مفتی سید غلام محی الدین نعیمی
مفتی سید غلام محی الدین نعیمی (تذکرہ / سوانح)
مفتی سید گلام محی الدین بن مولانا سید غلام احمد فریدی ’’شوق‘‘ مراد آباد ( یو ۔ پی ۔ بھارت ) میں۱۴، اگست ۱۹۲۲ ء کو تولد ہوئے۔ مولانا شوق جامعہ نعیمیہ مٰن شعبہ فارسی کے استاد اور کہنہ مشق شاعر تھے، تخلص ’’شوق ‘‘ رکھتے تھے اور حضرت صدر الافاضل کے قریبی رشتہ دار تھے ۔ ( مفتی صاحب کے بیٹے سید ناظر الدین کی روایت کے مطابق)
تعلیم و تربیت :
آپ نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ درس نظامی کی تکمیل برصغیر کی نامور دینی درسگاہ ’’جامعہ نعیمیہ ‘‘ مراد آباد سے کی۔ آپ کو اپنے استاد محترم ، سواد اعظم کے عظیم قائد ، امام المناظرین رئیس المتکلمین صدر الافاضل علامہ الحاج حکیم سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ سے نہایت عقیدت و محبت تھی ۔
پاکستان میں قیام :
استاد محترم صدر الافاضل کے وصال کے بعد آپ ۱۹۵۰ء کو مراد آباد سے پاکستان تشریف لے کر آئے اور شہر کراچی میں اقامت اختیار کی۔ کنٹونمنٹ ایریا ایئر فورس کے علاقہ میں سر کاری اسکول میں معلم مقرر ہوئے۔ جہاں اکثر فوجیوں کے بچے زیر تعلیم تھے ۔اللہ والی مسجد لائنز ایریا میں رات کی شفٹ میں مدرسہ قادریہ نعیمیہ قائم کیا گیا تھا۔
درس تدریس:
جہاں علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری مدرس تھے ۔ ۱۹۶۸ء کی ابتداء میں مفتی شجاعت علی قادری کا لیاقت کالج ملیر میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوا ۔ جس کی کوجہ سے مدرسہ کو مدرس کی ضرورت تھی ۔ مسجد کمیٹی کے احباب نے مفتی محمد اطہر نعیمی سے رابطہ کیا انہوں نے مفتی سید غلام محی الدین نعیمی کا نام پیش کیا بلکہ دوسرے روزخود اطہر نعیمی مفتی صاحب کے گھر گئے اور ان کو رات کی شفٹ کے لئے راضی کیا پھر دوسرے دن ان کو اپنے ساتھ مدرسہ میں لائے ۔ مفتی صاحب ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۴ء تک چھ سال رات کے وقت شاہ فیصل کالونی سے لائنز ایریا تک آنے جانے میں چار بسوں کو تبدیل کرتے تھے لیکن تمام تکالیف کے باوجود بڑے شوق و ذوق اور محنت و لگن سے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ۔ ۱۹۷۴ء کو کمیٹی کے سرپرست کے انتقال کی وجہ سے مدرسہ بند ہو گیا۔ لیکن آپ نے طلبہ سے فرمایا: آپ لوگ کسی نعم البدل جگہ کا انتظام کریں تاکہ آپ کی تعلیم میں خلل نہ پڑے اور یہ سلسلہ جاری رہے ۔ طلباء نے فیصلہ کیا کہ روز آنے جانے میں مفتی صاحب کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے لہذا طلباء مفتی صاحب کے گھر پر پہنچیں وہیں درس لیا جائے گا۔
آپ نے اپنے گھر پر بلا معاوضہ درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ مفتی صاحب کا گھر شاہ فیصل کالونی نمبر ۲ خضریٰ مسجد کے بالمقابل تھا۔
بیعت :
اپنے استاد محترم حضرت صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ اشرفیہ میں دست بیعت تھے۔ ( مرحوم مفتی صاحب کی بیوہ کی روایت کے مطابق)
اولاد :
ایک بیٹا سید محمد ناظر الدین اور دو بیٹیاں سیدہ مسعودہ ، سیدہپ صبیحہ تولد ہوئیں ۔ ( ایضا)
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ میں سے درج ذیل نام معلوم ہو سکے :
