آپ لاہور کے فاضل علماء کرام میں سے تھے، آپ استادِ کل مظہر کمالات دینی اور دنیوی ہوئے ہیں، علم و حلم سخا و عطا میں شہرت رکھتے تھے تھدریس و تعلیم میں متقدمین میں سے سبقت لے گئے تھے، ہزاروں لوگ آپ کے وسیلہ جمیلہ سے زیور علم دین سے آراستہ ہوئے، علوم نثر و نظم صرف و نحو منطق و معانی، فقہ و حدیث اور تفسیر میں یکتائے روزگار تھے،علماء کرام میں لاہور شہر میں جس شخص نے علم علم تدریس بلند رکھا وہ آپ کی ذات گرامی تھی، حالانکہ لاہور کا یہ زمانہ بڑا افراتفری کا دور تھا، پنجاب بھر کا کوئی ایسا عالم نہیں تھا جس نے اس چشمۂ فیض سے فیض حاصل نہ کیا ہو، آپ کا سارا خاندان علم و فضل کا سرچشمہ تھا، آپ کے والد حضرت غلام فرید اور آپ کے برادر گرامی مولانا غلام رسول فاضل لاہوری (جن کا ذکرِ خیر سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے) بھی تدریس و تعلیم میں یکتائے روزگار تھے۔
آپ کی وفات ۱۲۷۲ھ میں ہوئی تھی، اور مادۂ تاریخ وفات مرجع الفضلاء (۱۲۷۲ھ) سے نکلتی ہے۔
غلام اللہ چو از دنیا سفر کرد بکن اسعد غلام اللہ تحریر ۱۲۷۲ھ
|
|
بسال وصل آن شاہ معلی غلام اللہ حق آگاہ فرما ۱۲۷۲ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)