حضرت بی بی قرسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا
(والدہ فریدالدین گنج شکر)
عارفہ زمان تھیں، مستجاب الدعوات تھیں، زبان سے جو فرماتی پورا ہوجاتا، صاحب سیر الاولیاء، اخبار الاخیار، معارج الولایت فرماتے ہیں کہ حضرت فرید شکر گنج قدس سرہ ہانسی سے اجودہن (شکر گنج) آئے۔ اور قیام فرما ہوئے تو شیخ نجیب الدین متوکل کو ہانسی روانہ فرمایا تاکہ اپنی والدہ کو اپنے ساتھ اجودہن لے آئیں، شیخ نجیب الدین وہاں پہنچے دوران سفر عین صحرا میں والدہ کو پانی کی ضرورت ہوئی اپنے بیٹے سے پانی مانگا، مگر وہاں پانی کہیں نہیں تھا، شیخ نجیب الدین نے والدہ ضعیفہ کو ایک درخت کے سایہ میں بٹھایا اور خود پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے واپس آئے تو والدہ کو وہاں نہ پایا، بڑے حیران ہوئے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگے، مگر نہ مل سکیں، حضرت گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورتِ حال نہایت پریشانی میں بیان کی، آپ نے فرمایا: ارواح طیبۃ کے لیے کلام اللہ پڑھا جائے غرباء و مساکین کو طعام کھلایا جائے، شیخ نجیب الدین نے ویسا ہی کیا، ایک عرصہ گزر گیا، والدہ نہ ملیں، ایک بار اسی راہ میں دوران سفر حضرت شیخ نجیب الدین کا گزر اسی درخت کی طرف ہوا، دل میں سوچ رہے تھے کہ اتنا عرصہ ہوا والدہ کا کوئی پتہ نہیں چلا شاید اس صحرا میں کوئی نشان یا ہڈیاں ہی مل جائیں پھرتے پھراتے ایک جگہ پہنچے چند انسانی ہڈیاں نظر آئیں خیال آیا ہو نہ ہو نہ میری والدہ کی ہڈیاں ہوں گی، کسی شیر یا درندے نے انہیں ہلاک کریدا ہوگا، اُن ہڈیوں کو جمع کیا انہیں اپنے تھیلے میں ڈالا اور حضرت فرید شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا حال سنایا، آپ نے فرمایا: وہ ہڈیاں میرے سامنے لاؤ وہ تھیلا اٹھا لائے جھاڑا تو وہ بالکل خالی تھا، بڑے حیران ہوئے والدہ کی گمشدگی اور پھر ہڈیوں کی گمشدگی کا واقعہ بڑا عجیب و غریب تھا۔
آپ ۶۴۳ھ میں فوت ہوئیں۔
ز دنیا رفت در فردوس والا پے تاریخ وصلِ آں صفا کیش
|
|
چو آں ام الفرید عالی عطیہ ندا گر دید لاثانی ولیہ ۶۴۳ھ
|
(حدائق الاصفیاء)