مفکر اسلام مفتی سید شجاعت علی قادری
مفکر اسلام مفتی سید شجاعت علی قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا مفتی سید شجاعت علی بن حضرت علامہ مفتی سید مسعود علی قادری جنوری ۱۹۴۱ء میں بدایون یوپی (انڈیا) میں تولد ہوئے (شرح الصدور ص۴۱، مطبوعہ سبزواری پبلشرز، کراچی ۱۹۹۸ئ)
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ حافظیہ سعدیہ ، دادوں ضلع علی گڑھ سے حاصل کی۔ ناظرہ قرآن مجید حافظ غلام ربانی سے پڑھا۔ اس کے بعد مفتی صاحب اپنے والدین کے ساتھ دس سال کی عمر ۱۹۵۱ء میں پاکستان ملتان تشریف لے آئے اور یہاں مدرسہ انوار العلوم کچہری روڈ میں تعلیم کا آغاز کیا اور اسی درسگاہ سے اپنے والد ماجد کی سرپرستی میں درس نظامی کی تکمیل فرمائی۔ آپ کے مشہور و معروف اساتذہ میں علامہ مفتی سید مسعود علی قادری، رئیس المناظرین حضرت علامہ مفتی عبدالحفیظ حقانی (والد مولانا محمد حسن حقانی) اور رازی زماں محدث اعظم حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔
تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں انوار العلوم ملتان سے سند فراغ ھاصل کرنے کے بعد کراچی کو رونق بخشی ۱۹۷۰ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔ اے اسلامیات، ۱۹۷۴ء میں ایم اے عربی کی ڈگریاں بڑے اعزازسے حاصل کی۔ اور ۱۹۸۵ء میں اسی یونیورسٹی سے ’’باہوریں صدی ہجری کے سندھی علماء کی عربی علم و ادب میں خدمات‘‘ کے موضوع پر تحقیقی کام کرکیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
درس و تدریس:
کراچی میں اہل سنت و جماعت کے مختلف مدارس میں درس و تدریس اور افتاء کا کام بڑی دقت نظری ارو جانفشانی سے سر انجام دیا۔ مدرسہ مظہر العلوم جامع مسجد آرام باغ سے تدریس کا آغاز کیا ، لیکن چند سال بعد علماء اہل سنت کے اصرار پر آپ دارالعلوم امجدیہ میں بہ حیثیت مفتی اور صدر مدس خدمات انجام دیں۔ لیاقت کالج ملیر کراچی میں سولہ سال تک پروفیسر رہے، سترہ سال دارالعلوم امجدیہ میں افتاء تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔
بیعت:
آپ پیر طریقت صوفی باصفاء حضرت سید کفایت علی شاہ علیہ الرحمۃ (پیر کالونی) کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے (تذکرہ اولیاء سندھ ص ۱۴۶)
دارالعلوم نعیمیہ کا قیام:
مفتی صاحب اپنے چند مخلص دوستوں کے ساتھ مل کر ۱۹۷۵ء میں دارالعلوم نعیمہ کا آغاز فرمایا۔ دار العلوم نعیمیہ دستگیر سوسائٹی بلاک ۱۵ فیڈرل بی ایریا کراچی کا سنگ بنیاد اپنے استاد محترم حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمۃ اور دیگر علماء و مشائخ اہلسنّت سے رکھوایا اور دارالعلوم نعیمیہ کے پہلے مہتمم مفتی اور شیخ الحدیث قرار پائے۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ علاہ االحاج پیر سید منور علی شاہ جیلانی قادری خطیب جامع مسجد رحمت بھیم پورہ کراچی۔
٭ مولانا سید عرفان حسین شاہ مشہدی بھکھی شریف ضلع منڈی بہائو الدین
٭ مولانا عبدالجبار نیازی مدر دارالعلوم مہریہ صحافی سوسائٹی گلشن اقبال کراچی
