فاضل یگانہ مولانا ابو البرکات محمد عبد المالک کھوڑی قدس سرہ
فاضل یگانہ مولانا ابو البرکات محمد عبد المالک کھوڑی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
ادب عربی کے بے نظیر فاضل ،مولف کتب کثیرہ مولانا ابو البرکات محمد عبد المالک کھوڑوی المعروف نہ علامہ صادقی بن مولانا محمد عالم بن گوہر خاں رحمہم اللہ تعالیٰ موضع کھوڑی متصل ڈنگہ (ضلع گجرات ) میںخاندان گورج چو ہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مولانا محمد عالم اپنے دور کے مقتدر عالم دین تھے اور فقہ ، منطق حساب اور خوش نویسی میں کامل دستر س رکھتے تھے، حضرت مولانا جان محمد قادری لاہوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرید اور مجاز تھے۔
مولانا محمد عبد المالک نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی اور برادر مکرم مولانا غلام غوث سے حاصل کی ، اعلیٰ تعلیم کے لئے استاذ الکل مولانا شیخ عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں چک عمر ( نزدلالہ موسیٰ) حاجر ہوئے اور نو دس برس تک اکتساب علوم کیا ۔تکمیل علوم کے بعد محکمہ مال میں مدد گارپٹواری کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ترقی کرتے کرتے افسر مالکے عہدہ تک پہنچ گئے ۔ آپ کے علم و فضل کا شہرہ ن واب صادق محمد کاں خامس (بہاولپور) تک پہنچا تو انہوں نے آپ کو بہالپور بلایا اور اپنی ریاست میں مشیر مال مقرر کیا اور اس کے علاوہ بہت سی ذمہ داریاں سپر دکیں ،اس جگہ آپ نے قریباً ۳۵ سال بکمال حسن و خوبی اپنے فرائض انجام دئے۔
شہر میں ایک قطعۂ زمین حاصل کرنے کے لئے مسلمان اور ہندو دونوں کو شاں تھے ، آپ نے حالات کی نزاکت کے تحت نواب صاحب کی اجازت سے وہاںمسجد بنوادی اور اس کا نام مسجد اقصٰی رکھا اور نواب صاحب سے اس کا افتتاح کرایا،نہر صادقیہ کے نقشہ او کھد وای کا آپ ہی نے انتظام کیا اس طرح آپ نے بہت بڑے ریگستانی خطے کو سیراب کرنے کا اہتمام کردیا ۔
مولانا محمد عبد المالک، قادر الکلام شاعر اور ادب عربی کے فقید المثال عالم تھے۔۱۳۰۱ھ/میں نواب محمد صادق والئی بہاوپور کی مدح میں ایک تاریخی قصیدہ لکھا جس کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ہر ایک مصرعہ سے تاریخ ( ۱۳۱۰ھ )نکلتی تھی، اگر دو مصر عوں کے حروف منقوطہ یا غیر منقو طہ کو جمع کیا جاتا تو بھی یہی تاریخ نکلتی، اس قصیدہ کامطلع یہ ہے ؎
مصلح جو دو صداقت منبع سر نہاں
ہمدم عدل و جلالت ، صادق صاحبقراں
علامہ صادقی نے عرفی ی زمین میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں ہدیۂ نعت پیش کیا ہے ،چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
اے برزدہ عرش بریں نقش قدم را
ورنام تو علم ازلی لوح و قلم را
اے فخر بذات تو صنادیدار عرب را
وے ناز بنام تو اقالیم عجم را
