مفتی سید شاہد علی رضوی رامپوری
مفتی سید شاہد علی رضوی رامپوری (تذکرہ / سوانح)
نقیب رضویت خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی رامپوری
شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رامپور
ولادت
ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ علامہ مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی بن جناب سید سیف اللہ قادری چشتی بن سید ارشاد شاہ بن سید احمد شاہ بن سید حسن شاہ موضع ملک نگلی ضلع رام پور میں ۲۷؍صفر المظفر ۱۳۷۴ھ ۲۵؍نومبر ۱۹۵۲ء بروز بدھ بوقت صبح صداق پیدا ہوئے۔ اس کے بعد عم محترم پیر طریقت سید صابر میاں چشتی نے سید شاہد علی نام رکھا [1]۔
تسمیہ خوانی
جب مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی کی عمر شریف چار سال،پانچ ماہ کی ہوئی تو جناب سیف اللہ قادری چشتی نے بسم اللہ خوانی کی تقریب کاشی پور آنگہ ضلع رام پور میں منعقد کی اور ایک عظیم بزرگ صوفی عبدالصمد رحمۃ اللہ علیہ نے ۴؍رجب المرجب ۱۳۷۸ھ کو بسم اللہ خوانی کرائی۔
تعلیم وتربیت
مفتی سید شاہد علی رضوی جب سخن آوری کی منزل عبور کر چکے تو صوفی عبدالصمد علیہ الرحمۃ نے قاعدہ بغدادی شروع کرادیا۔ ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کے بعد دینیات کی ابتدائی تعلیم حضرت سید شریف میاں چشتی نظامی رام پوری سے حاصل کی۔ آپ کو قدرت نے شروع سے وہ دل و دماغ بخشا کہ جس سے ہمدرس طلبہ کو رشک آتا۔ جو چیز ایک دفعہ پڑھی لی یاد ہوگئی اور جو شئے ایک مرتبہ نظر سے گزری دل پر نقش ہوگئی۔ اہل خاندان خیال کرتے کہ مستقبل قریب میں یہ بچہ فخر خاندان ہوگا۔ چونکہ مفتی سید شاہد علی کا خاندان علمی خاندان ہے اس لیے تعلیم کی طرف زیادہ رغبت ہوئی۔
۱۳۸۹ھ میں حفظ قرآن کریم سے فراغت پائی۔ پہلی محراب اپنے وطن کی مسجد میں سُنائی اور عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے والد بزرگوار سید سیف اللہ چشتی نے شوال ۱۳۹۰ھمیں ر ام پور کی عربی درسگاہ جامع الفرقانیہ میں عربی کے ابتدائی درجہ میں داخلہ کرایا۔ مفتی سید شاہد علی رضوی بچپن ہی سے بڑے ذہین طباغ تھے اور تحقیق شروع ہی سے زہن و دماغ میں گردش کرتی تھی۔ جامع العلوم فرقانیہ کے اساتذہ نے جب دیکھا کہ یہ ہونہار بچہ لگن و محنت سے پڑھتا ہے تو اپنے خارجی اوقات میں انہیں درس دینے لگے اور ناز نعم سے پرورش کی۔
مفتی سید شاہد علی رضوی نے شعبان ۱۳۹۹ھ میں جامع العلوم فرقانیہ سے درس نظامیہ عالیہ کی فراغت حاصل کی اور زمانہ تعلیم میں قاری عبدالرحمٰن جونپوری سے تجوید کی کتابیں پڑھیں۔ شعبان ۱۳۹۴ھ میں مدرسہ انوار العلوم بازار کلاں رام پور سے سند تجوید وقرأت حاصل کی۔
فراغت کےتین سال بعد آپکےمطالبے پر مدیر جامع العلوم فرقانیہ مولوی محمد یوسف شمسی نےسند لیاقت اور صداقت نامہ تحریر کیا جسکی اصل ملاحظہ ہوا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اشھد الاخ البار السید شاھد علی بن سیف اللہ شاہ المتخرج فی مدر ستنا للعام الدراسی ۱۹۸۹ء کان حسن السیرۃ والسلوک طلیۃ وجودہ فی المدرسۃ ولطلبہ اعطیت لہ ھذہ الشھادۃ وفقہ اللہ۔
