لے جایا کرتے۔ یہ آمد و رفت تین سال تک رہی۔ اس کے بعد آپ دوبارہ کشمیر میں رونق افروز ہوئے۔ وہاں سے واپس آکر آپ نے ہوشیار پور میں اقامت اختیار کی۔
اجازت نامہ:
آپ کے اجازت نامہ میں سند سات طریقوں قادریہ۔ چشتیہ۔ سہروردیہ۔ مداریہ۔ کبرویہ۔ قلندریہ۔ نقشبندیہ کی تھی۔ مگر آپ توجہ صرف طریقہ نقشبندیہ مجددیہ کی دیا کرتے تھے۔ آپ کے حلقہ توجہ میں بعض اوقات سو سو طالب ہوا کرتے تھے۔ حضرت قبلہ حاجی محمود صاحب جالندھری۔ مولوی غلام حسین صاحب ہوشیار پوری۔ مولوی احمد یار امر تسری۔ مولوی شمس الدین صاحب وزیر آبادی۔ مولوی کرم بخش صاحب پھوری۔ سید ہمیر شاہ صاحب شیخ ابراہیم صاحب۔ شیخ اسماعیل صاحب۔ میاں عبد الرحمٰن صاحب۔ اخوند محمد شاہ صاحب۔ مولانا محمد یٰسین صاحب ہوشیار پوری۔ مولانا عبد الرزاق صاحب کشمیری لدھیانوی۔ صمد شاہ صاحب کشمیری امرت سری آپ ہی کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔
کشف:
جناب مولانا مفتی عبد الحمید صاحب لدہیانوی نے بروایت مرشد خود حضرت غلام جیلانی رحمۃ اللہ علیہ راقم الحروف سے بیان کیا۔کہ ایک شخص حضرت مولانا محمد شریف قدس سرہ کے حلقہ میں آبیٹھا۔ اس کو قضائے حاجت کے بعد طہارت کرنی یاد نہ رہی۔ صرف وضو کر کے شامل حلقہ ہوگیا۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ حلقہ میں طہارت کے بغیر نہ بیٹھا کرو۔ اُس شخص نے کچھ خیال نہ کیا۔ حضرت مولانا نے پھر یہی ارشاد فرمایا۔ مگر اسے خیال نہ آیا۔ بعد ازاں حضرت نے اُس سے فرمایا کہ تم نے طہارت نہیں کی۔ اُٹھ جاؤ۔ پھر اُسے یاد آیا۔ اور طہارت وضو کے بعد شامل حلقہ ہوا۔
شہر جموں میں حضرت مولانا کی ایک مریدہ تھی۔ اُس کی نسبت آپ فرمایا کرتے تھے۔ کہ وہ مسمات اہلِ کشف سے ہے۔ اس کا توجہ لینے کا وقت معین تھا۔
جود و سخا:
نقد و جنس جو کچھ پیش کش ہوتا اس کے مصارف یہ تھے۔
۱۔ بزرگوں کے عرس۔ عرس حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم۔ عرس حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہٗ۔ عرس امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ۔ عرس حضرت شاہ ابو سعید قدس سرہٗ۔
۲۔ خانقاہ شریف دہلی
۳۔ عام سائل
وصال مُبارک:
آپ اخیر وقت تک اپنے پیر دستگیر کی وصیت پر عمل کرتے رہے۔ مرض موت میں آپ نے حسب روایت جناب مولانا مفتی عبد الحمید صاحب لدھیانوی اپنے مریدوں کو جو حاضر خدمت تھے۔ تبرکات تقسیم کر دئیے۔ کسی کو تسبیح۔ کسی کو مصلا۔ کسی کو عصا۔ کسی کو گدڑی۔ کسی کو چادر۔ کسی کو کلاہ عطا فرمائی۔ حضرت حاجی محمود صاحب اُس وقت حاضر نہ تھے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو حضرت مولانا نے فرمایا حاجی! تو کہاں رہا؟ ہم نے تمام تبرکات تقسیم کر دئیے۔ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ حاجی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! ایک چیز باقی ہے۔ اجازت ہو تو عرض کروں۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری نظر میں تو چیز باقی نہیں ہے۔ حاجی صاحب نے دوبارہ عرض کیا۔ حضرت مولانا نے وہی جواب دیا۔ آخر کار آپ کی اجازت سے حاجی صاحب نے عرض کیا کہ بے شک تمام تبرکات تقسیم ہوگئے۔ مگر آپ کی ذات شریف باقی ہے۔ بندہ اُسی کا طالب ہے۔ آپ نے فرمایا۔ حاجی! تو نے بڑی چیز طلب کی ہے۔ اچھا ہم تمہارے ہی ساتھ رہیں گے۔ آپ کی وصیت یہ تھی کہ اگر میں بیاس ندی سے جانب غربی انتقال کروں تو مجھے لاہور مقبرہ حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ کے پاس سپرد خاک کردیا جائے۔ اور اگر ندی مذکور کے جانب شرقی میں سفرِ آخرت پیش آئے تو سرہند شریف میں دفن کردیا جائے۔ القصہ آپ نے ۱۲۶۰ھ میں یا ایک سال بعد ہوشیار پور میں انتقال فرمایا۔ جنازے پر بہت سے مسلمان علماء و فضلاء و فقراء اور نواب امین الملک شیخ امام الدین خان مع اپنے مصاحبوں کے حاضر تھے۔ آپ کا تابوت حسب وصیت ہوشیار پور سے سرہند شریف لایا گیا۔ اور آپ کو حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے مزار مبارک کے شمال مغرب میں حوض مسجد کے جنوبی کنارے سے ملحق سپرد خاک کردیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس وقت مرقد مبارک ایک چھوٹی سی چار دیواری میں ہے۔ حضرت حاجی محمود رحمۃ اللہ علیہ آپ کا عرس مبارک ماہ چیت کی پانچویں تاریخ کو کیا کرتے تھے۔
ارشاداتِ عالیہ
ایک روز سندھے خاں عامل ہوشیار پور اپنے چند مصاحبوں کے ساتھ حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امراء کی عادت تھی کہ بلا اجازت آپ کی خدمت میں بیٹھا نہ کرتے تھے۔ شیخ موصوف کھڑا رہا۔ آپ نے فرمایا کہ سندھے خاں! چڑیا جیسی تیری صورت اور چیونٹی جیسی تیری رنگت ہے۔ شکر کرو ایسے ایسے شکیل و عقیل تیرے تابع کر دیے ہیں۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ شکر کیا کروں؟ فرمایا کہ نماز با جماعت۔ غرباء نوازی۔ عدل۔ شیخ صاحب نے عرض کیا۔ یا حضرت قبول ہے۔ فرمایا بیٹھ جاؤ۔ شیخ صاحب بیٹھ گئے۔ اور عرض مطالب کر کے رخصت ہوئے۔
شیخ غلام محی الدین صاحب جب نظامت کشمیر سے علیحدہ کر دئیے گئے تو حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کی کہ یا حضرت! دعا کیجیے کہ نظامت کشمیر پھر مل جائے۔ آپ نے فرمایا۔ شیخ صاحب! ایک سپاہی ایک سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ غایت الامردہ سے۔ زیادہ سے مقابلہ مشکل ہے۔ شیخ صاحب نے عرض کیا۔ یا حضرت! اِس کلام مبارک کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک فقیر کی دعا سے کیا ہوسکتا ہے۔ جبکہ لاکھوں بد دعا کریں۔ یہ سُن کر شیخ صاحب نے عرض کیا۔ یا حضرت بزرگوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وعدہ کرو کہ آئندہ مسلمانوں سے حضرت! بزرگوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وعدہ کرو کہ آئندہ مسلمانوں سے بدمعالگی نہ کرو گے۔ بلکہ احسان سے پیش آؤ گے۔ شیخ صاحب نے وعدہ کیا۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ جاؤ۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ شیخ صاحب اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔
آپ مولوی کرم بخش صاحب پھلوری کو فارسی میں یہ مضمون تحریر فرماتے ہیں:
برادر دینی دوست یقینی اخلاص منش کرم بخش صاحب حق کی یاد میں مشغول رہیں۔ دعائے فقیرانہ کے بعد مطالعہ کریں کہ تمہارے دو قطعہ خط پہنچے۔ ان میں جو حالات لکھے تھے۔ معلوم ہوئے۔ الحمد لِلہ کہ آپ کو صحت بدنی اور شفائے اصلی نصیب ہوئی۔ اور آپ نے جو لکھا تھا کہ اب کچھ جسمی طاقت آگئی ہے اور بعضے دوستوں پر جو حلقہ میں بیٹھتے ہیں اثر پڑتا ہے۔ اللہ کا شکر و احسان ہے۔ یا اللہ زیادہ کرپس زیادہ کر۔ آپ پر لازم ہے کہ لطائف خمسہ کے ذکر اور وقوف ہمدردی اور تلاوت قرآن اور نماز تہجد کے پابند رہیں۔ زیادہ دعا۔ مہر ۱۲۵۴ ہجری۔
(قمریۃ السالکین مصنفہ مولانا مولوی حاجی کرم بخش صاحب پھلوری المتخلص بہ قمر)
(مشائخ نقشبند)