مولوی شاہ عبد الغنی بن شاہ ابو سعید: مفسر ،محدث،فقیہ،جامع اصناف علوم حافظ قاری صاحب باطن،درویش سیرت تھے۔اصل وطن آپ کا سرہند تھا مگر آپ دہلی میں ماہ شعبان ۱۲۳۵ھ[1]میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد حضرت مجدد الف ثانی کی اولاد میں سے حضرت غلام علی شاہ کے جانشین سجادہ خانقاہ مظہریہ واقع دہلی تھے۔آپ نے اکثر علوم کو اپنے والد وغیرہ سے پڑھا چنانچہ امام محمد کی مؤطا انہیں سے پڑھی اور انہیں سے طریقہ صوفیہ اخذ کیا اور مشکوٰۃ شریف کو شیخ مخصوص اللہ بن مولانا رفیع الدین سے پڑھا جنہوں نے شاہ عبد العزیزی کے درس میں پڑھا تھا اور نیز محمد اسحاق دہلوی سے پڑھا اور شیخ محمد عابد سندھی انصاری نزیل مدینہ منورہ سے صحیح بخاری کو پڑھا اور کتب صحاح ستہ کی سند لی اور شیخ ابو زاہد اسمٰعیل بن ادریس رومی ثم المدنی سے کل اجازت حاصل کی۔
عرصہ بیس سال کا ہوا کہ آپ ہندوستان سے ہجرت کر کے حرمین شریفین کو تشریف لے گئے اور چہ اس سے بعد المشرقین کا فاصلہ ہوگیا تھا مگر آپ کے فیوض کی شعاعوں سے وہ منور رہا اور ملک عرب جومرکز اسلام اور ماخذ علمِ دین وہاں بھی ہزاروں شخص آپ کے علم ظاہری و باطنی سے فیضیات ہوئے اور مدینہ منورہ میں سیکڑوں مولوی حدیث کی سند آپ سے لینے آتے تھے اور حرمین شریفین زادہما اللہ شرفاً کےبڑے برے رکن اسلام آپ کو بزرگ مانتے تھے اور صدہا لوگ عرب و عجم کے آپ کی بیعت سے خاندان نقشبندیہ میں مشرف ہوکر سعادت دارین کوپہنچتے رہے شیخ الحرم آپ کی یہاں تک تعظیم و تکریم کرتے تھے کہ جب مسجد نبوی میں نماز کے وقت آپ کو دیکھ پاتے تو آپ کو ہی امام بناتے مگر آپ کو بسبب کسر نفسی کے امامت پسند نہ تھی اس لیے یہ عادت کرلی تھی کہ عین تکبیر کے وقت مسجد میں تشریف لاتے۔آپ کی تصنفیات تعلیقات سے ابن ماجہ المسمی بہ انجاح الحاجہ فی شرح سنن ابن ماجہ یادگار ہے،وفات آپ کی محرم ۱۲۹۶ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔قطعۂ تاریخ وفات حسبِ ذیل ہے ؎
شاہ عبد الغنی وحید زماں نازش علم و عارف باللہ
سال نقلش شیندم ازہاتف بہترین محدثین اے ماہ
1۔ ولادت ۲۵؍شعبان ۱۲۳۴ھ۔(مقامات خیر)(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)