شیخ الحدیث مفتی محمد حسین قادری
شیخ الحدیث مفتی محمد حسین قادری (تذکرہ / سوانح)
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو الخیر محمد حسین قادری بن محمد بہادر حسین کھتری ایک بلند پایہ عالم دین اور سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی آراستہ تھا۔ جو شخص ان سے سیک بار مل لیتا گرویدہ ہو جاتا تھا ان کی طبیعت میں حلم حوصلہ اور بلا کا صبر تھا ۔وہ ایک صاف دل صوفی منش انسان تھے انہیں ناراض کرنے والا بہت آسانی سے منا لیتا تھا۔ وہ اپنوں پر مہر بان اور دشمنان دین کے لئے شمشیر بے نیام تھے وہ سادہ مزاج تھے مگر دینی معاملہ میں بہت دانا ہوشیار تھے، انہیں دنیوی معاملات میں نقصان پہنچانا ممکن تھا مگر دینی معاملات میں انہیں دھوکہ دینا ممکن نہیں تھا۔ جہاں وہ ایک بہترین مدرس تھے وہاں وہ خوش الحان مقرر بھی تھے۔ قصیدہ بردہ شریف ان کی خاص پہچان تھا، وہ جذب و مستی کے عالم میں جب قصیدہ بردہ شریف پڑھتے تھے تو سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ مفتی صاحب نے ۹ ، ستمبر ۱۹۳۲ ء میں ریاست مالوہ ( انڈیا ) کے ایک قصبہ سمبلیا میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے سکھر ( سندھ ) وار ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم فارسی و عربی کی اندور ۔ اجین ( انڈیا ) پھر سکھر میں حاصل کی۔
کچھ عرصہ دارالعلوم امجدیہ ( آرام باغ ) کراچی میں پڑھتے رہے پھر محدث اعظم پاکستان استاد الاساتذہ ، صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد لائلپوری ؒ کی خدمت میں فیصل آباد حاضر ہوئے جہاں انہوں نے کتب عالیہ موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کے پاس دارالعلوم مظہر الاسلام فیصل آباد میں دورہ حدیث شریف پڑھا ۔ ۱۹۵۶ء میں علوم دینیہ سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت محدث اعظم ، شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مفتی رضوان الرحمن ، مولانا حمید اللہ ، مفتی ابو سعید محمد امین فیصل آبادی ، مولانا ولی النبی اور مفتی ظفر علی نعمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
شادی خانہ آبادی :
۱۹۵۶ء میں پہلی شادی کی ۔ اولاد دنہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کی ۔ ۱۹۵۷ء میں محدث اعظم کے حکم پر آپ نے سکھر میں مدرسہ قادریہ میں درس کا آغاز کیا۔
جامعہ غوثیہ رضویہ کا قیام :
۱۹۵۸ء میں فریئر روڈ پر واقع اپنے ذاتی مکان میں جامعہ غوثیہ رضویہ کی بنیاد رکھی ۔ رفتہ رفتہ جب طلباء کی تعداد بڑھی اور مدرسہ کی مختصر عمارت طلبہ کی تعداد کے مقابلہ میںکم پڑنے لگی تو محلہ باغ حیات علی شاہ کی ایک بوسیدہ عمارت میں جامعہ غوثیہ کو شفٹ کیا گیا۔ ۱۹۷۴ ء میں اس قدیم عمارت کو گرا کر ایک نئے علمی گہوارہ کی بنیاد قائد اہلسنت عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مدظلہ العالی سے رکھوائی گئی۔ اس جامعہ سے ہزار ہاتشنگان علم نے فیض پایا اور آج کشمیر سمیت وطن عزیز کی تمام صوبہ جات میں جامعہ غوثیہ رضویہ کے فارغ التحصیل علماء ، قراء ، حفاظ ، دین متین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔
سفر حرمین شریفین :
چار بار حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی اور کئی عمر ے کئے ۔ پہلا حج ۱۹۶۸ء میں کیا ۔ متعدد بار بیرون ممالک کا تبلیغی دورہ کیا۔ مثلایو کے ، ساوٗ تھ افریقہ ، مصر، ایران ، افغانستان ۔
دورہ مصر کے دوران صاحب قصیدہ بردہ شریف امام شرف الدین بوصیری ؒ کے مزار پر حاضری دی جمعۃ المبارک کا دن تھا مزار شریف سے متصل جامع مسجد کے خطیب صاحب نے آپ کو نماز جمعہ کی امامت و خطابت کی دعوت پیش کی۔ آپ نے قبول کرتے ہوئے شرح قصیدہ بردہ عربی زبان میں بیان کیا اور ترنم سے اشعار بھی پڑھتے جاتے اور حاضرین بھی بیک آواز آپ کے ساتھ پڑھتے ۔
بیعت و خلافت:
زمانہ طاب علمی ہی میں شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم حضرت مفتی اعظم حضرت علامہ مصطفی رضا خان بریلوی ؒ ( ۱۹۸۰ء ) کے دست کریم پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ اسی لئے ’’قادری ‘‘ کہلائے ۔ اس کے بعد اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ اس کے علاوہ حضرت علامہ مفتی خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ الاقدس ( خانقاہ عالیہ مشوری شریف ) کے نہایت عقیدت مند تھے اور اکثر آستانہ عالیہ پر حاضری دیتے تھے اور اپنے فتاویٰ پر تصدیق لیتے رہتے تھے۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ اور ان کے تلامذہ ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہیں جو آپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں ۔