٭ نامور خطیب مولانا رجب علی نصرت نعیمی خطیب گلزار مسجد مائی لنجی گھاس منڈی ، رنچھوڑ لائن کراچی
٭ پروفیسر مولانا محمد حبیب قادری لائنز ایریا کراچی
٭ مولانا محمد جعفر نعیمی شاہ فیصل کالونی کراچی
٭ مولانا عبدالرزاق نعیمی نیو کراچی ، کراچی
٭ مولانا قاری نثار الحق قادری پاک کالونی کراچی
٭ مولانا رئیس احمد نعیمی لائنز ایریا کراچی
٭ مولانا معین الدین نعیمی چشتی مدفون قصبہ کالونی کراچی
٭ مولانا محمد حنیف مرحوم
٭ مولانا ظہور احمد نعیمی نقشبندی
٭ مولانا قاری محمد باقر علی نعیمی مرحوم
٭ مولانا محمد میاں نعیمی
٭ مولانا نور الہادی نعیمی خطیب جامع مسجد غوثیہ شاہ فیصل کالونی ۲
٭ مولانا نعیم احمد نعیمی
عادات و خصائل :
مزاج درویشانہ ، طبیعت میں انتہائی سادگی و خود داری تھی ۔ فن شاعری سے بھی پوری طرح واقف تھے، شاعری کی تمام اصناف ازبر تھیں ۔ قرآن پاک کی تلاوت اور دلائل الخیرات کا ورد بلاناغہ کیا کرتے تھے۔ طلباء پر نہایت مہربان تھے ۔ ہفتہ میں ایک دن تقریری مقابلہ ہوا کرتا اور طلباء سے مناظرانہ انداز میں گفتگو فرماتے اور اعتراضات قائم کر کے طلباء کو جوابات سکھاتے تھے۔ بڑے شوق و چاہت سے نعت شریف سنا کرتے تھے ہر محفل میں اشکبار دیکھا گیا ، وہ سچے عاشق رسول تھے ۔ اعلیٰ حضرت کا کلام بڑے اہتمام سے سنا کرتے تھے ۔ کلام رضا کے ممتاز شارح تھے، کلام رضا کی ایسی لاجواب شرح فرماتے کہ دماغ دنگ رہ جاتے ۔ طلباء ہمیشہ اصرار کرتے رہے کہ آپ ’’حدائق بخشش ‘‘ کی شرح لکھیں ۔ آپ نے اصرار کے پیش نظر شرح لکھنا شروع کی تھی لیکن مولانا شمس بریلوی نے بھی کلام رضا کے بعض اشعار کی تشریح کی تھی آپ کی پاس وہ قلمی نسخہ تصحیح کے لئے بھیجا گیا آپ نے جتنے اشعار کی شرح لکھی تھی وہ اسی نسخہ میں شامل کر دی ۔
۱۹۵۳ء کو پاکستان میں جب تحریک ختم نبوت چلی آپ نے ختم نبوت کے موضوع پر اثر انگیز بڑے بڑے پوسٹر لکھ کر شائع کئے ۔ اس سلسلہ میں گرفتار بھی ہوئے۔
مناظرہ :
آلپبے پناہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ فن مناظر ہ و حاضر جوابی میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ فریق مخالف کی گرفت کرنے پر مکمل عبور حاصل تھا۔
جب شاہ فیصل کالونی میں فیروز قادیانی وغیرہ نے قادیانیت کا کام شروع کیا تو مفتی صاحب آڑے آئے آپ کا نام سن کر وہ مناظر ے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے ایک بار آپ کے طلباء کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوئے جیسے ہی اچانک آپ نمودار ہوئے ان کی سٹی گم ہو گئی اور بہانہ بنا کر کتابیں اٹھا کر بھاگ گئے اور ایسے بھاگ کہ شاہ فیصل کالونی ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ نے وہابیوں دیوبندیوں ، غیر مقلدوں ، تبلیغی اور قادیانیوں کا ناک میں دم کر دیا تھا۔
خطابت:
آپ کو تقریر سے کوئی دلچپسی نہیں تھی ۔ غالبا یہی سبب تھا کہ آپ کسی مسجد میں امام و خطیب نہیں تھے ۔ زندگی میں چند بار ہی خطاب کیا ہو گا لیکن پر اثر جامع و مانع ۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ وہابیت کے خلاف مرکزی جلسہ ، وہابی مدرسہ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی نمبر اے سامنے منعقد ہوا ۔ خصوصی مقرر کسی وجہ سے نہ آ سکے اس لئے مجبوری شدیدہ کے تحت علامہ مفتی سید غلام محی الدین صاحب سے استدعا کی گئی کہ آج لسج رکھ لیں ۔ آپ نے ایک گھنٹہ بیس منٹ عالمانہ وفاضلانہ انداز میں ’’مسئلہ حاضر و ناظر ‘‘ پر خطاب کیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ جامعہ فاروقیہ ( دیوبندی مدرسہ ) کے دو طالب علم اسی وقت اسٹیج پر آگئے اور بد عقیدگی سے توبہ کی۔ آپ نے انہیں مولانا مفتی عبداللہ نعیمی کے مدرسہ مجددیہ نعیمیہ صاحبداد گوٹھ میں داخلہ کروادیا۔
