مفتی محمد مشرف احمد رضوی
مفتی محمد مشرف احمد رضوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ مفتی محمد مشرف احمد رضوی مظہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت اور تعلیم
حضرت مولانا مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمۃ دہلی میں پیدا ہوئے، حفظ قرآن اور تجوید وقرأت کی تکمیل کے بعد ۱۳۵۱ھ؍۱۹۲۳ء میں مدرسہ عالیہ مسجد جامع فتحپوری دہلی سے علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند تکمیل حاصل کی، اس کے ساتھ ساتھ فن طب میں سند حاصل کی، اورمہارت تامہ پیدا کی ابتدا میں کچھ عرصہ دہلی میں رہے اور مسجد جامع فتحپوری میں نائب مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر قصبہ نوح میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں استاد ودینیات مقرر ہوگئے۔ چند سال یہاں گزار کر پھر دہلی تشریف لے آئے اور یہاں مسجد شیخان (باڑہ ہند وراؤ) میں خطیب مقرر ہوئے۔ سالہا سال فرائض خطاب اور امامت انجام دیتے رہے اس کے علاوہ مطب بھی فرماتے۔
علم وفضل
مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمہ فن قرأت، حف قرآن کریم، علوم عربیہ، بالتخصیص فقہ اسلامی پر کمال رکھتے تھے اور اپنی مثال آپ تھے۔ تقریباً تیس سال تحریر فرماتےرہے، جو نہایت فاضلانہ اور تحقیقی وکاوش کا نتیجہ ہوتے تھے اس کے علاوہ مختلف علمی رسائل میں مضامین بھی تحریر فرماتے رہتے تھے۔ مفتی محمد مشرف احمد کے علمی وفقہی اور مذہبی نگار شات کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم مجلدات تیار ہوسکتی ہیں۔ مگر آپ خوموشی کے ساتھ خدمتِ دین میںم صروف تھے۔
فن تقریر گوئی
علامہ مفتی محمدمشرف احمد کی تقریرکا خاص ملکہ حاصل تھا۔ طبیعت نکتہ رس پائی تھی، کئی کئی گھنٹے فاضلانہ اور علمانہ تقریر فرماتے ۔ تبلیغ وارشاد کے فرائض بھی دیتے تھے۔ مفتی محمد شرف احمد کے دست حق پرت پر بہت سے غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔
بیعت وخلافت
مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمہ علوم ظاہری کے ساتھ ساتھے علوم باطنی میں بھی کمال رکھتے تھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدیہ میں حضرت مولانا رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ خلافت واجازت حضرت مولانا مفتی محمد مظہر اللہ علیہ الرحمہ (والد ماجد) نے نوازا تھا [1] ۔ اور سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں حضور مفتئ اعطم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے خلافت واجازت مرحمت فرمائی [2] ۔ مفتی محمد مشرف احمد کے بکثرت مریدین و معتقدین ہیں۔
فنِ طب میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے مطب سے بیشمار مریض فیضیات ہوتے تھے۔ طبیعت بے نیاز انہ اور فقیرانہ پائی تھی۔ علاج پُر تاثیر تھا تعویذات وعملیات میں بھی کمال حاصل تھا۔ بفضلہٖ تعالیٰ زیارت حرمین شریفین اور حج بیت اللہ شریف سے بھی مشرف تھے۔ تقریباً بیس سال تک تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ مفتی محمد مشرف احمد کی نگار شات کے مطالعہ سے زبان دانی اور بے پناہ قوت اظہار کے ساتھ ساتھ تبحر علمی اور تحقیقی شان کا اندازہ ہوتا ہے۔
