فخر تھر ،سرمایہ ملت مفتی محمد عبدالحق چانڈیو
فخر تھر ،سرمایہ ملت مفتی محمد عبدالحق چانڈیو (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حکیم الحاج مفتی محمد عبدالحق چانڈیو بن حافظ بلو چ خان اپنے والد ماجد کے اکلوتے بیٹے تھے۔ گوٹھ راوٗ تسر تحصیل چھاچھر و ضلع تھر پار کر سندھ میں پیر کی شب ۱۰ ، ذوالحجہ ۱۲۹۱ھ کو تولد ہوئے ۔ ولادت سے چار ماہ قبل آپ کے والد ماجد انتقال کر گئے ۔
تعلیم و تربیت :
اپنے دادا جان میاں حاجی احمد خان کے پاس قرآن شریف ناظرہ پڑھا ۔ جب آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو اپنے گوٹھ سے باہر حصول تعلیم کے لئے سفر کیا۔ ابتدا میں گوٹھ رپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ ا س کے بعد حیدر آباد جا کر تعلیم جاری رکھی ۔ اس کے بعد درگاہ شریف راشدیہ پیر ان پگارہ پیر جو گوٹھ میں جامعہ راشدیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔
مدرسہ مظہر الحق والہدایہ کا قیام :
مولانا مفتی عبدالحق نے ۱۸۹۳ء میں مدرسہ رجسٹرڈ کرایا ۔ تعلیم و ترقی پر روجہ مرکوز فرمائی ۔ اور مختلف فنون کے اساتذہ کو مدرسہ میں مدرس مقرر فرمایا ۔ مدرسہ کی شہرت جب دور دور تک پہنچی تو تھر ، لاڑ ، سندھ ، الور ، جودھپور ، کچھ ، ماڑوار اور ہندوستان سے طلباء حصول علم کے لئے اس مدرسہ کا رخ کرتے تھے ۔ اس طرح بے شمار نفوس اس دارالعلوم سے دینی و روحانی علوم حاصل کر کے ملک کے اطراف میں پھیل کر دین اسلام ، مسلک حق اہل سنت ، مذہب احناف کی خدمت و ترویج و اشاعت میں مصروف ہو گئے ۔
گرلس اسکول کا قیام :
تھر ، جہاں قدم قدم پرنا خواندگی کا سامنا تھا ، اور ہر ایک قوم میں جہالت کے سبب جدا جدا رسم و رواج مروج تھے ۔ مفتی عبدالحق صاحب بیداد مغز ثابت ہوئے انہوں نے نا خواندگی کو بھانپ لیا اور جہالت و بدعت کو ختم کرنے کا واحد حل علم کی روشنی میں سمجھتے تھے ۔ اس لئے راوٗ تسر میں ’’گرلس اسکول ‘‘یکم جنوری ۱۹۳۰ء میں قائم کیا۔ یکم جنوری ۱۹۳۵ء میں تعلیم بالغان کیلئے ’’شبانہ اسکول‘‘ قائم کیا اور اس سے قبل ’’مسلم اسکول ‘‘سن ۱۹۲۰ء میں رجسٹرڈ کروالیا تھا۔
دارالافتائ:
مفتی صاحب نے دارالعلوم میں ’’دارالافتاء الشرعی‘‘ قائم فرمایا ۔ صحرائے تھر میں واحد مرکزی دارالا فتاء تھا ، جہاں سے شرعی فتاویٰ جاری ہوتے تھے ، مسلمان دینی مسائل میں رجوع فرماتے تھے ، ان کی بھر پور رہنمائی کی جاتی تھی ۔
کتب خانہ:
مفتی عبدالحق نے دارالعلوم میں ایک عظیم الشان لائبریری قائم کی جو کہ تین کمروں پر مشتمل تھی ۔ جس میں حدیث ، تفسیر ، تاریخ ، فقہ ، اصول حدیث ، اصول فقہ ، تصوف ، طب ، ادب ، انگریزی ، منطق ، فلسفہ ، جیومیٹری ، ریاضی ، سائنسی ، فقہ ائمہ اربعہ ، شیعہ کی معتبر کتب ، اخبار و رسائل ، قلمی کتب ، درسی کتب وغیرہ موجود تھیں ۔ جامعۃ الازہر مصر کی مطبوعات بھی اس کتب خانہ کی زینت تھیں ۔ مورخ سندھ خاں بہادر محمد صدیق میمن سندھ کی تاریخ رقم کرتے وقت راوٗ تسر آئے تھے اور مفتی صاحب سے ملاقات کی مشورے لئے اور اس کتب خانہ سے استفادہ بھی کیا تھا اور ’’تاریخ سندھ ‘‘کی ابتداء میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے ۔
عادات و خصائل :