محمد یوسف شمسی فرقان، مدیر جامع العلوم الفرقانیہ رامپور [2]۔
زمانۂ تعلیم میں مرجع طلبہ
تعلیم کے زمانہ میں ہمعصر طلبہ مفتی سید شاہد علی سے درس لیا کرتے تھے اور یہی نہیں بلکہ آپ کی قیام گاہ محلہ سرائے کلہاں رام پور میں تفسیر، ح دیث، فقہ، اور صرف ونحو کی کتابیں درضۂ عالم و مولوی وغیرہ کے طلبہ پڑھتے تھے۔ اس دور کے مشہور تلامذہ میں یہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۱۔ علامہ مولانا محمد فاروق رضا رضوی ناظم تعلیمات الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۲۔ مولانا سید محمد رفیع میاں رضوی مدرس مدرسہ نور الاسلام چمر وّا رام پور
۳۔ مولانا اصغر علی رضوی صدر المدرسین دارالعلوم شاہ جماعت ہاسن کرناٹک
۴۔ مولانا ھافظ شکیل احمد رجوی مدرس الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۵۔ مولانا محمد حنیف خاں رضوی رانی کی ناکار رامپور
۶۔ مولانا خورشید ساکن تحصیل سوار رامپور
جب مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی نے مولوی آکر کا امتحان دیا تو اس میں فرسٹ اول کی کامیابی حاصل کی تو منتظمین ادارہ نے پچیس روپیہ انعامی وظیفہ جاری کیا۔ نیز آپ کو مسجد سے بلاکر مدرسہ میں رکلھا اور قیام وطعام کا انتظام کیا۔ یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ اس سے پہلےمدرسہ فرقانیہ رام پور میں کھانے کا انتظام نہیں تھا۔ دار الاقامہ میں طلبہ نہیں تھے۔ مفتی صاحب ہی وہ شخص ہیں جنکو یہ اولیت حاصل ہے کہ جامع العلوم فرقانیہ کے دارالاقامہ کا افتتاح ہوا، دارالاقامہ کے قیام کے بعد ایک عرصہ تک نائب ناظم کی حیثیت سے نگراں بھی رہے [3]۔
حضرت مفتی سید شاہد علی نے زمانۂ طالب علمی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو آج بھی جامع العلوم فرقانیہ میں آپ کی یادگار اور مرہون منت ہیں۔ مگیزین کا آغاز، انجمن کلامیہ کا قیام اور انجمن کی طرف سے دارالمطالعہ کا قیام، دارالمطالعہ میں تصانیف علماء اہلسنت کی فراہمی۔ انجمن کے خرچ پر ٹیپ رکارڈ کی خریداری، اور اس سے درس بخاری، درس ترمذی ٹیپ کر کے پڑھانے کا اہتمام آپ ہی نے کیا۔
انجمن کلامیہ کے نشاۃ کی تفصیل اردو اد فرقانیہ میں شائع ہوئی۔ اس میں مفتی سید شاہد علی کو سکریٹری منتخب کیا گیا [4]۔ سب سے پہلے میگیزن ۱۲۹۷ھ کو آپ کی جدو جہد سے منظر عام پر آئی مفتی سید شاہد علی کے اپستاد مولوی سردار شاہ خاں رام پوری تقلید اور مسلمان کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
انہیں سید شاہد علی کی کوششوں نے جذبۂ تحریر کو بر انگیختہ کیا چنانچہ مدرسہ کی ۲۷ ستائیس سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ وابستگان مدرسہ کی جانب سے یہ گلدستۂ مضامین میگزین کے نام سے شائع کیا جو آپ کےہاتھوں میں موجود ہے [5]۔
اساتذہ کرام
۱۔ اُستاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد جہانگیر خاں رضوی فتح پوری مدظلہٗ العالی