نمونۂ کلام
علامہ زمخشری جنات کے وجود کے قائل نہ تھے۔ زمانہ حجۃ الاسلام امام غزالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا، جنات آپ کی خدمت میں آکر مستفیض ہوا کرتے تھے۔ ایک روز آپ نے جنات سے دریافت فرمایا۔ آج کل کیا کیا ہورہا ہے؟ اس کے جواب میں علامہ زمخشری کا ذکر آیا۔ عرض کیا حضور زمخشری قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں جو نصف تک پہنچ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو کچھ لکھا ہے وہ یہاں لے آؤ۔ چنانچہ وہ لے آئے۔ آپ نے اس کی نقل کرواکے اپنے پاس رکھ لی، اور اصل کو وہیں رکھوادیا۔ پھر زمخشری جب آئے تو آپ نے وہ نقل دکھائی دیکھتے ہی حیرت میں رہ گئے۔ کہنے لگے اگر یہ تفسیر اپنی بتاتا ہوں تو تعجب یہ ہے کہ میرا نسخہ دوسرے تک پہنچا کیسے۔ حالانکہ میں نے اس کو نہایت حفاظت کے ساتھ مقفل کر کے رکھا ہے۔ اور اگر کسی دوسرے کی کہوں تو معافی کثیرہ الفاظ کثیرہ اور ان کی وضع و ترتیب کس کس چیز میں اور کہاں تک نوار دمانوں عقل کچھ کام نہیں کرتی، آپ نے فرمایا، یہ تفسیر تمہاری ہی ہے جنات نے لاکر دی ہے۔ تو پھر علامہ زمخشری کو جنات کے وجود کا قائل ہونا پڑا۔ (روح البیان ص ۴، ج۱)
واضح ہوکہ خطیب کا ساعمین کو مواجہ میں ہونا مسنون ہے اور یہ آلہ (لاؤڈ اسپیکر ) خطیب کی مواجہت میں بلا ضرورت حائل ہوکر سنت مواجہت کا مزاحم ہوتا ہے۔ اس طرح سامعین کا خطیب کے مواجہ ہونا مسنون ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ خطیب سے دائیں بائیں جانب ہیں ان کا بھی خطیب کی جانب رُخ کرنا سنت ہے۔ اس آلہ کے استعمال کی صورت میں سنت بھی مفقود ہوتی ہے کہ اب خطیب کی جگہ خود یہ آلہ اس کا قائم مقام ہوگیا ہے۔ اگر چہ سامعین کی طرف سے رد گرواں ہے۔ مگر خطیب کے فرائض تو وہی انجام دے رہا ہے۔ نیز خطیب کا کھڑا ہونا بھی سنت کے درجہ میں ضروری ہے۔ اس آلہ کے ہوتے ہوئے یہ ضرورت بھی ایک حد تک باقی نہ رہتی۔ خطیب کے مشروع وغیر مشروع حالات کا دور تک معائنہ و مشاہدہ ہو سکے اور اس کے جذبات عالیہ قوم پر اثر انداز ہوسکیں یہ آلہ اس سنت کے بھی بعض مقاصد میں مزاحم ہے [3] ۔
اولاد امجاد
مفتی محمد شرف احمد علیہ الرحمہ کے چار صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ہیں سب سے بڑے صاحبزادے مولوی محمد میاں نے علوم عقلیہ و نقلیہ میں مکمل سند مدرسہ عالیہ مسجد فتح پور دہلی سے حاصل کی ہے۔ مولوی محمد میاں بڑے ذہین و فطین اور فاضل وعالم جوان ہیں۔ حافظ قرآن اور علم تجوید وقرأت میں بھی پورا کمال حاصل ہے۔ علوم مغربیہ میں بھی درک ہے۔ فنِ طب میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ تشخیص وتجویز ماہرانہ ہے۔
دوسرے صاحبزادے مولوی احمد میاں ہیں، حافظ قرآن ہیں۔ اور علوم عربیہ کی تحصیل باقی ہے۔ باقی صاحبزادگان بھی حافظ قرآن ہیں اور علوم عربیہ وفاسیہ حاصل کر رہے ہیں، مفتی محمد مشرف احمد کے ایک داماد ہیں جناب قاری ڈاکٹر محمد رضوان اللہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں دینیات کےپروفیسر ہیں۔ اور بڑی خوبیوں کے مالک ہیں [4] ۔
