’’دربیلو‘‘ ضلع نوشہرو فیروز (سندھ )کے شمال میں ایک ایسا قصبہ ہے، جہاں کے ’’مخادیم ‘‘ نے اپنی علمی و ادبی اور دینی خدمات کے
ذریعے شہرت حاصل کر رکھی ہے۔ ان کے جدامجد حضرت سعد بن ابی وقاص ، مجاہد اسلام فاتح سندھ حضرت محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں تشریف لائے تھے۔ مفتی صاحب کی آٹھویں پشت میں مخدوم محمد عثمان دربیلائی بہت بڑے عالم دین گذرے ہیں جن کا تذکرہ سندھ کی قدیم تاریخ ’’تحفۃ الکرام ‘‘میں مورخ سندھ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے بھی کیا ہے ۔ اس خاندان کے پاس قضاء کا منصب ایک عرصہ تک رہا اور اس خاندان کے فتاویٰ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔
اسی خاندان کے چشم و چراغ مولانا مفتی عبدالعلیم و قاصی دربیلائی ہیں جو کہ ۱۹۰۱ء کو بروز جمعرات مخدوم عبدالنبی دربیلائی کے گھر تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
ُآپ کے چچا مخدوم محمد داوٗد جو بڑے عالم و فاضل ، شاعر و ادیب او رپانچ زبانوں پر عبور رکھتے تھے ۔ ان کے مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد درس نظامی پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت :
آپ نے پہلے اپنے چچا مخدوم محمد داوٗد دربیلائی کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ ان کے انتقال کے بعد سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت حافظ جان محمد سر ہندی (ٹنڈو سائیند اد ضلع حیدر آباد ) کے ہاتھ پر بیعت کی۔
درس و تدریس:
آپ کو انگریزوں سے نفرت تھی اس لئے سرکاری ملازمت چھوڑ دی ۔ ملازمت چھوڑنے پر آپ کے بڑے بھائی نے ناراضگی کا اظہار کیا تو آپ نے کہا :اب میں اللہ تعالیٰ کی نوکری کروں گا ، چنانچہ آپ نے بقیہ زندگی دین کی خدمت میں صرف کی۔ خاندانی مدرسہ جو ’’دارالفیوض‘‘ کے نام سے قائم تھا اسے ازسر نو تعمیر کروا کے درس و تدریس کو سلسلہ شروع کیا۔
تصنیف و تالیف:
درس و تدریس کے ساتھ فتاویٰ نویسی کا کام کیا اور کچھ رسائل آپ کے یاد گار ہیں :
٭ ذکر خفی کی فضیلت سے متعلق ایک رسالہ تحریر کیا۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے تین مرتبہ حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول ﷺ کی سعادت حاصل کی۔ مدینہ طیبہ میں ایک سال گذار اور وہاں کے علماء کرام سے استفادہ کیا۔
اولاد :
آپ کو چھ بیٹے تولد ہوئے ۔ بڑے بیٹے مولانا محمد منور سکندری صاحب ہیں جو کہ مقامی کالج میں پروفیسر بھی ہیں ۔ لیکن بار بار رابطہ کرنے کے باوجود انھوں نے اپنے والد کے حالات مہیا نہیں کئے ۔
وصال :
مولانا مفتی عبدالعلیم نے ۱۹۷۹ء بروز جمعرات ۷۸سال کی عمر میں انتقال کیا۔ دربیلو کی جامع مسجد کے احاطہ میں مدفون ہیں اور ہر سال عرس منایا جاتا ہے۔
(بزرگ صحافی خانزادہ سمیع الوری صاحب نے مواد فراہم کیا)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)