۲۔ جانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری خاں ازہری قادری بریلوی مدظلہٗ العالی
۳۔ شیخ المحدثین مولانا سید محمد عرف رضوی نانپاروی شیخ الحدیث دارالعلوم منظر اسلام بریلی
۴۔ حضرت صوفی عبدالصمد رام پوری
۵۔ پیر طریقت سید شریف میاں چشتی نظامی رام پوری
۶۔ حافظ عبدالولی رام پوری
۷۔ حافظ محمد نور رام پوری
۸۔ قاری عبدالرحمٰن جونپوری
۹۔ حافظ عبدالغنی
۱۰۔مولوی عبدالعزیز خاں
۱۱۔ ماسٹر عبدالرحیم خاں
۱۲۔ جملہ عربی اساتذۂ جامع العلوم فرقانیہ رام پور
تدریسی زندگی
حضرت مفتی سید شاہد علی کے علم کے شہرہ تعلیم کے دوران ہی ہوچکا تھا۔ خدا داد وصلاحیت ولیلاقت سارے اساتذہ پر عیاں تھی۔ فارغ ہونے کے بعد ناظم مدرسہ نے اپنے مدرسہ جامع العلولم فرقانیہ میں معین المدرس کی حیثیت سے تقرر کرلیا۔ چند ماہ تعلیم دی اور ذی قعدہ ۱۳۹۹ھ؍۱۳؍اکتوبر ۱۹۷۹ء بروز شنبہ الحاج منشی عبدالمجید قریشی [6] نے اپنے ادارہ گلشنِ بغداد رام پور میں شعبۂ عربی، فارسی قائم کرنے کے لیے بحیثیت صدر مدرس تقرر کیا۔ آپ کے استاد ماسٹر سید اصغر میاں نے جو تاریخ تقرر کہی وہ حسبِ ذیل ہے۔
سیزدہ اکتوبر بروز شنبہ |
سال ہفتادہ ونہد وصد نوازدہ |
|
از جناب مولوی شاہد علی |
گلشنِ بغداد بارونق شدہ [7] |
قیام الجامعۃ الاسلامیہ
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کی دیر دینیہ خواہش تھی کہ سر زمین رام پور پر مذہب اہل سنت وجماعت کا ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم ہو جہاں سے علماء وفضلاء اور مفرکین پیدا ہو کر تبلیغ دین متین اور تروایح مسلک اہل سنت کر سکیں۔ جس طرح رام پور کے آسمان علم و فن پر علماء اہل سنت رام پور رحمہم اللہ تعالیٰ مسلک اہل سنت کی ترویج واشاعت اور اس چمن زار علم و فن کی اپنے خونِ جگر سے آبیاری کے سبب آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے ہیں۔ اسی طرح رام پور میں اس ادارہ کے ذریعہ اہلِ رام پور کےہر قلب میں ضیاء بارکرنوں کی جلوہ گری ہو جس سے معرفتِ خداوندی کا حصول ہوسکے۔
حضور مفتی اعطم قدس سرہٗ کی زندگی میں تو یہ آرزو پوری نہ ہوسکی لیکن بعد وصال محلہ گن ج قدیم میں جلسۂ تعربیت کے موقع پر جب مفتی سید شاہد علی نےمفتی اعظم قدس سرہٗ کی یہ دیرینہ آرزو شہر کے چند غیور وبا حوصلہ افراد حافظ مختار احمد سیفی جمالی، جناب منظور احمد سیفی رضوی، جناب نور النبی چشتی جناب سیٹھ محمد یامین کرسی والے، جناب حسیب احمد نوری جماعتی جمالی، جناب ظہور احمد رضوی، جناب صغیر احمد رضوی ازہری، جناب نصرت علی خاں رضوی، الحاج حافظ نبیہ حسن صاحب قادری، سیٹھ علاء الدین سیفی رضوی، الحاج سیٹھ رفیع الدین کے سامنے رکھی تو ان حضرات نے بلا کسی تامل مفتی سید شاہد علی کی آواز پر لبیک کہا۔ اور اپنی اپنی قربانیاں اور قیمتی اوقات دینے کا وعدہ کیا۔ مفتی صاحب نے مذکورہ بالا ہمدردان وبہی خوانِ اہلسنت کے مخلصا نہ جذبات اور بھر پور احساسات کا احترام کرتے ہوئے ۱۴؍صفر المظفر ۱۴۰۲ھ؍ ۱۲؍دسمبر ۱۹۸۲ء بروز ہفتہ بعد نماز فجر صلوٰۃ وسلام کے غلغلہ میں ایک ادارہ الجامعۃ الاسلامیہ کے نام سے قائم کیا [8]۔