مسجد فتحپوری کی امامت
حضرت مفتی مظہر اللہ علیہ الرحمہ شاہی امام مسجد فتحپوری دہلی نے ۱۹۴۷ء سے مولانا محمد احمد علیہ الرحمہ کو اپنا قائم اور نائب بنالیا تھا۔ پھر ایک بزرت کی تحریک پر ۱۹۶۰ء میں مولانا محمد احمد کی جگہ حضرت مفتی محمد مشرف احمد کو نائب و قائم مقام بنایا گیا۔ م گر عملاً حضرت مفتی محمد مظہر اللہ کی حیات میں تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں مولانا محمد احمد نیابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۱۹۶۶ء میں دہلی کے خود مختار ادارے سنی مجلس اوقاف نے مولانا محمد احمد کو مفتی محمد مظہر اللہ علیہ الرحمہ کی جگہ امام وخطیب مقرر کر کے اطلاع دیدی۔ مفتی محمد مظہر اللہ نے اس فیصلے ک و قبول کرتے ہوئے خاموشی اختیار فرمائی۔ اسی سال مفتی مظہر اللہ نے وصال فرمایا۔ وصال کے بعد امامت کے فرائض مفتی محمد مشرف احمد انجام دینے لگے۔ مگر سنی مجلس اوقاف نے آپ کی امامت کو تسلیم نہ کیا اور آپکو سبکدوش ہونا پڑا۔ آج کل مسجد فتحپوری کی امامت وخطا بت کے فرائض مولانا محمد احمد کے فرزند اکبر مولانا محمد مکرم احمد انجام دے رہے ہیں، موصوف صاحب علم وفضل بزرگ ہیں۔ مفتی محمد مشرف احمد کے صاحبزادے مولانا مفتی محمد میاں ثمر دہلوی مسجد شیخان باڑہ ہند وراؤد دہلی میں امامت وخطابت فرمارہےہیں۔ جہاں مفتی محمد مشرف احمد برسوں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ موصوف صاحب علم، حافظ وقاری اور خطیب ہیں [5] ۔
مکتوب اول
ماہر رضویات محقق وقت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد دامت برکاتہم القدوسیہ نے راقم کی درخواست پر یہ چند مکتوب مہیا فرمائے۔ جو مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمہ نے ماہر رضویات مدظلہ کے نام لکھے تھے۔
عزیز مہجور ابریز تدر مقصود وقلب تقور اخی مسعود باحمد رب غفور سلمہ الودود وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
دستی وعکسی تہنیت نامہ پہنچا آنکھیں کھُل گئیں کہ عید ایسی جیتی جاگتی گوناگو جلوے دکھاتی برنچ والم کیف وسرور کے نغمے گاتی بجاتی آئی ہے۔ انتخاب عجیب وانشاء غریب کا کیا کہنا، طبقۂ غربائے مساکین متفق اللسان ہیں کہ غریبوں کی کیا عید، عید تو دولت مندوں کی ہے کہ ہزاروں ہزار کیف وسرور سے معمور اور بھر پور ہوتی ہے او کوئی کہتا ہے کہ سب سے زیادہ پر لطف عید آفت رسیدہ اور غمزدہ کی ہے جو عید کے دن دولت صبر وشکر سے نواز ا گیا، گویہ قول ایک تہنیۃ مکنونہ ابلغ من التصریح ہے۔ مگر عزیزی من وطن واصل مسکن دھبی کی رہائش کو غربت سے تعبیر کرنا ایک غیر معمولی مخزون ومکنون غم واندوہ کا ن شان ہے۔ جب تک غم واندوہ کی بیخ کُنی نہ ہوجائے صبر وکشر کی تکمیل نہیں ہوتی، حقیقی صبر وشکر کی نشانی رضا وخوش ہے۔ دیکھو ایک شاعر کیا کہتا ہے؎
ضیئاً لارباب النعیم نعیمھا
واللعاشق المسکین ما یتجرع
اس شعر میں بھی رضا کا پہلو کما حقہ روشن نہیں دوسرے عاشق نے اس کو خوب واضح کردیا ہے۔ کہتا ہے:
اس کو دیکھو جسکی نظروں میں یہ غم آکر بسے