٭ صاحبزادہ سید ناصر علی قادری
٭ مولانا سید محمد اشرف اشرفی جیلانی درگاہ اشرفیہ فردوس کالونی کراچی
٭ مولانا سید اشرف اشرفی جیلانی درگاہ اشرفیہ فردوس کالانی کراچی
تصنیف و تالیف:
مفتی صاحب کی شدید خواہش تھی کہ وہ عربی مین علم حدیث پر کوئی دقیق کتب لکھیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے امام محمد علیہ الرحمۃ کی کتاب ’’الاثار‘‘ کی عربی میں مبسوط شرح لکھنے کا آغاز کیا۔ وہ اس کتاب میں امام اعظم ابو حنیفہ تابعی علیہ الرحمۃ کی علم حدیث میں خدمات کو نمایاں طور پر پیش کرنا چاہتے تھے کہ تقدیر نے ان کو اس کام کی تکمیل کی مہلتنہیں دی۔ انہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ اپنی نیت کا ثواب مل جائے گا لیکن ایک اہم کام رہ گیا اس کے علاوہ بعض کتابیں تصنیف اور بعض کی شرح رقم فرمائی اور بعض کتابوں کے عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمے کئے ان میں سے چند یہ ہیں۔
٭ تفسیر مظہری: علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ کا اردو ترجمہ (نامکمل) مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی۔
٭ المواہب اللدنیہ: علاہ احمد قسطلانی علیہ الرحمۃ کا اردو ترجمہ غیر مطبوعہ
٭ الخیرات الحسان فی مناقب امام الاعظم ابی حنیفہ النعمان: شیخ ابن حجر مکی، مطبوعہ مدینہ کمپنی کراچی
٭ شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور: علامہ جلال الدین سیوطی ، طبع اول مدینہ پبلشن کمپنی طبع ثانی سبزواری پبلشرز کراچی، طبع ثالث ضیاء الدین پبلشرز کراچی۔
٭ شرح عقائد کی عربی شرح
٭ فتاویٰ رضویہ: امام احمد رضا خان بریلوی، جلد اول کے دو حصوں کی عربی عبارات کا ترجمہ کیا، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور
٭ مجدد الامۃ/ ھو امام احمد رضا (عربی)
٭ دعوت فکر از: مولانا محمد منشاء تابش قصوری کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا۔
٭ فقہ اہل سنت ، جلد اول مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی۔
٭ انشاء العربیہ ۴ جلدیں(عربی) درس نظامی کے ابتدائی طلباء کیلئے عربی ادب کا ایک خوبصورت گلدستہ، مطبوعہ مدینہ کمپنی کراچی و دیگر
٭ بارہویں تیرہویں صدی ہجری کے سندھی علماء کی عربی علم و ادب میں خدمات: (عربی) ۳ جلد پی ایچ ڈی کا مقالہ
٭ فتاویٰ کتاب المیراث: رجب کے کونڈے۔ تین طلاقوں کا مسئلہ۔ سوشلزم کیا ہے؟ عدالت اسلامیہ۔ کتاب الوصیت
اس کے علاوہ بہت سے موضوعات پر متعدد علمی اور گراں قدر مقالے تحریر فرمائے جو کہ ملک و بیرون ملک کے بہت سے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بالخصوص ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی میں
(تذکرہ اولیائے سندھ)
خطابت
مفتی صاحب عربی اہل زبان کی طرح بولتے تھے، وہ بہت عمدہ خطیب بھی تھے ملک و بیرون ملک میں بڑے برے اجتماعات سے خطاب کرتے تھے۔ انہوں نے تین مرتبہ برطانیہ کا تبلیغی دورہ کیا اور وہاں برے برے عظیم الشان کانفرنسوں میں خطابت کے جوہر دکھائے وہ ہر موضوع پر فی البیہہ تقریر کرتے تھے، اہل برطانیہ ان سے بہت مانوس تھے، ہالینڈ اور بھارت میں بھی متعدد جلسوں سے خطاب کیا، عراق اور برطانیہ کی بعض بین الاقوامی کانفرنسوں میں انہوں نے عربی میں خطاب کیا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے بہت مقبول مقرر تھے۔