عقد مسنون
مولانا مفتی سید شاہد علی محدث رام پوری کا عقد مسنون ۳۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء؍۱۴۰۵ھ کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے چشم وچراغ الحاج الشاہ سید صادق علی میاں قادری جمالی سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت بسم اللہ شاہ علیہ الرحمہ موضع ٹانڈہ چھنگا ضلع بریلی کی دختر کے ساتھ ہوا۔ اور نکاہ جانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رض ازہری بریلوی دامت وبرکاتہم القدسیہ نے پڑھایا۔ آپ کی شادی کے موقع پر ملک التدریس مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی ایم۔ اے شیخ الادب دارالعلوم منظر اسلام بریلی نے مندرجہ ذیل تاریخی مادے استخراج کیے۔
باآثار مسرت لافتا الاعلی لاسیف الاذوالفقار
۱۴۰۵ھ ۸۵ھ۱۹
مجسم فیضان رضا معدن جود و کرم مفتی اعظم پیغام شیکبائی
۱۹۸۵ء ۱۹۸۵ء ۱۴۰۵
مفتی سید شاہد علی کی فی الحال چار اولادیں یادگار ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔ (۱)زینت فاطمہ (۲)نصرت فاطمہ (۳)بہجہ فاطمہ (۴)سید محمد واجد علی عرف فیضان رضا جیلانی
بیعت وخلافت
حضرت مفتی سید شاہد علی رضوی نے ۱۳؍محرم الحرام ۱۴۰۰ھ کو حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا، اور شوال ۱۴۰۱ھ کو حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا۔
امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس سرہٗ نے خلیفۂ مجاز پیر طریقت مولانا محمد ضیاء الدین احمد نقشبندی جامعتی رام پوری نے ۱۵؍جنوری ۱۹۹۰ء ۱۶؍جمادی الاخریٰ ۱۴۱۰ھ کو مفتی سید شاہد علی کو سلسلۂ نقشبندیہ جماعتیہ جمالیہ میں خلافت سے نوازا [9]۔ جولائی ۱۹۹۰ء؍۱۴۱۰ھ کو حضرت تحسین رضا بریلوی مدظلہ نے الاجاز المتینہ میں ذکر کی ہوئی ساری اسناد کی اجازت عطا فرمائی۔
اجازت افتاء وعملیات
حضرت مفتی سید شاہد علی کو ۱۶؍جمادی الاولیٰ ۱۴۰۸ھ میں تاج الشریعہ فقیہہ اسلامی مفتی محمد اختر رضا ازہری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ اور استاذ الاستاذہ مفتی جہانگیر خاں رضوی اعظمی نے تمام اور ادو اعمال، اوفاتق، افتاء، روایت فقہ وحدیث اور قرآن کریم کی اجازت عامہ عطا فرمائی۔ جوان دونوںبزرگوںکو قطب مدینہ مولانا مفتی ضیاء الدین احمد المدنی رضوی قادری علیہ الرحمہ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے واسطے سے امام احمد رجا قادری بریلوی سے حاصل ہے۔
۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۰۹ھ کو مرکز اہلسنت منظر اسلام بریلی سے فاضل درس نظامی کی سند حاصل کی اور اسی سال شیخ المحدثین مولانا سید محمد عارف رضوی نانپاروی نے سند اجازت حدیث شریف بطریق مولانا مفتی ارشاد حسین مجددی رام پوری اور تاجدار اہلسنت مفتی اعظم قدس سرہٗ عطا فرمائی [10] ۔
نمونۂ کلام
مفتی سید شاہد علی کو شعر گوئی سے بھی دلچسپی ہے۔ نمونہ کے طور پر ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہزار بار کہہ کے بے وفا کو باوفا میں نے