ایک بار اپنے ہم استاد اور ملک کے نامور و جید عالم دین حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی سے ملاقات کے لئے گجرات کا سفر اختیار کیا۔ حکیم الامت نے ااپ کو کافی دیر تک سینے سے لگائے رکھا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ آپ کو دیکھ کر مجھے مراد آباد میں زمانہ طالب علمی اور صدر الافاضل کی رفاقت کے ایام یاد آگئے ۔ حکیم الامت نے اپنے صاحبزاد گان سے آپ کا تعارف کروایا۔ حکیم الامت نے اصرار کیا کہ آج آپ کو یہیں قیام کرنا ہو گا، کل صبح آپ چاہیں تو تشریف لے کر جائیں ۔ آپ نے معذرت کی لیکن انہوں نے روانہ نہیں ہونے دیا بعد عشاء وہ ہمیں گجرات سے تقریبا دس کلو میٹر دور ایک جگہ پر عرس کی تقریب میں لے کر گئے ۔ حکیم الامت نے خود کھڑے ہوکر بہترین انداز میں آپ کا تعارف پیش کیا اور آپ کو دعوت خطاب دی ۔ آپ نے حسب عادت معذرت چاہی لیکن اصرار شدید کے پیش نظر مجبور ا کھڑے ہو گئے اور تقریبا سواگھنٹہ ’’عظمت اولیاء ‘‘ کے موضوع پر جامع و مدلل تقریر فرمائی ۔
حکیم الامت نے فرمایا: آپ کی تقریر میں صدر الافاضل کا عکس نظر آتا ہے۔
دوسری بار سفر گجرات کا حال :
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۱۸ جون ۱۹۷۸ء کو یہ فقیر حقیر غلام محی الدین نعیمی مراد آبادی مع اپنے رفقا ئے سفر مولینا معین الدین نعیمی ، مولانا عبدالرزاق نعیمی ، مولینا محمد میاں نعیمی سلمہم کراچی سے مزارات اولیاء پر حاضری دیتا ہوا گجرات پہنچا تو آستانہ حضرت حکیم الامہؒ پر حاضری کے بعد آپ کے صاحبزادہ والا جاہ مفتی اقتدار احمد خان نعیمی سلمہ سے ملاقات کر کے ہم سب کو بے حد مسرت ہوئی میں آپس متعارف تھا لیکن آپ مجھے نہ پہچانے ۔ عزیزی مولانا محمد میاں نعیمی نے جب میرا تعارف کرایا تو آپ بڑی گر مجوشی سے ملے اور نہایت خلوص و محبت کے ساتھ پیش آئے۔ دوران گفتگو آپ نے اپنے بدایوں سے جامعہ نعیمیہ مراد آباد کے جانے کا ذکر کیا تو جامعہ اور اس کے بانی حضرت عمی و استاذ ی و مرشد ی سیدی صدر الافاضل قدس سرہ کی یاد تازہ ہو گئی ۔ پھر آپ نے اپنی تصنیف لطیف العطا یا الاحمد یہ فی فتاوی نعیمیہ ہدیۃ مجھے عنایت فرمائی اور ہد درجہ میری عزت و توقیر فرمائی اور بھی تحائف و دعاوٗ ں سے نواز اور نہ ن آنم کہ من دانمن اس مختصر سی تمہید کے بعد قلبی دلی تا ثرات کے لئے کتاب کے سر سری مطالعہ سے جو چند خاص باتیں ذہن میں آئی ہیں بغیر کسی تصنع اور مبالغہ کے عرض کر رہا ہوں ۔
العطایا الا حمد یہ فی فتاوی نعیمیہ کے خصائص سرمدیہ :