شخصیت:
انہوں نے کم عمر پائی لیکن ان کی کدمات جلیلہ اور ان کے عظیم کارنامے ان کی عمر سے بہت زیادہ ہیں۔ وہ بظاہرایک شخص تھے لیکن حقیت مین ایک ادارہ تھے۔ وہ اعلیٰ اور بلند اخلاق کے مالک تھے۔ بہت شگفتہ مزاج، بزلہ سنج اور حاضر جواب تھے وہ ہر بزم کی رونق اور ہر محفل کی جان تھے ۔وہ قادر الکلام تھے اور بہت فصیح و بلیغ گفتگو کرتے تھے۔ جو لوگ ہر وقت ان کی خلوت اور جلوت میں رہنے والے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان کی زبان سے کبھی ناشائستہ کلمہ نہیں سنا گیا۔ ان کو کبھی غم میں ازخود رفتہ دیکھا نہ غسہ میں بے قابو ۔ ان کا حوصلہ اور حلم مثالی تھا۔ وہ ہمیشہ سلام میں سبقت کرتے تھے۔ تلامذہ کی بھی عزت فرماتے تھے۔ ہمیشہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہیں کام کرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتے تھے۔ اہل سنت و جماعت کے افتراق اور انتشار سے بہت پریشان رہتے تھے انہوں نے ہمیشہ جماعت اور تنظیم کی کوشش فرمائی۔
وفاقی شرعی عدالت میں چھ سال تک بطور جسٹس ملک و ملت کی خدمت کرتے رہے، کراچی یونیوسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کے ممبر تھے، وفاقی شرعی عدالت سے الگ ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بنے اور کونسل کی متعدد سب کمیٹیوں میں کام کیا۔ نفاز شریعت کمیٹی میں بھی شامل تھے لیکن ان تمام مناسب جلیلہ کے باوجود مزاج میں تواضع و انکساری ہمیشہ رہی۔
اولاد:
مفتی صاحب کے تین صاحبزادے
(۱) ڈاکٹر سید فراست علی قادری M.B.B.S (
(۲) سید محمد علی قادری
(۳) مولانا حافظ سیدناصر علی قادری ہیں ۔ ناصر علی ۱۹۹۳ء کو دارالعلوم نعیمہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں اور ماد رعلمی میں ہی تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
وصال:
پروفیسر ڈاکٹر جسٹس علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری ۲۴ جنوری ۱۹۹۳ء میں وزارت بہبود آبادی کی طرف سے ایک وفد کے ساتھ انڈونیشیا کے علمی و تحقیقی دورے پر تشریف لے گئے ابھی یہ دورہ جاری تھا کہ ۴ ، شعبان المعظم ۱۴۱۳ھ بمطابق ۲۸ جنوری ۱۹۹۳ء میں ۵۲ سال کی عمر میں دوران سفر دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ غالبا ً نماز جنازہ صاحبزادہ سید محمد مظہر سعید شاہ کاظمی صاحب نے پڑھائی۔
چند روز کے بعد جکارتہ سے پاکستان آپ کا جسم نورانی لایا گیا اور دارالعلوم نعیمیہ دستگیر سوسائٹی میں دفن کیا گیا جہاں مزار شریف مرجع علماء طلباء ہے۔
(ماہنامہ الاشرف کراچی مفتی شجاعت علی قادری نمبر ۱۹۹۳)
خواب میں رہنمائی:
حضرت علامہ مفتی احمد برکاتی صاحب (شیخ الحدیث و رئیس دارالافتاء احسن البرکات حیدر آباد سندھ) فرماتے ہیں:
’’ علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمۃ الباری ایسے استاذ تھے جو استاذ گر تھے… ایسے عالم تھے… جو عالم گر تھے… اس زمانے میں بہت سے مصنفین و مترجمین مفتی صاحب کی تحریک و تشویش کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں… فقیر کو بھی ان سے خاص نسبت تلمذ حاصل ہے… مفتی سید شجاعت علی صاحب قادری، میدان علم میں وسعت نظر رکھتے تھے… اور جدید مسائل پر لکھنے میں کوشاں رہتے تھے ، بعض مرتبہ ہم چند تلامذہ/ ان کی شفقت کی وجہ سے مسائل میں بہت زیادہ حجت کرتے تھے… اور کھل کر اختلاف کر لیا کرتے تھے… بعض اوقات والد گامی خلیل ملت حضرت علامہ مفتی خلیل خان برکاتی علیہ الرحمۃ، جب دارالعلوم امجدیہ، کراچی میں امتحان کیلئے تشریف لاتے… تو مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمۃ سے علمی نشست ہوتی … اور حضرت خلیل ملت علیہ الرحمۃ گلستان رضوی کے پھولوں کی مہک سے مفتی سید شجاعت علی قادری صاحب کو آشنا کرتے اور امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ سے ماخوذ مسائل بتاتے اور اپنی رائے دیتے… مگر مفتی سید شجاعت علی قادری صاحب، کوئی نہ کوئی پہلو، جدت و ندرت کا ضرور نکال لیتے اورنشست ختم ہو جاتی تھی… جب حضرت مفتی سید شجاعت علی قادری احب علیہ الرحمۃ کا وسال ہوا اور فقیر ان کے جنازے میں شرکت کو حاضر ہوا… اور حضرت کا خوبصورت چہرہ دیکھا … تو ان کے جسد کے پاس کھڑا ہوا… اور عرض کیا کہ ’’حضرت آپ دنیا سے جلد تشریف لے گئے ارو آپ بہت اچھی جگہ میں ہیں… میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھے خواب میں اپنی زیارت کرائیں گے اور مجھے یہ ضرور فرمائیں گے کہ …کیا وہ راستہ زیادہ عمدہ رہا جس پر آپ نے قدم رکھا … یا وہ راستہ جس پر اکابر علماء چلتے رہے اور جس کی ترغیب ہمیں تصانیف رضا میں ملتی ہے۔‘‘ مجھے یقین تھا کہ …حضرت استاذی ضرور اس کا جواب دیں گے… وقت گزرتا رہا … حتی کہ چہلم قریب آگیا… فاتحہ چہلم کی شب فقیر نے مفتی صاحب کی زیارت کی… دیکھا کہ مفتی صاحب اپنے پرانے گھر (لیاقت آباد) کے باہر ، کچی مٹی پر چٹائی بچھا کر نماز عصر پڑھ رہے ہیں ارو قریب ہی حضرت کی پرانی گاڑی فوکسی کار کھڑی ہے… فقیر قریب جا کر کھڑا ہوا… جب حضرت نے سلام پھیرا تو سلام عرض کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا… فقیر نے عرض کیا کہ ’’حضرت آپ اپنے پرانے مکان میں کیوں آگئے(وقت وصال آپ گلشن اقبال کے مکان میں منتقل ہو چکے تھے) …فرمایا کہ میاں! ہم دوبارہ اسی مکان میں آگئے یہی ہمیں چھا لگا‘‘… گویا آپ نے فقیر کی عرض پر کرم فرمایا اور خواب میں تشریف لا کر بتاد یا کہ طریقہ پرانا ہی اچھا ہے… مکان پرانا…زمین کچی… مصلیٰ چٹائی کا…گاری پرانی… حسن منظر سے پیغام دے گئے کہ اکابر کے پرانے راستوں کو نہ چھوڑنا…فقیر کو یہ خواب ااج بھی ایسا ہی یاد ہے کہ جیسے آج ہی دیکھا ہے۔
(ماخوذ : البدور السافرۃ فی احوال الاخرۃ، ترجمہ احوال آخرت پر تقریظ ص۷۶/۷۵، مطبوعہ عطاری پبلشرز کراچی سن اشاعت ۱۴۲۳ھ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)