مشاطۂ تقدیر،رخ حسن تو آراست
تاہست تما شا بکند حسن عدم را
فطرت ، بسرز نوئے اندیشہ نہد سر
تا جلوہ بہ بنید ، زحدوث تو قد را
ہر گہ کہ تصر بادب دست تو بوسلہ
آرام زہر گونہ دہد درد و الم را
آں کس کہ گل روضۂ خضرائے تو بوید
فارغ کند از مشک ختن قوت شم را
در بیشہ ، بنام تو پناہ جست ، اگر کس
برپائے خود افگند سر شیر اجم را
اے فخر رسل اجز تو پنا ہے بکہ جو یم؟
چوں چرخ نہد بر سرم آٖات عمم را
نوراست و جودت کہ بیک جنبش مثر گاں
طے کر د مقامات فلک راو حرم را
برودرگہ تو صادقی آور د پنا ہے
بنواز بہ الطاف ، در افتادئہ غم را
۱۳۳۳ھ/۱۹۱۵ء میں نواب صاحب کی معیت میں حرمین شریفین کی حاضری سے مشرف ہوئے ، دربار رسالت میں منظوم ہدیۂ سلام پیش کیا جس کا ایک ایک لفظ فراوانی شوق اور گہری عقیدت کا پتہ دیتا ہے ،ذیل میں دو شعر پیش کئے جاتے ہیں ؎
السلام اے نیر تابندئہ برج و جود
السلام اے گوہر زخشندہ انعام و جود
السلام اے مظہر حق ، مصدر اسرار غیب
کہ تو حق ظاہر شدہ دیدئہ ال شہود
واپسی پر حضرت مولانا محمد سلام اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے قطعۂ تاریخ لکھا ؎
شکر ذات کبریا خوش آمدید
مرحبا و حبذا خوش آمدید
حج بیت اللہ وہم بیت رسول
شدبہ لطف حق ادا خوش آمدید
از حریم روضۂ خیر الانام
زائر! صل علیٰ خوش آمدید
صد مبارک لک مبارک باد
صد سلام وصد دعا خوش آمدید
شکر حق ہر دو فضیلت شدادا
از عطیات خدا خوش آمدید
گفت شائق مصرع سال قدوم
’’حاجیا صد مرحبا خوش آمدید‘‘
یا الٰہی!ایں سعدت از کرم
بہر شائق ہم عطا خوش آمدید
مولانا محمد عبد المالک با عمل ار صاحب حال عالم دین تھے۔ آپ اپنے اور اد میں قصیدہ بردہ شریف بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے[1]آپ کو اس قصیدئہ مبارکہ کے ساتھ اس قدر شغف تھا کہ پہلے’’ اطباق الثردہ فی شرح القصیدۃ البردہ ‘‘ کے نام سے ایک شرح لکھی لیکن اس سے تشنگی دور نہ ہوئی تو ’’حسن البحردہ فی شرح القصیدہ البردہ ‘‘کے نام دے دوبارہ ایک مبسوط شرح لکھی جس سے آپ کے علمی جو ہر خوب خوب نمایاں ہوئے۔ شرح کے مقدمہ میں قصیدئہ مبارکہ کی افادیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’میں نے ہار ہا آزمایا ہے کہ یہ حصول حاجات اور دفع مصائب کے لئے تیر بہدف سے ثابت ہوا ہے ۔۔۔۔ ۔ جب ایسا ثابت ہے کہ لاکھوں بلکہ کروڑوں کے حاجات حاصل ہوئے اور ہزاروں مصائب اس کے پڑھنے سے رفع ہوئے ہیں تو ان کو اتفاق پر حمل کرنا جہالت اور گمراہی ہے۔۔۔۔۔ اس کے منکرین وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کو اسلام سے واسطہ نہیں ہے یا جو اس کا تجربہ بہ نہیں کرتے[2]‘
اس شرح میں آپ نے اردو ترجمہ ، حل لغات اور بیان مطلب کے علاوہ ہر شعر کا ترجمہ فارسی شعر میں کیا ہے۔