زمانے کو دکھایا ہے وفا کاراستہ میں نے
بڑی عزت سے اہل مکر میرا نام لیتے ہیں
گنہگاروں کو ایک دن کہہ دیا تھا باوفا میں نے
تصنیفات و مرتبات
مولانا مفتی سید شاہد علی درس وتدریس، تبلیغ، رشد وہدایت، پندو نصاح کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود درجنوں علمی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ آپ کے رشحات قلم سے نکلی ہوئی کتابیں اہل علم سے اپنی جلالت علم کا سکہ منواچکی ہیں۔ مندرجہ ذیل کعب میں سے بعض منظر عام پر آچکی ہیں اور بعض تشنۂ طباعت ہیں۔
۱۔ مسئلہ تکبیر (حی علی الفلاح پر کھڑے ہونے کے بیان میں)
۲۔ مسئلہ صلوٰۃ (اذان کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کے بیان میں)
۳۔ ثبوت جلوس محمدی (کتابچہ)
۴۔ ثبوت جلوس محمدی (اس میں بارہ ربیع الاول شریف کو جلوس نکالنےپر دلائل ار علمائے ہند و پاک کے فتاوے بھی شامل ہیں)
۵۔عالم اسلام کا محتاط مفکر (امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ح یات پر تحقیقی مقالہ اور دلکش تعارف)
۶۔ بابری مسجد تاریخ کے آئینہ میں (بابری مسجد کے تاریخی حقائق، مسئلہ بابری مسجد پر یہ پہلی تصنیف ہے)
۷۔ انکشاف جرم (جانشین مفتی اعظم مدظلہ ۱۴۰۷ھ میں سعودیہ عربیہ میں گیارہ دن قید رہے اس پر ڈاکٹر خالد قاسمی کا مضمون بعنوان مولانا اختر رضا خاں بریلوی کی گرفتاری ٹھیک تھی، اس کا شافی و کافی اور مسکت جواب)
۸۔ علمائے اہلسنت کی کہانی تصویروں کی زبانی (اس میں علمائے رام پور کا تذکرہ اور مختصر تعارف)
۹۔ گلہائے عقیدت (خلیفہ اعلیٰحضرت مولانا ابو الوقت محمد ہدایت رسول نوری رام پوری کی نظموں کا انتخاب)
۱۰۔ گلہائے محبت (شادی کے صحیح رسومات اور مسائل وغیرہ)
۱۱۔ گیارہویں شریف (حضڑت مولانا شاہ سلامت اللہ مجددی رام پوری علیہ الرحمہ کی تصنیف پر تعلیق اور جدید ترتیب۔)
۱۲۔ مظہر جمال (حصہ اول) حضرت شاہ حافظ جمال اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلۂ طریقت کے احوال)
۱۳۔ مولانا ارشاد حسین مجددی رامپوری (سوانح حیات)
۱۴۔ تعلیمات حافظ ملت
۱۵۔ مولانا سلامت اللہ مجددی رام پوری
۱۶۔مولانا ہدایت رسول نوری رام پوری، (مسودہ)
۱۷۔ مولانا نور الحسین رام پوری (مسودہ)
۱۸۔ مولانا طہورہ الحسین رام پوری(مسودہ)
۱۹۔ مسئلہ اذان ثانی، (مسودہ)
۲۰۔اصول حدیث (اس میں اصول حدیث، قواعد، مسائل استنباط وغیرہ، مسودہ ہے)
۲۱۔ تعریفات نحویہ (مسائل علم نحو کی تعریفات، مسودہ ہے)
۲۲۔ حیات جہانگیر (سوانح مفتی محمد احمد جہانگیر خاں رضوی مدظلہٗ قلمی)
محتاط قلم
ان کتب کے تحقیقی اور علمی ہونے کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب مولانا مفتی سید شاہد علی نے مسئلہ صلوٰۃ تصنیف فرمائی اس کے آخر میں رقم طراز ہیں:
زیادہ تر کتابوں کے حوالہ جات رضا لائبریری رام پور سے نقل کیے گئے ہیں، جو صاحب حوالہ جات دیکھنے کا شوقت رکھتے ہوں وہ رضا لائبریری رام پور سے رجوع کریں یا پھر فقیر نوری (مولانا سید شاہد علی مدظلہٗ) سے رجوع کریں [11] ۔