زخم یہ وہ ہے کہ صحت پر یہ کہہ کہہ کر ہنسے
تازہ دارد زخم دل فیض نمکدان کسے
سبر شد نخل مرا داز آپ پیکان کسے
اس عیب جوئی سے آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ مہ جبینوں کے رپخ روشن پر اگر کوئی کا لاداغ ہوتا ہے توہ وہ بدنما نہیں معلوم ہوتا بلکہ حسن وبالا کردینے والا ہوتا ہے۔ انقلاب حاضرہ کی ایک نیرنگی جو کسی وقت آپ کے پیش نظر کی گئی تھی۔ غالباً اس کو آپ نے فراموش فرمادیا۔ ورنہ آپ کو موازنہ عید غریب وعید وطن کے قصور وتحریر کی زحمت کا فیصلہ کر کے دونوں ملکوں میں اپنے احباب وقرباء کا جائزہ لیا جائے تو غریب وطنیت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ مکان مکین کا تابع ہے نہ مکین مکان کا جو مقام مفیمینی ومطمئنی اعزاء واقرباء سے پر ہو یقیناً وطن سکونت ہے، اور جو مقام ان سے خالی ہو گذر گاہ غربا ہے۔ دونوں ملکوں کے اعزاء وقربا سب کے جائزہ کا مختصر واجمالی خاکہ یہ ہے کہ بہن بھائی وہاں بھی اور بہن بھائی یہاں بھی علیٰ ہذا القیاس خالہ ناموں یہاں، نافی وہاں دادی یہاں، والد ماجد وہاں دو۲ پھوپھیاں؎
لذکو مثل خط الانشین فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتان
وہاں بہنوئیوں کا وجدان یہاں فقدان، وہاں احباب کی کثرت، یہاں قلت، وہاں جاگیردار، یہاں کرایہ دار، وہاں عزت یہاں عسرت وہاں ذلت یہاں رجا، یہاں خوف وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
ایسی صورت میں احد الوطنین میں ترانۂ غربت کیسے موزن ہوسکتا ہے۔ خصوصاً جبکہ اسکا ایسی دلر بائی حاسل ہوکہ وطن آخر سے ہزار ہا فرزندان وطن برابر کھینچے چلے جارہے ہیں اور جو کھینچ نہیں سکتے ان کی آنکھیں اسی دلبر باوطن کی طرف لگی ہوئی ہیں اور دل ب ھی عالم چناں میں اسی وطن کے احباب کے سایۂ شب و روز گل گشت کرتا رہتا ہے۔ ایسے دلربا اور پر فضا وطن کی عید کی ہمسری بھال اُجڑے ہوئے دیار کی عید کب کر سکتی ہے۔ مگر نہیں یہاں برابری اور ہمسری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ زندہ دل حضرات کی شان کے لائق ایسے ہی اُجڑے وطن کی عید ہے۔ کل حزب بمالدیھم فرحوند
تہنیت نامہ کے آخر میں حد سے زیادہ تاخیر جواب کی شکایت نہایت دل لبھانے والے انداز میں کی گئی ہے، یہ شکایت ایک ح د تک تو بجاودرست ہے۔ لیکن اہم ضروری مصروفتیوں کے آگے ایسی شکائیتوں کے کواکب و نیرات مستور بماند ہوجاتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے میں بسایتین مکاتب کی دلچسپ سیر و تفریح کے سایۂ سایۂ ایسے امر ضروری کا متلاشی رہتا تھا جس کو ضروری مشاغل پر تقدم حاصل ہوا اگر کسی گلزار مکتوب میں کوئی بھی گل مقصود ایسا ہو تو فاوراً بلا تاخیر منتظر جواب اپنے مقصود سے مسعد ہوتا مگر سوائے دلچسپ ملاقات وعلیک سلیک کوئی امر ضروری الجواب مین نہ پایا رہی معنوی ملاقات وعلیک سلیک کوئی تو یہ بلاواسطہ نہیں تو بالواسطہ حاصل ہوتی رہی۔ اس لیے آتشِ شوق واشتیاق فد ہوتی رہی، ماہ صیام کی آمد پر تفسیر وحدیث کے مطالعہ ویبنا کے سلسلہ مشغلہ سے فرصت ملی تو احباب وقرباء کے چند خطوط کے جواب لکھنے کے لیے نکالے خیال تھا کہ ۱۵؍تاریخ تک تھوڑی تھوڑی فرست میں سب کی شکایت کا تدارک ہوجائے گا۔ مگر اب کے سال خلاف معمولی پہلے ہی سے خطونکا سلسلہ شروع ہوگیا اور اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور بعد انصرام ماہ صیام سب سے پہلے براور معظم جناب بھائی محمود وصاحب کے مکاتیب ثلٰثہ کا جواب پیش کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ ایک کا بھ ی جواب مکمل نہ دے سکا۔ بعد ازاں آپ کی جانب رفع شکایات کے لیے متوجہ ہوا۔ فیصلہ شدہ حتمی اور یقینی امر تھا حسن اتفاق کہ اسہی وقت تہنیت نامہ پہنچا ہے جسے جواب کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیا۔
یہ سب طول طویل قصہ آپ کے انتظار جواب کی کلفت دور کرنےکے لیے لکھ اگیا۔ مگر آپ یہ بتائیں کہ جواب کا انتظار زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے یا کسی مقصود و مسعود کی آمد کا انتظار۔ اگر اہل انصاف کے سامنے یہ مسئلہ رکھا جائ ے تو وہ یقیناً یہی فیصلہ صادر فرمائیں گے کہ ثانی الذکر انتظار کی تکلیف اول الذکر انتظار کی تکلیف سے دو چار نہیں، بلکہ ہزار درجہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ للہ آپ اپنے صحیح اور واقعی ارادہ آمد سے مطلع فرمائیں۔ تجلف ارادات کے تواتر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سر زمین پاکستان فولادی ارادوں کے لیے متفاطیس بن گئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر آپ کی آمد ایک خواب پریشاں نظر آتی ہے۔ آپ کے خط میں مکرمہ معظمہ جنابہ دادی صاحبہ کی خیریت سے ضرور مطلع فرمائیں۔ اور ان کی خدمت بابرکت میں ہم سب کا سلام و نیاز پیش فرمائیں۔ اور پھوپھا صاحب و عمتیق محترمین کی خدمت میں بھی جمیع اہل خانہ ہم سب کی جانب سے حسب مراتب سلام و دعا پیش فرمادیں۔ والسلام
احقر مشرف احمد عفی عنہ بروز جمعہ ۵؍شوال المکرم ستمبر ۱۹۴۹ء
مکتوب دوم
اخی الاغر جبین اعززا وعلماء حلماء وکاممن العبرالی الرضا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مرقع رنج وملال موصول ہوا۔ دل بیقرار سینہ فگار آنکھیں، اشکبار، ہوئیں۔ نامۂ غم اندوہ نے تمام مشاغل سے ہمہ وجوہ یکلخت اپنی طرف جذب کرلیا، اور اس امر پر مجبور کردیا کہ جلد از جلد تسلی نامہ ارسال کیا جائے۔ عزیز من یہاں سب کی ظاہراً وباطناً ہر طرح یہی کوشش ہے کہ آج آپ حضرات سے جلد ملاقات ہو۔ لیکن جب تک اس میں کامیابی نہ ہو اس وقت تک آپ حضرات کی دوری متقضائے مشیئت ہے جس پر ہزار ہانز ویکیاں اور کروڑہا ملاقاتیں قربان ہیں کہ مرضئ مولانا از ہمہ اولیٰ، عقلاً ونقلاً ہر طرح مسلم، ہے، قدرت بچہ سے ماں کا دودھ چھٹاتی ہے تو ساری دنیا بلکہ سارا عالم اسی فطام عقل میں بھی طفل کے لیے صدہا حکمتیں مضمر پاتا ہے، بلکہ آئندہ وہی طفل اس خطام ناگوار کو سراہتا ہے، اور اپنی طفلی پر مسکراتا ہے۔ عزیز من ذرا اس حدیث قدسی کو تو دیکھو یہ تم ہارے لیے کیسی بشارت عظمیٰ ہے۔
انا عند المنکسرۃ قلوبھم
اگر احباب کا قرب نہیں تو اس کا نعم البدل تو دیکھو کیسا عظیم الشان نصیب ہوا۔ اور امام الناصحین علامہ اجل حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے شعر کا ظاہری مطلب سقیم ہے جو تمہارے قلب حزیں کی علیہ شکایت کی شکایت کرتا ہے۔