آپ کی تیسری اہم تصنیف الجواہر المضیہ فی شرح القصیدہ الغوثیہ ہے ۔ اس میں قصیدہ غوثیہ کی ملبسوط شرح اور مسائل تصوف کی سیر حاصل بحث ہے نیز قصیدئہ مبارکہ پر صرفی اور نحوی طور پر کئے جانے والے اعتراضات کو متقدین شعراء کے حوالے سے بڑی خوش اسلوبی سے رفع کیا ہے۔ آپ کے معاصر حضرت مولانا محمد اعظم نو شاہی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :۔
’’موجودہ زمانہ میں قسیدہ شریفہ کی ایک شرح جنا ب مولوی فاضل ابو البرکات عبد المالک صاحب مشیر مال ، ریاست بہاولپورنے لکھی ہے جو بس غنیمت ہے تحقیق الفاظ و معانی کی خوب دادی ہ ، صرفی ِ نحوی عروضی ، قراء تی اعتراضوں کو بد لائل عقلی و نقلی اس خوبی سے اٹھایا ہے کہ اگر ترک ادب اسلاف مانع نہ ہوتا تو میںکہہ دیتا کہ مذاق زمانہ کے مطابق یہشح سب سے اچھی ہے۔‘‘
ان کے علاوہ آ پ کی تصانیف کے نامیہ ہیں :
۴۔ شرع محمدی ( علم میراث ) مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی۔
۵۔ شرح درود کبیرت احمر
۶۔ النور
۷۔ المزمل یہ دونوں رسالے سیرت پاک پر ہیں ۔
۸۔ النکاح ، مسائل نکاح طلاق۔
۹۔ النبوۃ والرسالۃ ، نبوت و رسالت کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔
۱۰۔ صادق الاشادفی شرح باند سعاد ، قصیدئہ ’’باعث سعاد کی شرح ۔
۱۱۔ شاہان گوجر، مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڑھ، قوم گوجر کی مستند تاریخ ہے[3]
علامہ صادق مولانا محمد عبد المالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ۲۶ جمادی الثانیہ، ۲۱ جولائی ۱۳۲۰ھ/۱۹۴۱ء بروز سوموار موضع کھوڑی ( ضلع گجرات) میں ہوا [4]
مولوی غلام احمد اختر مؤرخ سر شتہ تالیفات بہاولپور نے قطعۂ تاریخ کہا ؎
کے نگہ بر روئے عبد المالک مالک رسد بست رخت زندگی راسوئے در گاہ صمد
جس اختر ز فلک تاریخ ترحیل و بگفت ’’مالک ملک فصاحت جر با عیش ابدا‘‘[5]
مولانا حکیم محمد مظفر علی[6] مدظلہ ساکن چک عمر (گجرات) نے درج ذیل تاریخ وفات کہی ؎
فخر گوجر عبد مالک نیک نام
کرد حلت جانب دار السلام
بود عالم با عمل از اب وجد
فیض یاب ازخانہ اش ہر خاص و عام
گفت شائق با مظفر دیں چنیں
کن رقم تاریخ آں’’ذی احترام‘‘
[1] ماہنامہ العزیز ، بہاولپور: جو ن ۱۹۴۱ئ، ص ۴۷
[2] محمد اعظم نوشاہی ، مولانا : العصیدۃ الیوسفیہ لقاری لقصیدۃ الغوثیہ ( مطبوعہ کریمی پریس لاہور ۱۳۴۲ھ) ص ۱۴
[3] حسن البحردہ : ٹائیٹل پیج ، ص ۳
[4] ماہنامہ العزیز ، بہاولپور : ستمبر ۱۹۴۱ء ص ۳۴ ( نوٹ تاریخ وصال ۶۲ جمادی الثانی، ۲۱ جولائی ۱۳۶۰ھ/۱۹۴۱ء بروز سو سورا ہے )
[5] ایضاً: ص ۳۵
[6] یہ حالات جناب حکیم محمد مظفر علی زیدہ مجدہ کے مکتوب بنام الحکماء الحاج حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ سے لئے گئے ہیں ، جو سوار دوسری جگہ ماخوذ ہیں ان کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)