مولانا ارشاد حسین رام پوری کی تدوین کے زمانے راقم نے دیکھے ۱۴۰۹ھ کی بات ہے کے ٹھنڈک کی شدت کی پڑ رہی تھی۔ مفتی سید شاہد علی بار بار وضو کف رہے تھے۔ آخر کار راقم نے دریافت کیا کہ حضرت بار بار کیوں وضو فرمارہے ہیں۔ کیا اس کتاب کو باوضو ہوکر لکھ رہے ہیں فرمایا۔
ہاں احتیاط تو یہی کر رہا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے۔ وہاں تک باوضو ہوکر لکھوں۔ اب تک جتنا لکھا ہوں بحمدہ تعالیٰ باوضو ہوکر لکھا ہوں۔ اور آئندہ بھی یہی ارادہ ہے [12] ۔
اس کتاب کی تحقیق و تدقیق اس قدر کی ہے کہ ہر ہر سطر کو حوالہ جات سے پر کردیا ہے جس کو غیر جانب داربھی پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مولانا نور الدین نظامی ‘‘حرف عقیدت’’ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے۔
مولانا رضوی نے ان (حضرت مفتی ارشاد حسین مجددی) کے معاصرین اور متاخرین کے مستند اقوال پیش کرتے ہوئے حوالہ جات کی نشنادہی بھی کی ہے۔ جو بہر حال انتہائی دیدہ ریزی کا کام ہے۔ اور قلمی دیانت داری کا بین ثبوت [13] ۔
چند تلامذہ
۱۔ مولانامحمد اسحاق رضوی شیخ الادب الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۲۔ مولانا ولی محمد رضوی نینی تال
۳۔ مولانا عزیز الرحمٰن منافی الجامعۃ القادریہ چھابہیڑی
۴۔ مولانا عبدالجبار خاں رضوی کھیری لکھیم پوری
۵۔ مولانا عتیق الرحمٰن رضوی صدر مدرس مدرسہ اہلسنت سراج العلوم ساگر پور قدیم ضلع رام پور
۶۔ مولانا انوار حسین رضوی مصطفیٰ نگر مراد آباد
۷۔ مولانا محمود احمد رضوی بریلوی ایم۔ اے، ریسرچ اسکالر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
۸۔ مولانا محمد سعید رضوی بریلوی ایم۔ اے
۹۔ مولانا محمد عالم ثقلینی شاہجہانپوری
۱۰۔ مولانا حافظ محمد بشارت علی رضوی بہرائچی خطیب مسجد انگوڈ ماپوساگوآ
۱۱۔ مولانا زبیر احمد رضوی تلہری
۱۲۔ مولانا اب علی رضوی مہتمم نور الاسلام چمروَّ رام پور
۱۳۔ مولانا محمد فرید رضا رضوی لکھیم پوری
۱۴۔ مولانا محمد زین الدین رضوی بہاری
۱۵۔ مولانا محترم محمد امین القادری رضوی شہباز پوری بریلی
۱۶۔ احقر محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی غفرلہٗ (راقم السطور)
۱۷۔ مولانا ریاست علی رضوی مدرس برکات العلوم اجیت پور ضلع رام پور
نئے فرزندان اسلام
اس وقت تک مفتی صاحب کےہاتھ پر پچیس سے زائد غیر مسلم مشرف با سلام ہوچکے ہیں اور بہت سے لوگ تائب ہوکر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوئے۔ اسلام وشریعت کی تبلیغی دعوت کا سلسلہ آپ ک ی یومیہ مصروفیات میں داخل ہے۔ راقم کو جن نو مسلمین کی فہرست حاصل ہوسکی وہ حسبِ ذیل ہے۔
پہلا نام اسلامی نام ولدیت، قومیت مقام تاریخ
۱۔ شنکرورما، عطاء المصطفیٰ پنڈت موضع سمستی پور صوبل بہار شعبان المعظم ۱۴۰۳ھ
۲۔ للو پرشاد، عبداللہ کلوپر شاد، مالی بلی ماران دہل ۱۳؍اکتوبر۱۹۷۹ء
۳۔ سجاد حسین کلوپرشاد، مالی آورش کالنوی ردر پو ۱۲؍محرم ۱۴۰۶ھ