مفتی عبدالحق بڑے فراخدل ، سخی مرد ، حسن اخلاق کے پیکر ، درددین سے سر شار ، ہمدرد ، مخلص صائم الدھر ، قائم اللیل ، عابد زاہد اور تلاوت قرآن مجید ، دلائل الخیرات و درود شریف ورد میں رکھتے تھے ۔ حقوق العباد کا خاص خیال رکھا کرتے تھے ۔ گوٹھ والوں پر نہایت مہربان تھے ، ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تھے ، انہیں درخواست و خط وغیرہ بھی خود فی سبیل اللہ لکھ کر دیا کرتے تھے ۔ ضرورت مندوں کی امداد فرماتے تھے ۔ آپس کی رنجشوں کو مفتی صاحب صلح صفائی سے ختم کراکے محبت کی داغ بیل ڈالتے تھے ۔ آپ کے اخلاص کی برکت سے بہت سارے خاندانی جھگڑے ختم ہو گئے ۔ شرک بدعت اور غلط رسم و رواج کے خلاف علم کی روشنی کو پھیلایا ۔ گوٹھ گوٹھ میں جا کر دین کی باتیں بتاتے ، مرجھائے ہوئے دلوں میں حب رسولﷺ اجاگر کرتے ، حج کی ترغیب دیتے ، گوٹھوں دیہات میں مسجد مکتب قائم کرائے ، زکوٰ ۃ کی رقم اپنی ذات پر اور مدرسہ پر خرچ نہیں کرتے تھے ۔آپ کی اخلاق کریمہ سے متاثر ہو کر سیکڑوں لوگ مسلمان ہوئے ۔
حلیہ:
مفتی صاحب بدن کے نحیف ، رنگ مشکی ، قد درمیانہ ، شلوار قمیض ، واسکوٹ، سر پر عمامہ شریف ہاتھ میں عصا، اور کھانہ پینا انتہائی سادہ ۔
حرمین شریفین:
پانچ مرتبہ حجاز مقدس کا سفر کیا ۔ پانچ حج کئے اور اتنی ہی باردربار رسالت مابﷺ میں نہایت عقیدت سے حاضری دی اور درود و سلام کے گجرے پیش کئے ۔
مزارات مقدسہ کا سفر :
بر صغیر کے تمام مشہور تاریخی شہروں کا سفر کیا خصوصا اجمیر شریف ، روہڑی شریف ، سیوہن شریف ، ملتان شریف ، کراچی ، بمبئی اور ہندوستان سے باہر بیت المقدس ، شام اور دیگر عرب ممالک کی نامور مزارا ت مقدسہ کی خاص زیارت کے لئے سفر اختیار کیا اور حاضری کی سعادت حاصل کر کے روحانی بالیدگی حاصل کی۔
اولاد :
مفتی عبدالحق کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد عبدالہادی تولد ہوئے ۔ آپ کے صاحبزادے نے آگے جا کر نام پیدا کیا آپ کا صحیح جانشین بنا ، آپ کی مشن کی تکمیل کی ، مولانا حکیم مفتی محمد عبدالہادی چانڈیو کے نام سے تھر میں شہرت حاصل کی۔
احباب :
مفتی عبدالحق کے احباب کی لسٹ طویل ہے ، ملک کے نامور علماء ، حکماء اور صوفیاء کرام سے ان کے گہرے مراسم تھے ۔ مثلا قاطع نجدیت ، خطیب اہل سنت مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی ۔ مولانا محمد عثمان قرآنی ، مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ ، مولانا محمد صالح سموں (میر پور خاص) وغیرہ ۔
شاعر :
مفتی عبدالحق صاحب جید عالم ، حاذق حکیم ، دینی دانشور ، نامور مفتی ، بہترین سماجی رہنما ، اعلیٰ منتظم ، بے دار مغز استاد ، عظیم واعظم ، مبلغ قرآن ، ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ نعت گو شاعر بھی تھے ۔ حضور پر نور ﷺ کے سچے عاشق ، محب صادق تھے اسی محبت کو شاعری کے الفاظ دیئے ۔ مفتی عبدالحق حضور ﷺ کے ثناء خواں تھے ۔ ااپ نے حمد ، نعت ، مولود ، منقبر اور منا جات پر مشتمل شاعر ی کی ۔ ڈاکٹر بنی بخش خان بلوچ نے آپ کے سوانحی مضمون میں آپ کی ایک نعت شریف (سندھی ) نمونہ کے طور پر درج کی ہے۔
اعلیٰ پائے کے منتظم :
