حضرت علامہ مفتی عبدالرحمن دھامراہ
حضرت علامہ مفتی عبدالرحمن دھامراہ (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء مفتی عبدالرحمن بن عنایت اللہ دھامراہ اپنے آبائی گوٹھ دھامراہ ( تحصیل لاڑکانہ ) میں ۷، رجب المرجب ۱۲۶۸ھ کو تولد ہوئے ۔
آپ کا خاندان صدیوں سے اسی گوٹھ دھامراہ میں آباد ہے ، میر صاحبان کے دور حکومت میں آپ کے خاندان کے افراد حکومت کے ممتاز عہدوں پر فائز تھے ۔ اور آپ کے والد محترم عنایت اللہ دھامراہ صاحب درمیانی طبقہ کے زمیندار اور آباد گار تھے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی عمر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تقریبا بارہ سال کی عمر میں آپ کے والد صاحب بعض احباب کے اصرار پر آپ کو لاڑکانہ کے گوٹھ بنگلہ دیر و کے مشہور عالم دین حضرت مولانا عبداللہ لاکھو صاحب کے مدرسہ میں داخل کروادیا ۔ مفتی صاحب نے وہیں فارسی کی مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمدۃ المدرسین حضرت علامہ مولانا قمر الدین اندھڑ سہروردی کے پاس گھوٹکی میں عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے امام اہلسنت ، قاطع بدعت و شرک ، امام میراث، عاشق خیر الوریٰ حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی ؒ کے حضور ہمایون شریف حاضر ہوئے اور درسی نصاب کی تکمیل کے ساتھ فتویٰ نویسی میں بھی تربیت حاصل کی ۔
درس و تدریس :
فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے گاوٗں ’’گوٹھ دھامراہ ‘‘ میں تدریس کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد بلوچستان کے جرگہ کے سرداروں نے کوئٹہ میں بلوایا اور ’’مفتی ‘‘مقرر کیا ۔ مگر اس درویش کو نوابوں سرداروں کی محافل میں اطمینان نہ ہوا اس لئے وہاں سے رخصت ہوئے ۔ شمس العلماء حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ راشدی المعروف پیر صاحب پگارہ پنجم کوٹ دہنی ؒ سجادہ نشین آستانہ عالیہ راشد یہ پیر جو گوٹھ نے آپ کا انتخاب کیا اور جامعہ راشدیہ میں مفتی مقرر کیا۔آپ نے جامعہ راشدیہ میں ۲۵ سال تک فتاویٰ نویسی اور تدرس کا مشغلہ جاری رکھا ۔ حضرت پیر صاحب کے وصال کے بعد مفتی صاحب اپنے گوٹھ واپس آگئے اور گوٹھ دھامراہ کی جامع مسجد کی بوسیدہ عمارت کو شہید کراکے نئی عمارت تیار کرائی ۔ ا س کے ساتھ ایک کمرہ مدرسہ کے لئے بھی تعمیر کرایا جہاں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھا ۔ انہی دنوں میں ’’فتاویٰ رحما نی ‘‘ کو جمع کیا۔
بیعت :
حضرت مفتی عبدالرحمن کی تحریرات اور قول و فعل سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت تھے ، یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کن سے بیعت تھے ۔
سفت حرمین شریفین :
۱۳۰۷ھ میں حرمین شریفین کا سفر کیا حج بیت اللہ اور بنی آخر زمان ﷺ کے روضہ اقدس کی حاضری کی سعادت حاصل کی ۔ اسی سفر بابرکات کے دوران حرمین شریفین سے عربی کتب کی خریداری بھی کی ۔
تلامذہ :
آپ کے شاگردوں میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ استاد العلماء مولانا مفتی محمد حسن کھوسہ بلوچ
جوہی ضلع دادو
٭ مولانا محمد صالح
دادو
٭ مولانا حافظ احمد یار
درگار شریف ملا کاتیار ضلع حیدرآباد
٭ مولانا خلیفہ فتح محمد
گوٹھ دھامراہ
٭ مولوی خوش محمد میر و خانی وہابی
میر و خان
٭ مولانا حکیم غلام رسول جتوئی
محراب پور تحصیل ڈوکری
تصنیف و تالیف :
مفتی عبدالرحمن نے اخیر عمر میں اپنے ’’فتاویٰ رحمانی‘‘ ( فارسی ) کے نام سے جمع کیا، ابھی ترتیب کا کام باقی تھا کہ آپ وصال فرما گئے ۔ آپ کے ورثاء نے مفتی عبدالرحمن قاسمی پھنور مرحوم سے ترتیب دلوائی تھی لیکن طباعت نہ ہو سکی ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر رسائل تحریر فرمائے لیکن سوانح نگار اور بھتیجے مولانا عنایت اللہ دھامراہ صاحب نے نام نہیں گنوائے ہیں ۔
وصال :
مولانا مفتی عبدالرحمن دھامراہ متقی ، پرہیز گار ، شب بیدار ، حق گو، سادگی پسند ، فقیر صفت عالم دین تھے ۔ شریعت مطہرہ کے انتہائی پابند تھے ۔ ان کا مشہور قول ہے:
’’جس قوم کا شوق وذوق سازو سرود سے ہو گا وہ قوم روحانی طورپر تباہ ہو جائے گی ‘‘۔
مفتی عبدالرحمن نے ہیضہ کی وبا کے سبب برو ز جمعہ ۱۱، صفر المظفر ۱۳۴۸ھ ؍۱۹۲۹ء کو انتقال کیا۔ او ر اپنی تعمیر کردہ جامع مسجد کے احاطہ میں مدفون ہوئے ۔ (بروایت مولانا عنایت اللہ دھامراہ )
آپ کے وصال پر آپ کے شاگر د و خلیفہ فتح محمد احقر مرحوم نے قطع تاریخ وصال کہا:
علامہ عالمان و بالغاں دوران
سلالہ سالکان فضلاں گیھاں
محقق بافکر صائب خداداد
بفتویٰ شرع راسخ ھمچو نعمان
بزھد و ورع ابد الدہر گشتہ
ستودہ ھمچو بوذر و شان سلمان
باسم عبدالرحمن گشت موسوم
لقب او مولوی ورد جھان دان
بماہ صفر حادی عشر تاریخ
ایام عمر اوگردید پایاں
بروز جمعہ پس از پاس واحد
توجہ کرد سو گلگشت رضوان
بسی اندوہ واقع شد بعالم
زرحلت مورد الطاف یزدان
قطع کن سخن ’’احقر‘‘ از غم دل
برایش خون از غفار غفران
خدا بخشد ورا دردار عقبیٰ
مقام صالحان فردوس یاباں
’’ زرحمات خدابا خود شغل دید ‘‘
از تاریخ سالش نیز برخواں
۱۳۴۸ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)