مفتی غلام محمد قریش بن مفتی رحیم اللہ لاہوری قدس سرہ
مفتی غلام محمد قریش بن مفتی رحیم اللہ لاہوری قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ جامع اوراق (مفتی غلام سرور لاہوری) اور راقم الحروف کے والد گرامی تھے، آپ کا سلسلۂ نسبت چند واسطوں سے حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی سے ملتا ہے، آپ دینی علوم میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح شہرت یافتہ تھے اطاعت و عبادت میں بڑا وقت دیتے، ظاہری علوم میں آپ حضرت مولوی غلام رسول لاہوری قدس سرہ کے شاگرد تھے، کم کھاتے کم سوتے اور بہت تھوڑی گفتگو کرے رات کا ایک حصہ باقی ہوتا تو بیدار ہوجاتے نماز تہجد طویل قرأ ت سے ادا کرتے، نماز فجر کے بعد درود پاک پڑھتے پھر نفی اثبات کا ذکر کرتے ذکر اسم ذات میں مشغول ہوتے، دو سیپارے تلاوت کرتے اور نوافل اشراق سے فارغ ہوکر مسجد کے دروازے پر بیماروں اور محتاجوں کے حالات سنتے، طبیب کی حیثیت سے بیماروں کو دوا تجویز فرماتے درد مندوں کے لیے دعا کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا اور دوا میں شفا بخشی تھی آپ کی طبی شہرت سن کر لاہور کے دور دراز دیہات سے مریض چلے آتے تھے، آپ کا قیام موضع مزنگ میں تھا، یہاں بے پناہ لوگ حاضر ہوتے، بیماروں سے فارغ ہوکر کتابت فرماتے کتابت قرآن بطور ثواب و عبادت کرتے، دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد قیلولہ فرمایا کرتے تھے، پھر نماز ظہر ادا فرمایا کرتے نماز ظہر کے بعد پھر کتابت فرمایا کرتے تھے اسی دوران آپ کے پاس آپ کے شاگردوں کا ایک جمگٹا رہتا جسے اصلاح خوشنویسی دیتے تھے جو اہل حاجت آتا محروم نہ جاتا نماز عصر کے بعد کھجوروں کی گھٹلیاں چادرپر بچھا دی جاتیں اور آپ خود اپنے احباب کے ساتھ درود پاک پڑھتے آپ کی اس محل درود میں آپ کے شاگردوں کے علاوہ آپ کے احباب خاص ملک حیدر خان دریام خان، قاسم خان، قادر خان افغان وغیرہ شرکت کرتے تھے، شام کے بعد بعض شاگردوں کو سبق دیا کرتے تھے، آپ کا ہر کام محبت اور خلوص کا آئینہ دار ہوتا تھا۔
آپ کا وقت عزیز قرآن پاک کی کتابت میں گزرتا، قرآن پاک کی کتابت مکمل ہوتی تو تین بار اس کا مقابلہ اور موازنہ کرتے اور اغلاط کتابت کی درستگی فرماتے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ساری عمر کتابت قرآن پاک میں گزری، سن بلوغت سے آخر تک ایک نماز قضا نہ ہوئی وفات سے پہلے کی تین نمازیں جبکہ آپ پر سُکر موت اور بے ہوشی طاری تھی ادا نہ کی جاسکیں۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ بنی آدم اگرچہ سراپا گنہگار اور پرتقصیر ہیں، مگر اس فقیر گنہگار کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھا، یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بزرگان کرام کی عنایت کا ثمرہ ہے، اس جامع کمالات کی وفات ۹ ماہ ربیع الثانی ۱۲۷۶ھ کو ہوئی آپ کی وفات سے پانچ سال پہلے فالج کے شدید مرض میں مبتلا ہوئے لیکن اس مرض کی شدت کے باوجود ایک لمحہ کے لیے یاد خداوندی سے غافل نہیں رہے، ہمیشہ تسبیح ہاتھ میں رہی، اور رواں دواں رہی، زبان ذکر خداوندی اور درود پاک میں سرشار رہتے، ابتدائی مرض میں تو پورے دو سال تک اپنی چار پائی سے اٹھ کر نماز ادا کرتے تھے، بیماری کا غلبہ زیادہ ہوا تو چار پائی سے اٹھنا مشکل ہوگیا تو وضو فرماتے اور چار پائی پر تازہ اینٹ رکھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے، پورا ایک سال اسی حالت میں گزرا، پھر چار پائی پر لیٹے لیٹے نماز ادا کیا کرتے تھے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس حالت میں بھی ایک نماز قضاء نہیں ہوئی، اہل خانہ سے اوقات نماز دریافت فرمالیے اور نماز ادا کرتے۔
آپ نے اپنے درمیانی بیٹے حافظ غلام احمد (قدس سرہ) کو حکم دیا کہ وہ ہر روز بعد از نماز شام آکر ان کے پاس پانچ بار سورۂ یاسین کی تلاوت کیا کرے اور آپ کے کانوں میں یہ آواز پہنچایا کرے، میرے بھائی حافظ غلام احمد روز شام کے بعد کے آتے اور بڑی خوش الحانی سے سورۃ یٰسین پڑھتے، بلکہ سورہ ملک اور سورۂ مزمل کا بھی اضافہ کیا کرتے تھے، زندگی کے آخرین تین دن اگرچہ آپ کے جسم میں توانائی نہیں رہی تھی، تاہم آپ خود اٹھتے اور اپنے دونوں پاؤں چار پائی سے نیچے لٹکالیا کرتے تھے، اور فرماتے اس خبیث بچے کو جو میرا اور آپ لوگوں کا دشمن ہے، گھر سے نکال باہر کرو اور دروازے بند کردو تاکہ پھر اندر نہ آسکے، یہ بات دو تین بار دھراتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ شیطان لعین کی طرف اشارہ ہے ہم نے سنا ہے کہ بسا اوقات نیک بندوں کی وفات سے پہلے یہ شیطان لعین سرہانے آ بیٹھتا ہے اور بچے کی شکل میں ارد گرد گھومتا ہے اور ایمان و دین کی دولت کو لوٹنے کی تدابیر کرتا ہے چنانچہ ایسے حالت میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی جایا کرتی تھی، بعض اوقات حافظان قرآن کو بیٹھا کر تواتر کے ساتھ قرآن خوانی کرائی جایا کرتی تھی اور اس طرح آپ اس وسوسہ شیطانی سے نجات حاصل کرتے تھے۔
نزع کے وقت آپ کے ہاتھ میں تسبیح تو نہ تھی، مگر آپ کی انگلیاں حسب عادت کچھ گننے میں مصروف رہتی تھیں، لب ہلتے رہتے اور زبان پر ذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جاری ہوتا۔
یاد رہے کہ میرے والد ماجد کے چھ بیٹے تھے، دل محمد، سید محمد حسام الدین ، حافظ غلام احمد، غلام سرور (مولف کتاب خزینۃ الاصفیاء) غلام یٰسین (قدس سرھم) تین بیٹیاں تھیں، ان بیٹوں میں سے دل محمد حسام الدین اور غلام یٰسین کے علاوہ ایک بیٹی بچپن میں ہی فوت ہوگئے، مفتی سید محمد، حافظ غلام احمد اور راقم الحروف (مفتی غلام سرور) اور دو بیٹیاں حضور کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑیں آپ نے ہم تمام کو فارسی، عربی کے مختلف علوم سے بہرہور فرمایا تھا، آخر کار میرے بھائی سید محمد زیارات ممالک اسلامیہ کے لیے بمبئی کے راستے روانہ ہوئے ان کا ارادہ تھا کہ بغداد شریف اور حرمین الشریفین کی زیارت کریں مگر سفر کے دوران مٹھن کوٹ کے مقام پر پہنچے تو بخار نے آلیا، اور دوم ماہ شعبان ۱۲۸۰ھ فوت ہوئے، اس وقت (وقت تالیف کتاب) میرے بھائی بہنوں میں سے حافظ غلام احمد جو میرے بڑے بھائی ہیں، اب تک زندہ ہیں دونوں بہنوں کی شادی، حسن علی بن لطف علی قریشی اور مفتی صدرالدین بن مفتی احمد بخش بن حافظ مفتی محمدی بن مفتی رحمت اللہ (یہ تمام بزرگ میرے ہی خاندان میں سے تھے) سے ہوئی تھی اب میری اور بھائی بہنوں کی اولاد میں سے جو لوگ زندہ موجود ہیں، ان کے نام یہ ہیں۔
مفتی سید محمد کے بیٹے، چراغ دین، جلال الدین ہیں۔
مفتی غلام احمد کے بیٹے، سید علی، برکت علی ہیں۔
بڑی بہن سے فخر الدین، رفیع الدین اور امین الدین ہیں۔
چھوٹی بہن سے غلام حیدر، غلام صفدر، غلام اکبر اور محمد انور ہیں۔
تاریخ وفات قبلہ گاہی
مفتی دین غلام محمد چو از جہاں |
|
پدر ود گشت یافت بملک جناں وصال |
چو رفت از جہاں در بہشت بریں |
|
غلام محمد امین محمد |
تاریخ وفات مفتی سید محمد رحمۃ اللہ علیہ
سفر در زید چو سید محمد |
|
سوئے دارالبقا خوش حال و خوشتر |
(خذینۃ الاصفیاء)