عطا یا احمد یہ فی فتاوی نعیمیہ مصنفہ شیخ الحدیث فقیہ اعظم مفسر القرآن فاضل جلیل شان مفتی اقتدار احمد خان نعیمی قادری کے متعدد فتاوی مطالعہ فقیر میں آئے ہر فتو ی عطر تحقیق اور ہر مسئلہ حقیق وانیق پایا۔ اس ضخیم کتاب کی ترتیب و تصنیف میں کس قدم کی محنت شاقہ سے کام لیا ہے اور کتنی عر قریز ی کی ہے اس کا صحیح علم و اندازہ صرف مصنف کو ہی ہو سکتا ہے۔ بہر کیف اس مجموعہ محاسن کے خصائص کو دیکھ کر مصنف کی جلالت علمی کا مظاہرہ ہو سکتا ہے یہ کتاب اردو زبان میں فقہ کی ایک نہایت جامع اور مستند کتاب ہے۔ دینی معلومات فقہی توضیحات کا عظیم شاہکار ہے اس کی زبان و بیان میں ایسی سلاست وروانی ہے کہ علماء ، طلبہ اور دیگر تعلیم یافتہ حضرات اس سے بخوبی استفادہ کریں گے ۔ معمولی اردو دان احباب کو بھی اس دین کے دینی مسائل و احکام شرعیہ کے سمجھنے میں کوئی خاص وقت و دشواری پیش نہ آئے گی ۔ غرض کہ موجودہ دور کی سلیں اردو میں یہ مایہ صد نازو افتحار کتاب اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ یوں تو اس کے مصنف ابھی فاضل نوجوان ہیں لیکن ان کے اسلوب تحریر قلم و زبان کی پختگی ، مہارت فنی اور اقامۃ ادلہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی پختہ کار اور کہنہ مشق معمر فاضل کی تصنیف ہے ذالک فضل الہ یوتیہ من یشاء
تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کرنا چنداں دشوار نہیں لیکن فقہ کی کتاب تصنیف کرنا اور صرف اہل عم و فضل ہی نہیں بلکہ جادلین کے سامنے بے جھجک پیش کر کے دعوت تنقید دینا بہت مشکل ہے۔ مسائل مختلف فیھا کی توضیحات ، قضایا تحکیمات کتاب و سنت و اجماع و قیاس کی روشنی میں معین کرنے کے اصول بیان کرنا۔ مخالفین و معترضین کے غلط الزامات و اعتراضات کی مکمل تردید اسئلہ کے اجوبہ کے ذریعے اپنے مسلک کی تائید اس کی حقانیت کا اثبات ماو شما کا کام نہیں اس کے لئے عظیم علم و فضل درکار ہے حدیث شریف میں ہے نم یرد اللہ بہ خیر ایفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتاہے اس کو فقہ میں مہارت عطا فرماتا ہے رب العزت نے اپنے کرم سے جامع فقہی صلاحیت مفتی اقتدار احمد خان کو عطا فرمائی ہے ۔ آپ نے اپنے والد ماجد ؒ کی مسند پر جلوہ گر ہو کر فقہی احتیاطوں کے ساتھ قلم حق رقم چلایا اور فخر و تمکنت سے گریز کر کے عج و انکسار کو اپنا یا ایسا یوں نہ ہوتا کہ الولد سر لابیہ آپ حکیم الامت شیخ الحدیث مفسر قرآن مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی احمد یار خان صاحب قدس سرہ کے فرزندار جمند ہیں ۔ آپ بھی اپنے والد ماجد کی طرح مرجع خلائق ہیں ملک کے اطراف و اکناف سے مستفتی صاحبان آپ سے فتو ے طلب کر رہے ہیں اور آپ کا دارالافتاء مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ موجودہ دور سائنس اورفلسفہ کی ترقی کا دور ہے اس لئے طبیعتیں عام طور پر عقلی دلائل کی طرف مائل نظر آتی ہیں ۔ لوگ اس زمانہ میں شرعی احکام کو بھی عقلی دلائل کی روشنی میں سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ آج کل عقلی دلائل کے طلب کرنے کا زوق اور عقلی سوالات قائم کرنے کا شوق اور عقلی جوابات حاصل کرنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے عطا یا احمد یہ میں فاضل مصنف نے اس نزاکت کا پورا پورا خیال رکھا۔ جس فتوے میں جہاں دلائل نقلیہ کے علاوہ دلائل عقلیہ کی ضرورت محسوس کی وہاں دلائل عقلیہ کو اس خوبی کے ساتھ قائم کیا ہے ان کے امتزاج فتوے کی صحت و حقانیت سائل اور ہر مطالعہ کرنے والے کے دل و دماغ میں ایسی راسخ ہو گئی کہ مزید کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی حسن اتفاق سے چین کا مسئلہ جس میں لوگوں کو بہت بیچینی پیدا ہو رہی تھی اس کو فاضل مصنف نے ایسے دلائل قاہر ہ اور برا ہین قاطعہ کے ساتھ بیان کر دیا کہ جس سے تمام بیچینیوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ اس جامعہ کتاب میں ایسے بے شمار علمی اسرار و رموز اور فنی نکات کو عمل کی افادیت عام کرنے کی غرض سے صراحۃ بیان کردیا جن کو فقہا و محد ثین اپنا مابہ الامتیاز سمجھ کر پردہ خاص میں رکھنا ہی مستحسن سمجھتے ہیں ۔ آخر میں امید کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ کا ہر طبقہ اور ہر فرد العطایا الاحمد یہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ چونکہ اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لئے موجب سعادت دارین ہے اس لئے ہر دیندار شخص اس کوخرید کر اپنے پاس رکھے گا۔ خدا کرے ا س کی اشاعت میں دم بہ دم اضافہ ہوتا رہے اور لوگ ہمیشہ اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہیں ۔ رب تباک و تعالی مصنف کی عمر دراز کرے اور ان سے بے شمار دینی خدمات لے اور دارین کی نعمتوں اور سعادتوں سے مالا مال رکھے آمین ین دعا از من وازجمہلہ جہاں آمین باد ۔ ( خادم العلماء و فقرا ء غلام محی الدین نعیمی مراد آبادی غفرلہ الہادی )
تصینف و تالیف :
آپ نے درج ذیل علمی و تحقیقی رسائل تحریر فرمائے:
٭ حیات شہداء
٭ مسائل عید الاضحی
٭ قربانی کے قضائل و مسائل
٭ حیات گنج شکر
٭ طلاق ثلاثہ پر اجماع
فتاویٰ ، پوسٹر اور پمفلٹ اس کے علاوہ تھے ۔ علاوہ ازیں حضرت صدر الافاضل کی مشہور تصانیف سوانح کر بلا ( ۲) الکلمۃ العلیاء (۳) کتاب العقائد کی تصحیح فرما کر تمام اغلاط کتابت دور کر کے خوش نما پرنٹ سے شائع کی ۔ حضرت صدر الافاضل کا ’’ایصال ثواب ‘‘ کے موضوع پر ایک تحریری مناظرہ ہوا تھا۔ جس کا تمام مواد حضرت علامہ مسعود احمد دہلوی ؒ ( صابری مسجد رنچھوڑ لائن ) کے پاس تھا۔ آپ نے ان سے طلب فرمایا لیکن بعض حصے گل چکے تھے جس کے باعث اس رسالہ کی ترتیب و طباعت ممکن نہ ہو سکی ۔
تقریبات :
۱۔ آپ اپنے گھر پر ربیع الاول شریف میں سالانہ محفل میلاد شریف
۲۔ اپنے استاد محترم و مرشد مکرم حضرت صدر الافاضل کا سالانہ عرس ۱۸، ذوالحجہ کو منعقد فرماتے تھے۔
ْ۳۔ پاکپتن شریف میں امام الاولیاء حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر قدس سرہ کے دربار مقدس کی حاضری سال میں تین چار مرتبہ دیا کرتے تھے۔ آپ، حضرت بابا فرید کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ’’فریدی ‘‘ نام کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔
وصال :
مفتی سید غلام محی الدین نعیمی ۱۴، مارچ ۱۹۸۷ء بمطابق ۴، رجب المرجب ۱۴۰۷ھ کو انتقال کیا۔ آپ کی آخری آرامگاہ حضرت شمار شاہ بخاری ( متصل جامع مسجد امام اعظم ابو حنفیہ شارع فیصل لب سڑک ) کی درگاہ کے سامنے زیارت گاہ عام و خاص ہے۔
[مندرجہ حوالہ جات کے علاوہ تمام مواد مفتی صاحب کے شاگردو رفیق سفر مولانا رجب علی نصرت نعیمی صاحب نے عنایت فرمایا۔ جس کو فقیر راشدی نے مضمون کی صورت میں سجایا ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت )