حضرت مولانا مفتی امید علی خاں ابن دلا ور حسین خاں (پٹھان) ساکن موضوع سکھ دیرہ تحسیل شاہ آباد ضلع گیا( صوبہ بہار) تقریباً ۱۳۰۱ھ/۱۸۸۳ء میں پیدا ہوئے ۔ شاہ آباد میں میٹرک کیا اور ڈاخانے میں لر ک ہوگئے ، پھر کسی صاحب دل کی تاثیر صحبت سے علوم دینبہ کا شوق پیدا ہوا ، مولانا محمد ررسول خاں ہزاروی صدر مدرس مدرسہ امدا الا سلام ، میرٹھ سے تعلیم حاصل کی ، متوسط کتابیں جامعہ اسلامیہ عربیہ امر وہہ میں مولانا محمد امین الدین سے پرھین آخرمیں مدرسہ عالیہ رامپور میں مولانا فضل حق رامپوری ،مولانا وزیر محمد اور مولانا منور ولی دے تکمیل علوم کی مولانا سید محمد عبد العزیز ابھیٹوی سے بھی مستفید ہوئے ، رامپوری میں مولانا قاری علی حسین تلمیذ مولانا قاری محمد عبد الرحمن پانی پتی سے تجویدو قراء ت کی مشق کی بعض مسائل کی تحقیق کیلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استفادہ کیا ۔
۱۹۴۶ء میں غزالی زماں احمد سدید کاظمی دامت بر کاتہم العالیہ کی دعوت پر بحیثیت مفتی و مدتس انوار العولم ملتان تشریف اور تا حیان وہیں رہے مفتی صاحب حضرت مولانا سید محمد خلیل محدث امر و ہوی قدس سرہ (بزرگ علامہ کاظمی مدظلہ ) کے ساتھ بعض اسباق میں شریک بھی رہے ، مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے:۔
’’ میں خوانین ثلاثہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی ، مولانا حشمت علی خاں لکھنوی ومولانا ریاست علی خاں شاہجانپوری (قدست اسرارہم ) میں سے ایک (آخرالذ کر ) کا شاگرد اور تینوں کا فیض یا فتہ ہوں ‘‘
آپ بلند اخلاق ، جامع علوم اور ہمیشال مدرس تھے ، جد سخا میں بے نظیر تھے ان گنت علماء نے آپ سے کسب فیض کیا ، تسانیف میںسے ایک رسالہ القول الصحیح فی اثبات حیات السیح ۱۹۵۳ء میں مدرسہ انوار العوم سے شائع ہوا تھا ۔ ۱۳۸۳ھ /۱۹۶۴ ء میں ۸۲ سال کی عمر میں وصال فرمایا پسماند گان میں اک صاحبزادہٗ ایک صاحبزادی اور ایک بھائی چھوڑے ، مولانا حبیب احمد افق نے درج ذیل تاریخ وصال کہی[1]
بعد از دائے مغفرت ، تاریخ نقلش گوافق سد وصل حق مفتی امید علی والا مکاں
[1] شجاعت عللی قادری ،مولانا مفتی مقالہ الشیخ مفتی محمد مید ولی خاں صاحب روز نامہ سعادت ائمہ اہل سنت نمبر ، اگست ۱۹۶۸ ص ۱۷۔
(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)