اے وارث جد امجد مسعود احمد، حبیب احمد اس شعر (دوستاں رالخ) کو میزنا قرآن میں تو لو اور محک فرقان پر کھو، تو اس کا جو ہر اصل آشکا را ہو۔
قال اللہ تعالیٰ ولا یحسبن الذین کفرو ا انما علی لمھخیر لانفسھم انما علی لھم لیزدادوا اثما ولھم عذاب محین
وقال تعالیٰ ام نجعل الذین اٰمنو وعملو الصٰلِحٰت کالمفسدین فی الارض ام ن عجل المتقین کالفجار۔
بھال نوازش خدا وندی سے دشمنانِ دین کو کیا تعلق۔ اس کی نوازش تو دوستوں ہی کے ساتھ مخلوص ہے۔
قال علیہ السلام واذا ا احب اللہ عبد اتبلاءہ فان جبن اجتباہ وان رضی اصطفاہ اوکما قال علیہ السلام
قلت فرصت کے سبب گو زیادہ کچھ نہ لکھا جاسکا۔ تاہم مولائے تعالیٰ کے لطف وکرم سے اُمید واثف ہے کہ یہ عجالۂ مختسر نشتر انقلاب کے زخمی دل وخستہ جگر کے لیے مرہم کا فوری ثابت ہوگیا۔ اور آپ سے بھی زیادہ عزیز فاضل بے عدیل مولوی منظور احمد سلمہٗ اللہ تعالیٰ دعا فاۃ واقبا اس شربت روح افزا سے خاص کیف و سرور حاصل کریں گے۔ گوا نہیں تحریر میں إخاطب نہیں کیا گیا۔ مگر انداز تحریر سے وہ تاڑ لیں گے کہ مضمون مکتوب میں وہ خصوصاً مضمون و ملحوظ ہیں، اب آخر میں آپ حضرات سے رخصت ہوتے ہوئے ان بیقرار خوردو کلاں کو سلام و دعا لکھ رہا ہوں۔ جن کو آپ کے مکتوب نے تڑپادیا یہ سلام و دعا مع الأداب والکرام سب سے پہلے دادی صاحبہ دام مجدھا پھر پھوپھا صاحب کے پھر عمتین محترمین پھر درجہ بدرجہ سب کی خدمت میں تحریر ہے۔ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ والسلام علیکم وقلوبنا لدیکم، گو جواب تمام مشاغل چھوڑ کر لک لیا تھا۔ مگر مشاغل چھوڑ کر لکھ لیا تھا۔ مگر مشاغل نے ایک اژ دھام کیا اس لیے اسکی روانگی میں ایک روز کی تاخیر ہوگئی۔ آپ کا خط جمعہ کی شام کو موصولہوا اور یہ اتوار کو روانہ ہورہا ہے۔
احقر مشرف احمد عفی عنہ
شنبہ ۲۰؍ربیع الثانی مطابق ۱۹؍فروری ۱۹۴۹ء
مکتوب سوم
اخی المحجوب عزیز الوجود مولوی مسعود احمد صاحب سلمہٗ الودود و
علیکم السلام وورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
قلبی وقلمی نقش و نگار اور فرح وانبساط سے آراستہ وپیراستہ اپ کا عید کارڈ مردہ دلوں میں روح انسباط پھونکنے والا موصول ہوا، گو باسی سہ باسی کے بعد موصول ہوا۔ مگر اس میں آزاد فضا کا جوش وخروش کس قدر تھا۔ میں یہیں نہیں کر سکتا کہ اس کو پڑھ کر اس قدر باسی عید کس قدر تازہ ہوگئی۔ گویا کہ میںن ے اسی وقت عید منائی فجر اکم اللہ خیراً۔
اس میں شک نہیں کہ یوم عید وہ عظیم الشان تحفۂ ربانی ہے جس کے شکریہ میں اگر مومن عزیز واخوان جی جان دھن دولت سب ہی کچھ قربان کردے تو یہ قربانیاں اس بے بہا نعمت عظمیٰ کا شکریہ نہیں ہوسکتیں۔ فالحمدللہ حمداً ایوانی نعمۃ ولکافی
مزید یہ صرف آپ ہی کے دل ناصور کا ظہور نہیں بلکہ انسان ضعیف البنیان کی طینت کا اقتضاء ہے ۔ جس میں اس انیس مطلق جل جلالہٗ کی حکمت یہ ہے کہ انسان خالی الیف وانیس کی جدائی سے شکستہ خاطر ہو، انسردہ دل ہو عند المنکسرۃ قلوبھم کامژدۂ ربانی فتح روح کا کام ہے۔ اور اسے فانی کےنعم البدل باقی کے قرب خاص وانس کاص سے وہ کیف و سرور حاصل ہو جس پر باسی عیدن نہیں بلکہ تازہ۔