مفتی محمد عبدالحق خود بھی مدرس ، حکیم ، امام ، خطیب ، اسکول کے ہیڈمعلم ،مدرسہ کے مہتمم ، مسجد کے متولی ، درویش ، عالم ربانی ، مفتی ، قاضی ، سماج سدھار رہنما اور اعلیٰ پایہ کے منتظم تھے ۔ ااپ کردار کے غازی تھے آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر جو غیر مسلم مسلمان ہوتے آپ ان کا نام تاریخ ، ماہ، سن درج کرتے جس کیلئے ایک رجسٹرڈ صرف اسی کام کے لئے رکھا ہوا تھا۔
دارالعلوم کے اساتذہ :
مولانا مفتی عبدالحق چانڈیو کے علاوہ درج ذیل علمائے کرام اس دارالعلوم میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔
٭ علامہ مولانا محمد امین گوہر ساند گوٹھ شاہو ساند تحصیل ننگر پارکر ۔ مولانا صاحب نے مدرسہ میں ۱۹۱۲ء تا ۱۹۴۱ء تک مسلسل درس دیا ۔ ۱۹۷۲ء میں انتقال کیا۔ اولاد میں صرف دونوا سے مولوی ہیں ۔
٭ علامہ مولانا عبدالحکیم درس گوٹھ سو جاویری تحصیل سانچور ضلع مولانا صاحب ۱۹۱۵ء سے مدرسہ سے وابستہ رہے اور اخیر عمر تک پڑھاتے رہے ۔ مذکورہ دونوں اساتذہ منتہی طلباء کو پڑھاتے تھے ۔
٭ مولانا حکیم حاجی مفتی محمد عبدالہادی بن مفتی محمد عبدالحق ۔ اسی مدرسہ کے فاضل تھے ، تفصیلی سوانح اپنے مقام پر ہے ۔ ۱۹۲۵ء میں مدرسہ کے مدرس مقرر ہوئے اور اخیر عمر تک پڑھاتے رہے ۱۹۷۱ء میں انتقال کیا۔
٭ مولانا عبدالغفور راھمو ، گوٹھ نئون تڑ (ہندوستان ) کے تھے ۔ مولاناصاحب اسی دارالعلوم کے فاضل اور بعد میں مدرس مقرر ہوئے ۔ کافی عرصہ مادر علمی میں پڑھایا ۔ ۱۹۴۸ء کے بعد اپنے گوٹھ گئے اور وہیں مدرسہ میں درس دیا ۔ آج بھی ان کامدرسہ جیصل آباد نزد عمر کوٹ میں قائم ہے ۔ آپ کی اولاد میں مولوی تاج محمد صاحب ہے جو کہ جامع مسجد عمر کوٹ کے مدرسہ میں قرآن شریف کی تعلیم دیتے ہیں ۔
٭ مولانا محمد صدیق راہمو گوٹھ نئوں تڑ( ہندوستان ) ۔ مولوی صاحب اسی مدرسہ کے فاضل بعد میں مدرس مقرر ہوئے ۔ مفتی عبدالحق نے مولای صاحب کو مسجد شریف کے ساتھ گھر بنواکر دیا، شادی کرائی اور حج کرایا ۔
مولانا محمد صدیق نے ۱۹۶۲ء تک مدرسہ میں درس دیا اور ۱۹۶۲ء میں انتقال کیا ۔
٭ مولانا احمد علی چانڈیو گوٹھ راوتسر بن مولانا مفتی محمد عبدالہادی نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد مدرس بنے ۔ ۱۹۳۵ء تا ۱۹۴۱ء تک مدرسہ سے وابستہ رہے۔ ۱۹۴۱ء میں انتقال کیا او ر لاولد تھے۔
٭ مولانا حاجی محمد عالم چانڈیو بن مولانا حکیم مفتی عبدالہادی اسی مدرسہ کے فاضل و مدرس تھے ۔ ۱۹۴۹ء کو مدرس مقرر ہوئے اور تاحیات درس دیا بعد میں دارالعلوم کے مہتمم بن گئے ۔
٭ مولانا محمد راجڑ گوٹھ گل راجڑ۔ مولوی صاحب اسی مدرسہ کے فاضل اور بعد مین مدرس مقرر ہوئے ۔مولوی صاحب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۹ء تک مدرس رہے ۔ اس کے بعد اپنے گوٹھ واپس چلے گئے ۔
٭ مولانا حاجی محمد عبدالحق چانڈیو گوٹھ راوٗ تسربن مولانا حاجی محمد عالم نے اسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کر کے ۱۹۶۸ء میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ بعد میں مدرس اور مہتمم مقرر ہوئے ۔ ااپ کو پانچ بیٹے ہیں ۔
تلامذہ :
دارالعلوم مظہر الحق والہدایہ راوتسر سے بہت سے علماء فارغ التحصیل ہو کر پورے تھر میں پھیل گئے ، مساجد و مدارس قائم کئے جہا ں گیتی میں علم کے دیئے جلائے اور پورے تھر کو علم کے نور سے منور کیا۔
دارالعلوم کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں نا تلافی نقصان پہنچا ، جس میں دارالعلوم کا ریکارڈ بھی ضائع ہو گیا ۔ اس کے باوجود بعض فضلا ء کے اسماء معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں:
٭ مولانا حکیم حاجی مفتی محمد عبدالہادی چانڈیو
٭ مولانا محمد سلیم واگھوریو
٭ مولانا جلال الدین ساند ساکن گوٹھ سانئوں ( اب یہ گوٹھ ہندوستان میں ہے)
٭ مولانا محمد امین چانڈیو ٹالھی حاجی جعفر خان چانڈیو
٭ مولانا معین الدین راجڑ
٭ مولانا محمد علی ساکن و جڑہاری
٭ مولانا محمد صالح ساکن و جڑہاری
٭ مولانا محمد دائد جنجھی گوٹھ صالح جنجھی
٭ مولانا عبدالغفور راہمو گوٹھ فیصل آباد نزد عمر کوٹ
٭ مولانا محمد صدیق راہمو گوٹھ راو تسر
٭ مولانا احمد علی چانڈیو
٭ مولانا محمد عالم جو نیجو تحصیل نگر پار کر ضلع تھر پار کر
٭ حضرت مولانا جلال الدین سنگر اسی بانی دارالعلوم غوثیہ گوٹھ دھا کلو تحصیل چھا چھر و ضلع تھر پار کر
٭ مولانا ھافظ شفیع محمد جو نیجو اوتسر
لیتھو پریس :
مفتی صاحب تھر کو علم کے نور سے روشن دیکھنا چاہتے تھے ۔ اس لئے دین اسلام مسلک اہلسنت وجماعت کی اشاعت کے لئے لیتھوپریس خرید کردارالعلوم کے ایک کمرے میں نصب کیا ۔ بعض کتب اس پریس سے چھپ کر عام ہوئی ۔ علمی کتب کی اشاعت کا مستقل پروگرام تھا لیکن زندگی نے وفانہ کی ۔
شفا خانہ:
مفتی عبدالحق نے قحط زدہ علاقہ تھر میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو جسمانی طور پر بھی صحت مند دیکھنا چاہتے تھے اور مفت علاج کے ذریعے ان کے دکھوں کو بانٹنا چاہتے تھے ۔ آخری عمر تک انسانوں کی خدمت میں پیش پیش رہے۔
دواخانہ اور دوا سازی :
مفتی صاحب جڑی بوٹیوں سے موسم گرم اور سرد کے مطابق خود دوائیں تیار کر تے تھے ۔ گشتہ و معجون و شربت بناتے تھے اور ہر دوا میں آب زم زم شریف کے قطرے تبر کاملاتے تھے ۔ ریگستان کا پورا علاقہ اسی دواخانہ سے مستفید ہوتا رہا۔
پوسٹ آفس:
انگریز گورنمنٹ میں راوتسر میں پوسٹ آفس قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ بالآخر کوشش رنگ لائی اور ۱۹۱۵ ء میں برانچ پوسٹ آفس قائم ہوئی ۔ پوسٹ کے قیام سے راوتسر کا ہندوستان کے دیگر علاقوں سے رابطہ ہوا، عوام الناس کے لئے آسانیاں پیدا ہوئیں ۔ دواخانہ کے لئے دوائیں اور لائبریر ی کے لئے کتب مصر ، حجاز مقدس ، دہلی ، بمبئی ، احمد آباد ، لاہور اور کراچی وغیر ہ سے آسانی سے پہنچ جاتی تھیں ۔
وصال :
مولانا حکیم الحاج مفتی محمد عبدالحق نے ۶۷ سال کی عمر میں ۱۳، شعبان المعظم ۱۳۵۸ھ مطابق ۲۸، جنوری ۱۹۳۹ء کو اس فانی جہاں سے انتقال کیا۔ اپنے قائم کردہ مرکز میں آپ کی مزار مرجع خلائق ہے ۔ آپ کے پوتے مولانا احمد علی بن مفتی عبدالہادی چانڈیو نے سندھی میں قطع تاریخ وفات کہا۔
(ماخوذ:سہ ماہی مہران جامشورو ص ۲۵، ۱۹۹۵ء مضمون نگار: ڈاکٹر بنی بخش خان بلوچ صاحب ، مضمون کی فو ٹو اسٹیٹ کاپی حافظ عبدالرزاق مہران سانگھڑ نے فراہم کی فقیر ممنون ہے)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)