آپ جامع اوراق (مولف خزینۃ الاصفیاء فارسی) کے جد امجد تھے آپ بڑے خدا پرست اور متبرک انسان تھے، رحیم و کریم اور عابد و زاہد تھے، طبیعت میں مسکینی اور مزاج میں انکساری پائی جاتی تھی، دنیاوی جاہ و جلال اور ظاہری شان و شوکت سے اجتناب کرتے تھے اپنی ہاتھ کی کمائی سے حلال کی روزی کماتے تھے اور محنت مزدوری کر کے روزی کمانے میں عار محسوس نہ کرتے تھے اپنی محنت کا چوتھا حصہ علیحدہ کرکے غرباء میں تقسیم کردیا کرتے تھے باقی تین حصے اہل و عیال میں خرچ کردیا کرتے ان کا یہ معمول تھا کہ آج کی کمائی کو کل کے لیے نہ رکھتے تھے، حافظ محمد آپ کے سگے بھائی تھے، بڑے مالدار اور خوشحال تھے، آپ کو اپنے پاس بلاتے اور کہتے کہ تم نے ہمارے خاندان کی عزت کو برباد کردیا ہے جو لوگ کل تک ہمارے محکوم تھے تم ان کے سامنے محنت مزدوری کرتے ہو اگر تم یہ کام چھوڑ دو، تو میں تمہارے سارے خاندان کے اخراجات برداشت کروں گا آپ کی اس بات کو تسلیم نہ کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے غربت اور تنگدستی انبیاء کی سنت ہے اور حلال روزنی کے حصول پر وقت دینا ہمارا ورثہ ہے میں اس چیز کو ترک نہیں کرسکتا آخری عمر میں بدنی اور جسمی طاقت جواب دے گئی تو کوٹلی مفتیاں خی بڑی مسجد جسے مفتی کمال الدین نے تعمیر کیا تھا، بیٹھ گئے اور تدریس قرآن میں مشغول ہوگئے اور روحانی طور پر سلسلہ سہروردیہ کی تلقین فرماتے تھے، ذکر حق میں احباب کو مشغول رکھتے، اور اعمال و وظائف سہوردیہ پر کار بند ہوتے۔
آپ کی وفات ۱۲۳۵ھ میں ہوئی۔
رحیم اللہ چو شد اور خلد اعلیٰ کہ تاج الاتقیاء مہر جمال ست ۱۲۳۵ھ
|
|
ندا از بہر سال وصل رضوان دگر مفتی شرعِ اطہر اے جان ۱۲۳۵ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)