عیدین ہزارہا قربان؎
اتصال بے تکلیف بے قیاس
ہست رب الناس رابا جان ناس
اس دور انقلاب کی عجوبہ کاری تو دیکھو کس قدر باطن ہیں کہ بے وطن غریب الوطن رنجوز بلاؤں سے چور نظر آرہے ہیں، اور کس قدر بے وطن ہیں کہ باوطن بحال ح سن نعم وآلالہ سے مخمور دپرسر ور نظر آرہے ہیں۔ آپ نے جانا کہ عید اپنے پر شکوہ وپرشوکت طریقہ پر گذر گئی۔ مگر اس کا پتہ اسی وقت چلا جب آزاد فضا کا ایک جھونکا آیا۔ گویہاں کے حالات کچھ بھی سہی مگر طبیعت یہی چاہتی ہے کہ آپ جلد سےجلد دہلی پہنچیں۔
فقط والسلام مع الاشتیاق التام
احقر مشرف احمد عفی عنہ
شنبہ ۱۰؍شوال المکرم ۱۹۵۰ء
انتقال پر ملال
مولانا مفتی محمد مشرف احمد رضوی مظہری کا انتقال ۱۴؍محرم الحرام کو ہوا، اور ۱۳؍ محرم ۱۴۰۳ھ کو حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کا وصال پُر ملال ہوا۔ واقعہ یہ ہوا کہ مفتی اعظم قدس سرہٗ کے وصال پُر ملال کی خبر جب بی بی سی لندن سے نشر ہوئی تو آپ نماز فجر سے فراغت پاکر اپنے بستر پر بیٹھے ہوئے یٰسین شریف کی تلاوت فرمارہے تھے۔ مفتی مشرف احمد یہ روح فرساں خبر سنکر اچھل پڑے۔ زبان مبارک پر جملہ یک لخت نکلا۔
‘‘ایک ہی ساتھ جانے کا وعدہ ہوا تھا۔ ارے میرے مفتئ اعطم ہی جب نہ رہے تو میں یہاں رہ کر کیا کروں گا [6] ۔
کلمۂ طیبہ لا الہ اِلَّا اللہ محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پڑھتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔ مزار پر انوار مسد شیخان باڑہ ہند وراؤ دہلی میں مرجع خلائق ہے۔
[1] ۔ محمد مسعود احمد، پروفیسر، ڈاکٹر : تذکرہ مظہر مسعود ص ۳۷۴
[2] ۔ (الف) بروایت مولانا سید شاہد علی رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
(ب) مولانا صغیر احمد رضوی جو کھن پوری نے راقم کو ایک ملاقات میں بتایا کہ مفتی مشرف احمد کو حضرت سے اجازت حاصل تھی۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[3] ۔ محمد مسعود احمد، پروفیسر، ڈاکٹر : تذکرہ مظہر مسعود ص ۳۷۴، ۳۷۵، بحوالہ رسالہ قصد السبیل ص ۱۵، ۱۴،
[4] ۔ محمد مسعود احمد، پروفیسر، ڈاکٹر : تذکرہ مظہر مسعود ص ۳۷۵
[5] ۔ مکتوب پروفیسر محمد مسعود احمد مدظلہٗ بنام راقم، محررہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۸۹ء؍۱۴۱۰ھ
(نوٹ) حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی حیات پر محترمہ فاضلہ آر۔ بی۔ مظہری (ریسرچ اسکالر سندھ یونیورسٹی پاکستان) کا تحقیقی مقالہ بنام ‘‘جہان مسعود’’ طبع ہوچکا ہے۔ فاضلہ نے جہان مسعود لکھ کر سوانح نگاروں کو نئے زاویے پر تذکرہ لکھنے کی دعوت دی ہے، اس میں الفاظ کم تحقیق زیادہ ہے۔ راقم کو محترمہ کا یہ اچھوتا طرز نگارش بہت پسند آیا جہان مسعود کے مطالعہ سے محترمہ کی علمی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[6] ۔ بروایت حضرت مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی محدث الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور ۸؍مھرم الحرام ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ء، ۱۲رضوی غفرلہٗ