۴۔ پالورام، محمد اطہر ہٹی رام مچھڑ ڈیری ضلع غازی آباد ۲۵صفر ۱۴۰۹ھ
۵۔ ایسری پر شاد، محمد عمر چند امالی، مالی رستم نگر عرف چمر ورام پور ۷جمادی الاول ۱۴۰۹ھ
۶۔ ریتا، عارفہ پولن، مالی سلندر علاقہ کللکتہ ۷جمادی الاول ۱۴۰۹ھ
۷۔ شیلہ، ذکراہ بی ایسری پرشاد، مالی چمر واضلع رام پور ۷جمادی الاول ۱۴۰۹ھ
۸۔ مہندر، محمد عارف ایسری پرشاد، مالی چمرواضلع رام پور ۷جمادی الاول ۱۴۰۹ھ
۹۔ چتین، مصطفیٰ رضا نوری ویم پرکاش، مالی مٹ ولا قبرستان ضلع رامپور ۱۱؍ذی الحجہ ۱۴۰۱ھ
۱۰۔ سبھاش چندر، محمد خالد عرف مصطفیٰ رضا کیسری پرشاد، شری داستو محلہ کھلوار برلام پور گونڈہ ۱۳؍ذی الحجہ ۱۴۰۱ھ
۱۱۔ مولچند، محمد عثمان جیون لال، بھرجی پنڈاری تھانہ شیشگڑھ ضلع بریلی ۱۶؍جون ۱۹۹۰ء
۱۲۔ راجندر سنگھ، محمد علی عرف مصطفیٰ رضا سروک سنگھ، ٹھاکر سراکھ بھاگیسر الموڑا ۲۴؍ذی الحجہ ۱۴۱۰ھ
۱۳۔ مہیشور، عبدالرحمٰن پہاڑی نیپال گنج
۱۴۔ جوگبند رسنگھ، عبداللہ غدر پور ضلع نیتی پال [14]
[1] ۔مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ضلع ملتان بنام راقم، ۱۲غفرلہٗ
[2] ۔سند لیاقت کی قلمی تحریر راقم کے پاس موجود ہے اہل حاجت دیکھ سکتے ہیں۔ ۱۲ رضوی غفرلہٗ
[3] ۔ملاحظہ ہو رود اد جامع العلوم فرقانیہ ۱۹۷۶ء مضمون بعنوان مدرسہ کے طلبہ اور امتحانات، از مولوی ریاض الدین احمد خاں رام پوری، ص ۱۰، ۱۱، مطبوعہ ناظم پریس رام پور
[4] ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو رود اد جامع الفرقانیہ ۱۹۷۴ء ص ۳۷، مضمون مولوی خوشنود علی رام پوری۔ مطبوعہ نشینل پریس رام پور
[5] ۔شاہد علی رضوی، سید: مولانا: ضیاء وجیہہ، ہمارا میگزین ۶۴، مطبوعہ ۱۳۹۷ھ؍ ۱۹۷۷ء رام پور
[6] ۔منشی عبدالمجید قریشی سنی صحیح العقیدہ تھے۔ علماء اور اسلاف سے گہرا تعلق رکھتے تھے شاہ بغدادی علیہ الرحمہ کا مزار شریف کی تعمیر آپ کا نمایاں حصہ ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[7] ۔شاہد علی رضوی، سید، مولانا،: مسائل تثویب وتکبیر ص (تعارف از مولانا محمد فارق رضا رضوی)
[8] ۔رود اد الجامعۃ الاسلامیہ ص ۷، تا ۹ ملخصاً از صفر ۱۴۰۲ھ تا شعبان ۱۴۰۲ھ مطبوعہ رام پور
[9] ۔راز نامہ قومی جنگ رام پور، ص ۶، بابت ۱۷؍جنوری ۱۹۹۰ء جلد ۲۴، شمارہ ۱۷ مضمون عالی جناب محترم حسیب احمد نوری جماعتی جمالی رام پوری
[10] ۔شاہد علی رضوی، سید، مولانا: مسائل تثویب تکبیر ص (مضمون از مولانا محمد فاروق رضوی)
[11] ۔شاہد علی رضوی ، سید؛ مولانا: مسئلہ صلوٰۃ ص ۹۶
[12] ۔اُستاد گرامی حضرت مولانا سید شاہد علی رضوی مدظلہٗ سے راقم السطور کی گفتگو ۱۴۰۹ھ، ۲۱رضوی غفرلہٗ
[13] ۔رود اد الجامعۃ الاسلامیہ ص ۷، تا ۹ ملخصاً از صفر ۱۴۰۲ھ تا شعبان ۱۴۰۲ھ مطبوعہ رام پور
[14] ۔مذکورہ جملہ کوائف حوالہ جات کے علاوہ راقم نے حضرت مفتی سید شاہد علی رضوی رام پوری سے بالمشافہ حاصل کیے اور کچھ دوسری معلومات رفیق محترم مولانا امین القادری بریلوی نے مہیا فرمائے۔ راقم ان کا تہہ دل سے ممنون ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