٭ مفتی غلام سرور قادری
مہتمم : جامعہ غوثیہ لاہور ، سابق صوبائی وزیر اوقاف حکومت پنجاب
٭ مفتی محمد اشفاق رضوی
مہتمم : مدرسہ غوثیہ جامع العلوم خانیوال ، حال مقیم برطانیہ
٭ مفتی غلام محمد قاسمی
مہتمم : جامعہ غوثیہ قاسمیہ کو ئٹہ
٭ مولانا حبیب احمد نقشبندی
مہتمم : جامعہ اسلامیہ نور یہ کوئٹہ
٭ مفتی محمد شریف خان
خطیب جامع مسجد روہڑی
٭ مفتی محمد ابراہیم قادری
جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر
٭ مفتی عبدالحفیظ برکاتی
خطیب جامع مسجد صدر حیدرآباد
٭ مولانا نصر اللہ قادری
مہتمم جامعہ غوثیہ لطیفیہ شکار پور
٭ مولانا شمیم الحسن قادری
سوئی ، بلوچستان
٭ مولانا محمد الیاس رضوی
مہتمم : نضر العلوم و خطیب حنفیہ مسجد رنچھوڑ لائن کراچی
٭ مولانا قاری خیر محمد قاسمی
خطیب جامع مسجد شیخ زید لاڑکانہ
سیاست:
۱۹۷۰ ء میں سیاست میں قدم رکھا، ملک سے لاقانونیت ، عدم انصاف ، ظلم ، مہنگائی ، بے حیائی ، عریانی ، فسق و فجور کو ختم کر کے ملک کو امن و سلامتی ، عدل و انصاف ، اسلام کا بول بالا کرنے ، نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے لئے حجرے سے نکل کر میدان میں آئے اور زندگی بھر اپنے مقصد کے لئے کام کرتے رہے ۔ ۱۹۷۰ ء میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ۱۹۷۱ء میں جنرل ضیاء الحق کی ’’مجلس شوریٰ ‘‘ کے ممبر ہوئے ۔ زندگی بھر جمعیت علماء پاکستان سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔ اور ۱۹۹۵ء سے تادم و صال جماعت اہلسنت پاکستان سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اور ۱۹۹۵ء سے تادم وصال جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ سندھ کے امیر رہے۔
تصنیف و تالیف :
مفتی صاحب کو مر وجہ دینی علوم میں دسترس حاصل تھی ، انہوں نے تقریبا ہر فن کی کتاب پڑھائی مگر انہیں زیادہ تر فقہ و حدیث سے لگاوٗ تھا۔ درس حدیث شریف تو ان کی روحانی غذا تھی، وہ شدید علالت کے ایام میں بھی صحیح بخاری پڑھاتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فقہ میں ایک خاص بصیرت سے نواز تھا۔ یہی وہ مصروفیات ہیں جن کے سبب انہیں تصنیف و تالیف کا وقت کم ملا۔ آپ نے کافی تعداد میں فتاویٰ تحریر فرمائے تھے ، اگر ترتیب و تدوین کا کام کیا جائے تو ’’فتاویٰ قادریہ ‘‘ کا ایک دفتر بن جائے ۔ ان کے علاوہ ایک کتابچہ ’’فاتحہ کا طریقہ ‘‘ آپ کی تالیف ہے جو کہ عرصہ سے مختلف مقامات سے سیکڑوں بار شائع ہوا ہے۔ ملک العلماء ، علامہ ظفر الدین محدث بہاری ؒ نے فقہ حنفیہ کے متعلق کتب احادیث سے احادیث جمع و ترتیب کا کام کیا تھا وہ کتاب ’’صحیح البھاری ‘‘ کے نام سے شہرت رکھتی ہے یہ چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی جلد کا آپ نے ترجمہ شروع کیا تھا۔
وصال :
آپ ۱۸ برس سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے ۸ ماہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد ۱۱، رمضان المبارک ۱۴۱۹ بمطابق ۳۱، دسمبر ۱۹۹۸ء بروز جمعرات بعد نماز فجر لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں وصال فرمایا۔ اگلے روز ( جمعۃ المبارک ) جامعہ غوثیہ رضویہ کے دارالحدیث میں ہزاروں عقیدت مندوں کی آہوں اور سسکیوں میں یہ آفتاب علم و فضل غروب ہو گیا۔
بندہ خیرالوریٰ وہ عاشق غوث و رضا
نازش علم و عمل رشک زماں جاتا رہا
(ماخوذ: روز انمہ یاد گار سکھر کا خاص شمارہ فروری ۱۹۹۹ء ۔ القول الصحیح کے آخری صفحات )
محترم صابر براری قطعہ تاریخ یوں پیش کرتے ہیں :
وہ قادری و رضوی و شیخ الحدیث تھے
بے شک وہ اہل حق کے تھے محبوب رہنما
درس حدیث دیتے رہے ہیں وہ عمر بھر
ان کے تلامذہ ہیں جہاں بھر میں جابجا
پاتی رہے گی خلق اس سے فیض مدتوں
دارالعلوم ان کا ہے سکھر میں برضیا
’’صابر‘‘ ہے دل سے آج ہر اک شخص مدح گو
مفتی، چشم شاد محمد حسین کا
( ۱۴۱۹ھ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )